• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر:قاری عبدالرشید۔۔۔اولڈھم


ان دنوں ایک طرف تو جید علماء دین کی اموات کی کثرت ہے،اہم شخصیات رخصت ہوتی چلی جا رہی ہیں جو لمحہ فکریہ ہے، گنے چنےعلماء دین جن کاوجود باقی ہےمسلمانوں ان کی موجودگی کو غنیمت سمجھتے ہوئےان سے دینی علوم اورمسائل سیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی سکھانے کی بھر پور کوشش کریں۔فائدہ دینے والی چیز جب نایاب ہونے لگتی ہے تو لوگ زیادہ سے زیادہ اس کو محفوظ کرنے اور جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں،علم دین کی بقا علماء دین کے وجود سےباقی ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ علم دین علماء کرام سے سیکھا جائے اور ان کے وجود بامسعود کو غنیمت جان کر ان کی قدر کرنا بھی سیکھی جائے۔یہ ہماری شامت اعمال نہیں تواورکیاہےکہ رب العزت کی ناراضگی اتنی زیادہ ہے کہ مراکزاسلام حرمین شریفین بھی مسلمانوں پر بندہوگئے ہیں۔حج جوشوکت اسلام کامظہر اورمسلمانوں کی اجتماعیت کا عملی نمونہ ہے، اس سال عالم اسلام کے مسلمانوں کو حج کی ادائیگی سے بھی روک دیاگیاہے،مساجدومدارس اوردینی مراکز کی رونقیں ماند ہیں،مسلمان بچوں اوربچیوں کی دینی تعلیم وتربیت کا سلسلہ رکا ہوا ہے،دنیا کے کام چل رہے ہیں اوردین کے کام بندکروا دیئے گئے ہیں،ان پابندیوں کوعلماء کرام نے آگے بڑھ کر قبول کرلیا۔خیرجونقصان ہوایاہورہاہے اس کامداواتو کئی برس میں نہیں ہوسکے گا۔ایسے دور میں اہل دین تڑپتے اور روتے رہے لیکن فیصلے کی کنجی ان کے ہاتھ میں نہیں تھی۔مراکزاسلام جہاں ہروقت رحمت الہٰی نازل ہوتی ہے ان میں عبادات پر بندش کے فیصلے نے اہل دین کویہ کہنے پرمجبور کردیاکہ یا اللہ ایسےحالات میں ہماراجینا بھی کیا جینا ہے اوربڑی خاموشی مگر تیزی سے سفر آخرت پرروانہ ہونا شروع ہوگئے۔جیسے کسی نے کہہ دیا ہو، اے علمائے کرام پریشان نہ ھو،کام نہ رہے تو آرام ہی ہوتا ہے، چلے آئو جنت میں اور آرام کرلو۔ہمارے معاشرے میں اہل دین یعنی علماء کرام کاادب واحترام مفقود ہے ہر شخص،جب چاہتاہے جس کوچاہتا ہےکلماتِ لعن وطعن سے نواز دیتا ہے،جب کہ یہ بات ہر وقت ذہن میں ہونی چاہئے کہ علماء کرام بھی ہماری طرح انسان ہیں اوربشریت کے تقاضے ان کے ساتھ بھی لگے ہیں،غلطی ہربنی آدم سے ہوتی ہے،اس بات کی تائید صحیح حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر انسان غلطی کرتاہے اوربہترین غلطی کرنے والا وہ ہے جو(گناہ کے بعد)توبہ کرلے(الحدیث)اس میں کوئی شک نہیں کہ توبہ واستغفار اور رجوع الی اللہ علمائے کرام کا شیوہ ہے۔اس لیے حدیث کی رو سے تائبین بہترین لوگ ہیں۔ کائنات کے خالق نے علم دین کا سیکھنا فرض قرار دیا ہےاور علماءکو نبیوں اور رسولوں کا وارث بنایا ھے، قرآن وحدیث میں وارد احکام کو سمجھنے کے لیے عقل ودانش کے علاوہ علماء و فقہاء کی ضرورت ہے جنہوں نے قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیئے وہ سارے علوم حاصل کیے ہیں جن کا جاننا ضروری ہے،مثلاً نحووصرف،لغت،بلاغت،اصول تفسیر،اصول حدیث، اصول فقہ،سیرت،تاریخ،علم اسنادحدیث اوراسماء الرجال وغیرہ،یہی وجہ ہے کہ امام شافعیؒ نے فرمایا کہ جو شخص کتابوں کی ورق گردانی سے علم حاصل کرے گا وہ اللہ کے دیئے گئے احکامات کوضائع کردےگا (آداب العلماءوالمتعلمین) حدیث میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالٰی دنیا سے علم اٹھانا چاہیں گے تویکایک نہیں اٹھائیں گے بلکہ دھیرے دھیرے علمائے دین کواٹھائیں گےجس کی وجہ سے علم دین خودبخود اٹھ جائے گا،نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا اورمعاملہ جاہلوں کے ہاتھ میں آجائے گا،ان سے دینی مسائل پوچھے جائیں گے اوروہ اپنی رائے سے مسائل بتائیں گے،نتیجتاً خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔دشمنانِ اسلام مختلف وسائل و ذارئع سے علمائے کرام کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں تاکہ شرعی علوم کے سوتے خشک ہوجائیں،عوام و خواص کا ان سے رابطہ کم ہوجائے اور دین اسلام بجائے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کے موسم خزاں کا شکار ہوجائے ۔آئیں عہد کریں کہ طاغوتی طاقتوں اور ان سے متاثرہ نام نہاد اہل فکرودانش کی علماء مخالف تحریروں اوربیانات کویکسر نظر انداز کرکے اللہ اور رسولﷺ کے متعین کردہ مقام و مرتبہ کو علمائے کرام کے سر کا تاج بنائیں گے اور اللہ و رسولﷺ سے محبت و الفت کے ساتھ عمومی طور پر تمام مسلمانوں سے اور خصوصی طور پر علمائے کرام سے محبت و الفت رکھیں گے۔

تازہ ترین