عمران خان صاحب پر بہت سارے لوگوں نے احسانات کئے ہوں گے لیکن ان کے اصل محسن میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری ہیں ۔ان دونوں کی حرکتوں کی وجہ سے وہ وزارت عظمیٰ کے لئے چوائس بنے اور آج بھی اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سوا کوئی چوائس نہیں تو اس کی وجہ بھی یہی دو شخصیات ہیں۔
زرداری صاحب اگر اپنے دور حکومت میں اچھی طرز حکمرانی کی مثال قائم کرتے تو نواز شریف چوائس نہ بنتے اور اگر نواز شریف ، راتوں رات طیب اردوان بننے کی کوشش نہ کرتے تو عمران احمد خان نیازی چوائس ہی نہ بنتے۔ آج بھی اگر ان کے سوا کوئی چوائس نہیں تو اس کے ذمہ دار بھی یہی دونوں لیڈر ہیں ۔
میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ 2012میں جب پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھرنے کا فیصلہ ہوا تو بجائے اس کے کہ زرداری صاحب رکاوٹ بنتے ، وہ خود بھی اس کام میں لگ گئے۔ لاہور اور پنڈی کے جلسوں کو جہاں طاقتور حلقوں نے مختلف لوگوں سے سپورٹ کروایا تووہاں زرداری صاحب نے بھی اپنے دوستوں کے ذریعے کروڑوں روپے خرچ کروائے ۔ تب زرداری صاحب کا یہ خیال تھا کہ عمران خان دائیں بازو کی سیاست کرتے ہیں اور وہ پیپلز پارٹی نہیں بلکہ نون لیگ کے ووٹ کاٹیں گے ۔
ایک روز ڈاکٹر عاصم جو اس وقت زرداری صاحب کے خاص وزیر تھے، سے ایک محفل میں ملاقات ہوئی تو ان سے عرض کیا کہ یہ زرداری صاحب اپنے پائوں پر کلہاڑا کیوں ماررہے ہیں ؟ ان کا جواب تھا کہ ہم جیسے لوگوں کی سوچ جہاں ختم ہوتی ہے، وہاں سے زرداری صاحب کی شروع ہوتی ہے ۔ 2013کے الیکشن ہوئے تو پتہ چلا کہ پی ٹی آئی نے پنجاب سے مسلم لیگ(ن) کا نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کا جنازہ نکال دیا جبکہ الیکٹیبلز بھی مسلم لیگ (ن) کے نہیں بلکہ پیپلز پارٹی ہی کے پی ٹی آئی کی طرف گئے۔
زرداری صاحب اس سے بھی باز نہیں آئے اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپنی پارٹی کے رضاربانی کی بجائے صادق سنجرانی کے حق میں فیصلہ دیا۔ انتخابات کے بعد وہ مولانا فضل الرحمٰن کی بات مان لیتے اور اسمبلیوں میں نہ بیٹھتے تو آج ملک کی یہ ابتر حالت ہوتی اور نہ ان کی جماعت کی لیکن ان کا خیال تھا کہ سندھ مل گیا اور وہ جیل جانے سے بچ جائیں گے کیونکہ چیئرمین نیب تو ان کا نامزد کردہ تھا۔
اس لئے اس جعلی نظام کیلئے سہارا بنے ۔ چنانچہ وزیراعظم اور صدر کے انتخاب میں بھی انہوں نے بالواسطہ پی ٹی آئی کا گیم آسان کردیا لیکن پھر کیا ہوا کہ نہ صرف انہیں بلکہ پہلی مرتبہ ان کے گھر کی خواتین کو بھی جیل جانا پڑا ۔ اب وہ ڈیل کرکے باہر نکلے اور خاموشی سے سندھ حکومت پر اکتفاکررہے ہیں ۔
وہ اپنی پارٹی کو حقیقی اپوزیشن کی سیاست کرنے دے رہے ہیں اور نہ اپوزیشن کومتحد کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ خلوتوں میں پارٹی رہنمائوں کو یہ فلسفہ سمجھاتے رہتے ہیں کہ آرام سے بیٹھ کر تماشہ دیکھو ۔
دوسری طرف میاں نواز شریف ہیں جنہوں نے پہلے تو بادشاہانہ انداز میں سیاست کرکے عوام کو مایوس کیا۔ وہ بھی اسی طرح خوشامدیوں میں پھنس گئے جس طرح ان دنوں عمران خان پھنسے ہیں۔ ان خوشامدیوں کے ورغلانے پر اپنی پارٹی کی طاقت اور جماعتی ساخت کا غلط اندازہ لگا کر پنگے بازی کی اور نتیجتاً وزارت عظمیٰ سے رخصت ہوئے۔ وہ اگر اس وقت بات مان جاتے اور میاں شہباز شریف کو آگے کرنے پر آمادہ ہوجاتے تو بیٹی سمیت جیل جاتے اور نہ ملک کو سونامی کی اذیت برداشت کرنی پڑتی۔
نہ شہباز شریف کے بیانیےکو اپنایا اور نہ شہباز صاحب کو اپنے انقلابی بیانیے پر آمادہ کیا۔ چنانچہ ان کی برکت سے عمران خان صاحب واحد چوائس بن گئے ۔ہر کوئی جانتا ہے کہ میاں صاحب کی رہائی اور مریم کی خاموشی ڈیل کا نتیجہ ہیں اور بجا طور پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر آخر میں یہی کرنا تھا تو پھر پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی؟
اب انہوں نے بھی یہ فلسفہ گھڑ لیا ہے اور خلوتوں میں اپنے ساتھیوں کو سمجھارہے ہیں کہ کچھ کرنے کی بجائے آرام سے بیٹھ کر تماشہ دیکھتے رہو تاکہ عمران خان ملکی معیشت کو مکمل تباہ کرکے ،اپنے لانے والوں کو بھی رسوا کرے۔ شہباز شریف کوئی بات بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک طرف نواز شریف ان کا ساتھ نہیں دیتے اور دوسری طرف عمران خان اس کو سبوتاژ کردیتے ہیں۔ نواز شریف کو نہ ان ہائوس تبدیلی میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ وہ کھل کر نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ پارلیمنٹ کو جعلی بھی کہتے ہیں اور اس میں اپنے لوگوں کو بٹھا کر سندجواز بھی فراہم کررہے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ عمران خان بڑے تفاخرانہ انداز میں کہتے ہیں کہ ان کے سوا کوئی چوائس نہیں ۔ یوں غور سے دیکھا جائے تو عمران خان صاحب کا اقتدار میں آنا اورپھر اب تک برقرار رہنا میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی اس مجرمانہ اور ذات کے گرد گھومنے والی سیاست کا مرہون منت ہے ۔ اس حد تک تو عمران خان کا تجزیہ بالکل درست ہے لیکن دوسری طرف وہ خود معاملات کو اس طرف لے گئے ہیں کہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ عمران خان کے اقتدار اور ملکی سلامتی میں سے کسی کا ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا اور ظاہر ہے انتخاب ملک کا کیا جائیگا ۔
اب اگر اپوزیشن کی طرف سے کوئی روڈ میپ نہیں دیا جاتا اور یہ نوبت آجائے کہ ملک اور عمران خان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑجائے تو پھر کیا ہوگا؟یقیناً ایسا تو نہیں ہوگا کہ ان دونوں سے معذرت کرکے کہا جائے کہ ہم معافی چاہتے ہیں اور آپ لوگ آکر برائے مہربانی اقتدار سنبھال لیں۔ یہ خطرہ موجود ہے کہ عمران خان سے جان چھڑانے کی صورت میں موجودہ حالات سے بھی کوئی زیادہ بھیانک حل سامنے آجائے ۔
اس لئے زرداری صاحب اور نواز شریف کواپنی اپنی ذات کے حصارسے نکل کر کوئی روڈمیپ دینا چاہئے ۔ قوم کو اتنا تو بتائیں کہ وہ نئے انتخابات چاہتے ہیں، قومی حکومت، ان ہائوس تبدیلی یاپھر کچھ اور ۔ نہیں تو پھر سیاست چھوڑ دیں ۔یہ تو کوئی سیاست نہ ہوئی کہ اپنے آپ کو بچانے یا پھر مقتدر حلقوں کو سزا دینے کے لئے پوری قوم کو سزا دی جائے اور وہ تماشہ دیکھتے رہیں۔