• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں بہت سے شعبوں میں اچھا مستقبل بنا سکتی تھیں لیکن انھوں نے تعلیم کے شعبے کو اپنایا ،نئی نسل میں علم کی روشنی منتقل کرنا ان کا خواب تھا ،کرائے کی چھوٹی سی عمارت میں انھوں نے ایک اسکول قائم کیا جہاں انتہائی مناسب فیس کے ساتھ بچوں کو تعلیم کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا ، کچھ ہی عرصے میں ان کی محنت ،لگن اور ذاتی توجہ سے یہ اسکول علاقے کے بہترین تعلیمی ادارے میں بدل گیا ، جہاں اپنے بچوں کا داخلہ کراناوالدین کے لئے باعث فخر سمجھا جانے لگا۔

کبھی کوئی ضرورتمند ان کے پاس سے خالی ہاتھ نہیں گیا ،مجھے بھی زندگی میں ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ،خاص طور پر ٹائم مینجمنٹ میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں ،بیس سال قبل میرے جاپان آنے کے بعد بھی ان سے کبھی رابطہ منقطع نہیں ہوا ، مجھے وہ اپنا چھوٹا بھائی کہا کرتی تھیں اور ہمیشہ ہی انھوں نے بہن بن کر دکھایا ،لیکن کہتے ہیںکہ زندگی کے اچھے دن بہت تیزی کے ساتھ گزرتے ہیں ان کے ساتھ بھی یہی ہوا ،ان کی زندگی ان کا اکلوتا بیٹا جس کی ابھی تعلیم بھی پوری طرح مکمل نہ ہوئی تھی کہ اس کی شادی کی منصوبہ بندی شروع کردی گئی تھی۔

تعلیم مکمل ہوتے ہی شادی بھی کردی گئی، صرف پانچ ماہ قبل فروری کے آخری ہفتے میں ہی تو میں نے کراچی میں ان کے اکلوتے بیٹے کی شادی میں شرکت کی تھی ،شاید وہ آخری خوشی تھی جو مسز نرگس ظفر جعفری اپنی زندگی میں دیکھ پائی تھیں اور اس کے بعد ان کی خوشیوں کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ،پاکستان میں کورونا کی وبا نے سر اٹھانا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ وباپورے ملک میں پھیل گئی۔

حکومت نے لاک ڈاون شروع کیا تو تمام سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگوں نے گھروں میں رہ کر اور سماجی فاصلے رکھ کر اس وبا کا مقابلہ کیا ، لیکن پھر ماہِ رمضان آگیا جس میں لوگوں نے گھروں میں رہ کر رمضان المبارک کی عبادتیں کیں، عید کی آمد آمدہوئی توسپریم کورٹ نے مارکیٹیں کھولنے کا حکم صادر کردیا ،جس کے بعد حکومت نے بھی لاک ڈاون میں نرمی برتی اور لوگوں نے عید کی شاپنگ کے لئےمارکیٹوں کا رخ کیا۔

مسز نرگس ظفر جعفری بھی اپنے آپ کو روک نہ پائیں وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی دلہن اور اپنی اکلوتی بہو کی پہلی عید سادگی سے نہیں منانا چاہتی تھیں اس لئے عید سے ایک دن پہلے وہ شاپنگ کے لئے مارکیٹ چلی گئیں ،تمام تر احتیاط کے باوجود وہ مارکیٹ سے گھر خالی ہاتھ نہیں بلکہ کورونا کی بیماری کے ساتھ لوٹیں ،عید کے دن انھیں ہلکا بخار محسوس ہوا۔

بخار کی گولی سے علاج کی کوشش کی تو افاقہ نہیں ہوا ،اگلے دن بخار تیز ہوا ،تیسرے دن سانس لینے میں تکلیف محسوس ہوئی تو گھر والوں کو تشویش ہوئی ،کسی تعلق سے کورونا کا ٹیسٹ کرایا گیا اور ساتھ ہی شوہر مقامی اسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹروں نے کورونا کے خدشے کے تحت داخل کرنے سے انکار کردیا ، صدر میں واقع ایک بڑے اسپتال لے کر پہنچے تو اسی ہزار روز کے کمرے میں داخل کرلیا گیا اور اسی وقت کورونا کی رپورٹ بھی آگئی۔

جس میں کورونا کی تصدیق ہوچکی تھی ،مسز نرگس ظفر جعفری نہا دھوکر اپنے پیروں پر چل کر اسپتال پہنچیں تھیں ،انھیں کورونا وارڈ کے پرائیوٹ کمرے میں لے جایا گیا اور چند گھنٹوں بعد ہی ان کے شوہر کو بتایا گیا کہ آپ کی اہلیہ کی طبیعت زیادہ خراب ہے لہٰذا انھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا جارہا ہے اور پھر اگلی صبح مسزنرگس ظفر صرف پچپن سال کی عمر میں اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئیں۔

ان کی وفات کے بعد قریبی رشتہ داروں کی بے حسی کی وجہ سے ایک نئے المیہ نے جنم لیا ،ان کے شوہر سے آج فون پر بات ہوئی ،ان کی آواز میں تکلیف اور کرب نمایاں تھا ۔ وہ بتارہے تھے کہ نرگس کی وفات کے بعد سگے بھائی بہنوں نے بھی آخری رسومات تو دور کی بات گھر آنے کی تکلیف بھی گوارہ نہیں کی۔

انھیں اور ان کے بیٹے کو اچھوت سمجھا جارہا ہے جبکہ ان کا اور بیٹے بہو کا کورونا ٹیسٹ بالکل کلیئر ہے ،پوری دنیا کے دکھ درد میں شریک ہونے والی خاتون کی وفات پر کوئی پرسہ دینے والا نہیں ہے سوائے ایک بہن کہ جو مشکل وقت میں ساتھ رہی ہیں ،ظفر اقبال جعفری نے پورے معاشرے سے درخواست کی ہے کہ خدارا کورونا کی وبا ایک طرف لیکن انسانیت بھی تو کوئی چیز ہے۔

خون کے رشتے بھی کوئی اہمیت رکھتے ہیں ،احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنے خونی رشتوں کی آخری رسومات میں شرکت کریں، مرحومین کے لواحقین کو دلاسہ دیں، انھیں آپ کی ضرورت ہے، یہ ضرور یاد رکھیں یہ بیماری کسی کو بھی لگ سکتی ہے خدارا خود غرض نہ بنیں۔

ظفر اقبال جعفری کی آواز اب ہچکیوں میں ڈوب چکی تھی لہذا میں بھی فون رکھنےکے بعد سوچ رہا تھا کہ ایک طرف بعض نجی اسپتال والے اس قدرتی آفت میں بھی لوگوں کو لوٹ کر کاروبار چمکا رہے ہیں جنھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے تو دوسری طرف اپنوں کا خون سفید ہوچکا ہے موت پر رونے کو بھی تیار نہیں ۔اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔

تازہ ترین