کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ‘‘ میں گفتگوکرتے ہوئے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی نے کہا ہے کہ نظام انصا ف گل سڑچکا،انہدام کی طرف تیزی سے جارہا ہے،نیب قانون میں تضاد،عدالتوں کو ضمانت کا اختیار ہی نہیں دیا گیا،وکیل میر شکیل الرحمٰن امجد پرویز نے کہا کہ ایل ڈی اے ہمارے جواب سےمطمئن تھا،ہمیں دوبارہ نوٹس نہیں بھیجا،گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا کہ کے الیکٹرک کو پچھلے چند برسوں میں سسٹم اپ گریڈ کرنا تھا مگر وہ اس میں ناکام رہا، معروف صنعتکار عارف حبیب نے کہا کہ حکومت کی طرف سے سبسڈی بہت کم لاگت کے مکانات کیلئے دی جائے گی، ایسے لوگ جو بیس سے تیس ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں یہ سبسڈی صرف ان کیلئے ہے۔وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی نے کہا ہے کہ عام طور پر ضمانت کے فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز tentative nature ہوتی ہیں، ان کا اطلاق صرف ضمانت کی حد تک ہوتا ہے ٹرائل اس سے legally not bound to be ifluence by those observations عموماً یہ آرڈر میں لکھا بھی ہوتا ہے، اگر نہ بھی لکھا ہو پھر بھی یہ ایک سیٹلڈ لاء ہے کہ ضمانت کے مرحلہ پر دیا گیا عدالتی حکمنامہ ٹرائل کورٹ کو متاثر نہیں کرے گا، لیکن اس آرڈر کے فیلڈ میں رہنے کی وجہ سے وہ عدالت اس سے انڈراسٹینڈنگ کے لیول پر اس آرڈر کو سمجھے کہ یہ مجھ پر influence کررہی ہے اور بائنڈنگ ہے لیکن سیٹلڈ لاء ہے کہ یہ ٹرائل کورٹ کو متاثر نہیں کرتی ہیں، ٹرائل کورٹ نے ایک جامع فیصلہ دینا ہوتا ہے جس میں سزا یا بریت کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اس حد تک یہ کوئی خوفناک صورتحال نہیں ہے، باقی دیگر معاملات میں میری رائے یہ ہے کہ موجودہ نظام انصا ف گل سڑ چکا ہے اور انہدام کی طرف تیزی سے جارہا ہے، جس طرح مظلومین اور سائلین اس نظام میں سقم کا شکار رہتے ہیں اسے دور کرنے کیلئے ہم نے آزادی کے بعد سے کوئی کوشش نہیں کی، یہاں انتقام کی بنیاد پر قانون سازی کی جاتی ہے، انتقام کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو prosecute کیا جاتا ہے، عدالتیں بعض اوقات بے بس ہوتی ہیں بعض اوقات ان کی اپنی جانکارانہ رائے یہ ہوسکتی ہے کہ یہ کسی کیخلاف کیس بن سکتا ہے، نیب قانون پرویز مشرف نے بنایا تھا، ایک ڈکٹیٹر نے اس وقت کے حکومتی لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے نیب کا احتسابی قانون بنایا تھا۔نیب قانون میں یہ بنیادی تضاد اور painfull expression of law موجود ہے جو ناانصافی ہے کہ نیب عدالتوں کو قانون میں ضمانت کا اختیار ہی نہیں دیا گیا، اس قانون میں بہت سی غیرانسانی چیزیں ہیں جب ان پر عملدرآمد ہوتا ہے، یہ اس طرح کا نظام ہے کہ اگر کوئی انسان بھی اس میں پھنس گیا تو اس کی نسلیں نظام انصاف کے حصول کیلئے برباد ہوجاتی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں عابد ساقی نے کہا کہ یہ لاء کو appreciate کرنے کا نارمل طریقہ کار نہیں ہے، اس میں ظاہر ہے جج صاحبان کی اپنی رائے ہے ہمار ے لئے قابل احترام ہیں، ان تمام معاملات کو سپریم کورٹ میں ظاہر ہے میر صاحب کا وکیل ان چیزوں پر argue کرے گا لیکن یقیناً یہ بات ہے کہ اگر کوئی اسپیشل لاء ایک فیلڈ میں پہلے ہی آپریٹو ہے جو اپنے اندر میکنزم رکھتا ہے تو ظاہر ہے وہ جو جرم ہے وہ اسی قانون کے تحت determine ہونا چاہئے یہ سیٹلڈ لاء ہے لیکن جج صاحبان نے اپنے طور پر ایک لیگل فائنڈنگ دی ہے، ایک موقف اختیار کیا ہے تو یقیناً اس کے خلاف ہمارے پاس سپریم کورٹ جانے کا آپشن ہے، وہاں سے مجھے امید ہے کہ یہ ججمنٹ set a side ہوجائے گی اور میر صاحب کو ضمانت مل جائے گی کیونکہ ان کا کیس بعض نکات پر بہت واضح ہے خصوصاً چونتیس سال کی جو تاخیر ہے۔ وکیل میرشکیل الرحمٰن امجد پرویز نے کہا کہ ہوتا یہ ہے کہ جو ضمانت کا آرڈر ہے اس میں دی گئی آبزرویشن tentative نوعیت کی ہوتی ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان بے شمار فیصلوں میں یہ کہہ چکی ہے کہ ضمانت کے آرڈر میں جو بھی آبزرویشنز ہوں گی وہ tentative نوعیت کی ہوں گی وہ final verdict of guilt نہیں ہوتا نہ ہی وہ آبزرویشنز ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ امجد پرویزنے کہا کہ ضمانت کے فیصلے میں یہ نہ بھی لکھا ہو تو بھی قانونی حیثیت تبدیل نہیں ہوتی، قانونی حیثیت یہی رہتی ہے کہ ضمانت کے آرڈر میں آبزرویشن tentative نوعیت کی ہوتی ہیں اور ٹرائل کورٹ نے کیس کا فیصلہ ہمیشہ اپنے سامنے آنے والے شواہد کے مطابق کرنا ہوتا ہے۔ جب بھی سرکار کوئی ہاؤسنگ اسکیم بناتی ہے پبلک کے لئے تو اکثر و بیشتر سرکار کے پاس وہ ہاؤسنگ اسکیم بنانے کیلئے ساری اراضی نہیں ہوتی ہے، اس کا طریقہ کار پھر یہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں قانون حصول اراضی ہے ان قوانین کے تحت مختلف ادارے شہریوں کی زمینیں حاصل کرتے ہیں، اب جو شہریوں کی زمینیں حاصل کی جاتی ہیں اس کے against جو ہے ، وہ ساری سرکار نے نہیں رکھنی ہوتی بلکہ قانون یہ ہے کہ 70فیصد سرکار رکھتی ہے ا س زمین کا حصہ اور 30فیصد زمین کے مالک کے پاس رہنے دیتی ہے، یہ جو 30فیصد زمین کے مالک کے پاس رہنی ہے اس کو excemption کہتے ہیں اور یہ favour نہیں ہوتی اس کا حق ہوتی ہے، سرکار جو 30فیصد زمین شہری کو دیتی ہے اس کے ساتھ ترقیاتی اخراجات الگ سے وصول کرتی ہے ان سڑکوں کیلئے اور پارکس سمیت دیگر سہولیات کیلئے لیتے ہیں، یہ favour نہیں ہے قانون کے تحت right ہے۔ نیب خود مانتا ہے کہ جو 180کنال اور 18مرلے اراضی لینڈ اونرز کی ایل ڈی اے نے لی تھی یہ بات طے ہے، یہ بات بھی نیب مانتا ہے کہ اس 18مرلے یعنی 180کنال اراضی کے عوض میں جو لینڈ اونرز تھے جن کے میر شکیل الرحمٰن مختار عام تھے ان کو 54کنال 5مرلہ as of right ملنی تھی اسی excemption policy کے مطابق۔ ایک بات تو طے ہوگئی کہ یہ 54کنال 5مرلہ پر کسی کا کوئی جھگڑا نہیں ہے، نیب بھی تسلیم کرتا ہے کہ یہ ان کی entitlement تھی اس ایگزمپشن پالیسی کے تحت۔ میر صاحب کو جب یہ 54کنال 5مرلہ دیئے جارہے تھے تو اس کے رقبے کے اندر دو سڑکیں تھیں جو ابھی ماسٹر پلان کا حصہ نہیں تھیں، اس وقت یہ فیز بہت ابتدائی مرحلے پر تھا ابھی ماسٹر پلان بھی منظور نہیں ہوا تھا، اس کیس کی excemption کے چار سال بعد، یہ excemption تو 1986 ء کی ہے اور ماسٹر پلان 27اگست 1990ء میں منظور ہوا ہے، ایل ڈی اے نے مناسب سمجھا کہ یہ جو دو سڑکیں آرہی ہیں یہ ان کو قیمت کے عوض بطور اضافی زمین کے دیدی جائے، ایل ڈی اے نے اس وقت کے قانون اور ایس او پیز کے مطابق میر صاحب سے 4کنال 12مرلہ کی قیمت وصول کی، ایل ڈی اے کو ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی زمین کو بیچا، دوسرا فائدہ ایل ڈی اے کو یہ ہوا کہ انہوں نے ان دو سڑکوں پر ترقیاتی اخراجات کی مد میں جو خرچ آنا تھا اس میں سیوریج، سوئی گیس وغیرہ ہے وہ بھی ایل ڈی اے کو بچتا تھا، اس تناظر میں انہیں ان کے right کے over and above جو زمین ملی وہ 4کنال 12مرلہ ہے جو انہیں مفت نہیں ملی اس کی باقاعدہ ادائیگی کی گئی، اس ادائیگی کو ایل ڈی اے آج بھی تسلیم کرتا ہے اور نیب بھی تسلیم کرتا ہے، طرفہ تماشا یہ ہے کہ 1986ء میں ٹھیک ہے انہوں نے اس وقت کی پرائس کے مطابق پیسے دیدیئے، 1990ء میں پالیسی میں تبدیلی آئی کہ آپ نے اضافی زمین کی جو پرائس ہے اس کو ریزرو پرائس پر نہیں لینا بلکہ آپ نے اس کی مارکیٹ پرائس لینی ہے، ہمارا کیس یہ ہے کہ 1992ء میں جب ایل ڈی اے نے ہمیں اس ٹرانزیکشن کے چھ سال بعد یہ کہا کہ آپ نے مارکیٹ پرائس کے مطابق پیسے دینے ہیں تو ہم نے انہیں لکھ کر جواب بھجوایا تو ہم نے انہیں لکھ کر بھجوایا کہ ہم نے اس وقت کے قانون کے مطابق ادائیگی کردی ہے، اب یہ چار سال بعد آنے والی پالیسی کا اطلاق اس ٹرانزیکشن پر نہیں ہوتا، ہمارے اس جواب کے بعد 1992ء سے لے کر آج تک ایل ڈی اے کی طرف سے کوئی جواب نہیں ہے جس کا مطلب ہمیں سمجھ آجاتا ہے کہایل ڈی اے ہمارے اس جواب سے مطمئن تھا یہی وجہ ہے کہ ایل ڈی اے نے اس وقت ہمیں کوئی دوبارہ نوٹس نہیں بھیجا کس بھی طرح کے واجبات کی ادائیگی کے لئے۔ نیب یہ کہتا ہے کہ وہ جو 1992ء والا جو لیٹر پڑا ہے فائل میں جس کا جواب بھی ہم نے دیا ہوا ہے کہ جی وہ پیسے چونکہ وہ نوٹس آج تک واپس نہیں لیا گیا اس لئے آج کے حساب سے وہ 64لاکھ روپیہ 14کروڑ روپیہ بنتا ہے، نیب کی یہ منطق ہے کہ 1992ء کا وہ نوٹس جس کا جواب دیا، جس کے جواب کے بعد کبھی ایل ڈی اے نے کوئی نوٹس نہیں بھیجا چونکہ وہ withdrawn نہیں ہوا فائل میں پڑا ہوا ہے اس لئے وہ 64لاکھ روپے کے بجائے 14کروڑ ہوگیا ہے جبکہ ہمارا کیس یہ ہے کہ 2016ء میں ہماری ایک consolidation process ہوتی ہیں قانون میں جو بڑے بڑے برج ہوتے ہیں ان کو consolidate کرنے کے لئے، 2016ء میں اس موضع کی consolidation ہوئی جہاں پر یہ زمین واقع تھی تو پتہ چلا کہ جو entitlement تھی میر صاحب کے لینڈ اونرز کی وہ 180کنال 18مرلے نہیں 180کنال 8مرلے تھی، 10مرلے کم ہوگئی تو اب اتنے سالوں بعد ایل ڈی اے نے ہمیں نوٹس بھیجا کہ consolidation proceedings میں آپ کی جو entitltement تھی جو total holding تھی لینڈ کی وہ دس مرلے کم ہوگئی ہے تو آپ تین مرلے کے پیسے آج کی قیمت کے مطابق دیدیں، ہم نے ادا کردیئے، ایک ذمہ دار شہری قانون کا پابند شہری جو کرسکتا ہے،اس کیس میں طرفہ تماشا ہے کہ اس کیس میں جو مدعی ہونا چاہئے جو ایل ڈی اے وہ آج تک مدعی نہیں ہے، نیب کے کیس میں بھی مدعی نہیں ہے،ایک تیسرے شخص کی درخواست پر نیب نے یہ کیس بنایا ہے، ایل ڈی اے کی طرف ہمیں آج تک کوئی ایسا نوٹس وصول نہیں ہوا کہ میر صاحب کی طرف ایل ڈی اے کے اتنے واجبات قابل ادا ہیں، اس 14کروڑ روپے کی یہ اسٹوری ہے۔ امجد پرویز نے کہا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 12یہ کہتا ہے اس پر بے شمار فیصلے ہیں صرف پاکستان میں نہیں انڈیا میں آپ چلے جائیں، آپ امریکا میں چلے جائیں، پوری دنیا میں قابل قبول جو اصول ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ایسا قانون جو کسی کے right پر اثرانداز ہوتا ہو اس کا اطلاق retropesticvely نہیں کریں گے مطلب 1990ء میں آنے والی پالیسی کا اطلاق 1986ء کی ٹرانزیکشنز پر نہیں ہوسکتا۔ایک سوال پر امجد پرویز نے کہا کہ یہ ترامیم دسمبر 2019ء میں موجودہ حکومت کے دور میں آئی تھیں، ہم نے اس کو سراہا تھا کہ حکومت نے جو ترامیم متعارف کروائی ہیں وہ اچھی بات ہے، ایسے معاملات جنہیں ڈیل کرنے کیلئے پہلے ہی فورمز موجود ہیں ان معاملات کو انہی فورمز پر ہینڈل ہونا چاہئے، اعلیٰ عدالتوں اور عدالت عظمیٰ کے بھی اس نوعیت کے فیصلے آچکے تھے کہ اختیارات کے غلط استعمال کے کیس میں اگر پبلک آفس ہولڈر نے کوئی رشوت نہیں لی، کرپٹ پریکٹس نہیں کی تو اختیارات کے غلط استعمال کا کیس نہیں بنے گا، اس مقدمہ میں ہمارا موقف یہ تھا کہ اختیارات کا جو غلط استعمال ہے تو میر صاحب کبھی پبلک آفس ہولڈر نہیں رہے ان پر یہ لاگو نہیں ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر ہمارا نکتہ یہ ہے کہ چونکہ اس مقدمہ میں کرپشن یا کرپٹ پریکٹس کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو اس وجہ سے نیب کے قانون کا اطلاق اس پر نہیں ہوگا تاہم بنچ نے جو مناسب سمجھا اس پر reasoning دی ہے، ایسے ہوجاتا ہے کورٹ جس بات کو مناسب سمجھتی ہے وزن دیتی ہے، کورٹ کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا بھی حق ہوتا ہے، موٹی بات یہ ہے کہ مختلف فیکٹرز نے یہ decide کرنا ہوتاہے کہ اس کیس کا ٹرائل کس قانون کے تحت ہونا چاہئے، one of the fact یہ ہوتا ہے کہ جو little time ہے وہ اپلائی ہوتا ہے لیکن at the same time اور بھی بہت سارے ٹیسٹ ہیں، ان میں سے ایک ٹیسٹ یہ بھی ہے کہ ایل ڈی اے کا قانون چونکہ ڈیل ہی صرف ایل ڈی اے کے معاملات کو کرتا ہے، ایل ڈی اے کے واجبات کی ادائیگی کا طریقہ کار اس میں دیا ہوا ہے ، ایل ڈی اے کے ایکٹ کے کسی شق کی کسی نے خلاف ورزی کی ہے تو اس کی سزا کیا ہوگی وہ بھی ایل ڈی اے کے ایکٹ میں موجود ہے ، سپریم کورٹ کے فیصلے ہیں کہ جہاں دو قوانین کا اطلاق ہوگا تو اس میں سے اس قانون کا اطلاق کیا جائے گا جس کی جو سزا ہے یا جس میں ملزم کے رائٹس زیادہ ہیں اس قانون کا اطلاق ہونا چاہئے، لیکن کوئی ایسی بات نہیں ہے کورٹ نے جو مناسب سمجھا اس کو نوٹ کیا، اس پر اپنی آبزرویشنز دیں، اس کے خلاف ہمیں اپیل کا حق ہے آپ کو، آپ اس کے خلاف آگے جاسکتے ہیں۔ امجد پرویز نے کہا کہ اس مقدمہ میں اس وقت کے چیف منسٹر ہیں میاں نواز شریف ملک سے باہر ہیں، اس میں جو باقی دو ملزمان ہیں ایک اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے ہیں جبکہ دوسرے اس وقت کے ڈائریکٹر لینڈ ڈویلپمنٹ تھے ان کی گرفتاری نہیں ہوئی لیکن ہم ان کی گرفتاری میں انٹرسٹڈ نہیں تھے ، ہمارا ان کی گرفتاری سے معاملہ نہیں ہے، ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ یہ کیس ایسا نہیں تھا جس میں کسی کی گرفتاری مطلوب یا مقصود ہونی چاہئے، ا س کی وجہ یہ ہے کہ ایک 34سال پرانی ٹرانزیکشن ہے، ایل ڈی اے اور لینڈ اونرز کا آپس میں ایک دیوانی نوعیت کا کانٹریکٹ ہے وہ کانٹریکٹ جو دیوانی معاہدہ ہے دو فریقین کے درمیان وہ آج تک برقرار ہے اس کوآج تک کسی فورم میں غلط قرار نہیں دیا، ہماری رائے میں 34سال پرانا ریکارڈ ایل ڈی اے کے قبضے میں ہے وہاں سے نیب کے پاس چلا گیا ہے تو گرفتاری آپ وہاں پر کرتے ہیں کہ جہاں آپ کو ڈر ہو کہ کوئی ریکارڈ ٹیمپر نہ کرلے یا کوئی ثبوت ایسا ہے جس کو ٹیمپر کیا جاسکتا ہو، 34سال پرانے کیس میں کس چیز کو آج ٹیمپر کیا جاسکتا ہے، ہمارا مقدمہ یہ تھا کہ ا ن کو گرفتار نہیں کیا یہ بھی ٹھیک کیا ہے لیکن اس مقدمے کو اگر آپ دیکھیں تو 1986ء سے آج تک ایل ڈی اے کے جتنے ڈی جیز رہے ہیں جتنے ڈائریکٹر پلاننگ رہے ہیں اگر نیب کی منشاء مان لی جائے تو پھر ان سب کو ملزم ہونا چاہئے اس مقدمے میں صرف ان دو لوگوں کو نہیں ہونا چاہئے جن کے سامنے فائل ایک سے زیادہ پیش ہوئی ہے وہ لوگ بھی اس کیس میں نہ ملزم ہیں نہ گواہ ہیں، اس حوالے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ discremination ہوئی ہے۔