سائنس داں ڈارک میٹر (تاریک مادہ )کے وجود میں نت نئی انکشافات کرنے میں سر گرداں رہتے ہیں ۔حال ہی میں سائنس دانوں کو ایک ایسے سگنل کا سراغ ملا ہے ،جس کی فی الحال کوئی وضاحت نہیں کی جاسکتی ۔ماہرین کے مطابق ڈارک میٹر کائنات میں پایا جانے والا وہ مادّہ ہے ،جس کے وجود کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا ہے ،تاہم کشش ثقل (گریوی ٹیشنل ویوز) کے اصول کے تحت اس پر اسرار مادّے کے وجود کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔جن سائنس دانوں نے اس نامعلوم سگنل کی کھوج لگائی ہے وہ زینان ون ٹی نامی سائنسی منصوبے پر کام کررہے ہیں ،جس کا مقصد نظام کائنات میں پھیلے ڈار ک میٹر پر تحقیق کرنا ہے ۔ زینان ون ٹی پر کام کے دوران سائنس دانوں نے اپنےسراغ رساں آلات کے ذریعے کائنات میں اس سے کہیں زیادہ سر گرمی کا پتا لگایا ہے ،جس کی وہ توقع کررہے تھے۔
سائنس دانو ں کا خیال ہے کہ یہ غیر متوقع سر گرمی در حقیقت ڈارک میٹر کے اب تک نا قابل شناخت شمسی ایکسیان نامی ذرات کی وجہ سے ہو ۔آخر ڈارک میٹر کیا ہے ؟ڈارک میٹر کائنات میں موجود مادّے کا لگ بھگ 85 فی صد پر مشتمل ہے ، تاہم ماہرین یہ جاننے کی کوشش کررہے ہے کہ ڈارک میٹر کی نوعیت اور ساخت کیا ہے ؟یہ اب تک ایک راز بنا ہوا ہے ۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کسی بھی روشنی کو منعکس یا اس کا اخراج نہیں کرتا جو ناقابل شناخت ہو یا جس کا سراغ کسی آلے کے ذریعے لگایا جاسکے ۔یہی وہ وجہ یا پر اسرایت ہے ،جس کی وجہ سےاسے ڈارک میٹر یا تاریک مادّے کا نام دیا گیا ہے۔
زینان ون ٹی پر موصول ہونے والے نامعلوم سگنل کی تین ممکنہ وضاحتیں ہوسکتی ہیں ۔ایک تو یہی ہے کہ شاید ڈارک میٹرکے اب تک ناقابل ِشناخت ایکسیان نامی ذرے کی وجہ سےہو ۔باقی دو وضاحتوں کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ہمیں جدید طبیعیات کی ضرورت ہوگی ۔اب تک سائنس دانوں نے صرف ڈارک میٹر کے بالواسطہ ثبوتوں کا مشاہدہ کیا ہے ۔اس کی اصل حقیقیت کیا ہے اور بلا واسطہ اس کے ذرات کا سراغ حاصل کرنا ابھی تک سائنس دانوں کے لیے ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
آخر یہ مادّہ کیا ہو سکتا ہے ،اس حوالے سے بہت سے مفروضے موجود ہیں ۔سائنس دانوں نےزینانامی منصوبے میں ایک دہائی سے زائد وقت اس پر اسرار مادّے کی تفتیش و تحقیق پر صر ف کیا ہے ،مگر دس برس سے زیادہ عرصے کی جانے والی اس تحقیق میں کچھ پتا نہیں چل سکا ہے اور یہ مادّہ آج بھی سائنس دانوں کے لیے ایک سربستہ راز ہے ۔
زینان منصوبے کا تجربہ اٹلی کی زیر زمین تجربہ گاہ گران ساسو میں 2016 سے 2018تک ہوا ۔اس کا ڈیٹیکٹر یعنی سراغ رسانی کا آلہ 2.3ٹن خالص مائع زینان گیس سے بھر اہوا تھا ۔ اس 3.2 ٹن میں دو ٹن کو بطور ٹارگٹ یا ہدف کے لیے استعمال کیا گیاتھا ، تاکہ اس کی مدد سے کائنات میں موجود دیگر نامعلوم ذرات کی کھوج لگائی جا سکے۔
ماہرین کے مطابق جب کوئی نامعلوم ذرہ ہدف کے پاس سے گزرتا ہے تو یہ معمولی مقدار میں روشنی کا اخراج کر سکتا ہے اور اس روشنی کی مدد سے زینان کے ایٹمز کو فری الیکٹرونز سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ذرات کے مابین باہمی عمل اس وقت ہوتا ہے جب کائنات میں موجود معلوم ذرات، جیسا کہ کاسمک ریز اورنیوٹرونز آپس میں ٹکراتے ہیں اور جب یہ عمل وقوع پذیر ہوتا ہے تو سائنس دان اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ردعمل کو پس پردہ سگنل کہتے ہیں۔
زینان ون ٹی نامی منصوبے پر کام کرنے والے ماہرین پس پردہ آنے والے ہر سگنل اور آواز کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں ۔ماہرین کاخیا ل تھا کہ منصوبے کے دوران اس نوعیت کے تقریبا ً232سگنلز موصول ہو سکتے ہیں ۔تاہم اس تجربے کے دوران سائنس دانوں کو 285سگنلز موصول ہوئے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ 53 سگنلز غیر متوقع سر گرمی کے طور پر نوٹس کیے گئے ۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سائنس دانوں نے کسی ایسی چیز سے سگنل حاصل کیا ہو جسے وہ پہلے آلودگی کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے ۔یہ زینان ون ٹی کے آلے میں ٹر یٹئیم کے چھوٹے ذرات ہوسکتے ہیں ۔یہ نیو ٹرون کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے جو کھر بوں کی تعداد میں آپ کے جسم میں ہر لمحے کے ساتھ حرکت کرتے ہیں ۔اس کےعلاوہ دوسری چیز نیو ٹرون کی مقناطیسی حرکت بھی ہوسکتی ہے۔
سائنس کو ایک تاثر یہ بھی ملتا ہے کہ شاید کسی نئی فزکس کی مدد سے اس کی تفصیل بتائی جاسکے ۔تاہم یہ کھوج شمسی ایکسیان کی کھوج سے مماثلت رکھتی ہے جوبہت ہلکا ہوتا اور اسے انسانی آنکھ سے دیکھا بھی نہیں جاسکتا ۔یہ بھی تاریک مادّے کا امید وار سمجھا جاتا ہے ۔اعداد وشمار کے مطابق شمسی ایکسیان کے مفروضے میں 5.3سگما کی قدر دیکھی گئی ہے ۔لیکن اس کے باوجود یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ ایکسیان اپنا وجودر کھتے ہیں یا نہیں ۔ پانچ سگما کی دریافت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
ٹر یٹیئم اور نیوٹرون کی مقنا طیسی حرکت کے دونوں مفروضے 2.3سگما پر آتے ہیں ،جس کا مطلب یہ بھی معلومات پر پورا اترتے ہیں ۔زینان منصوبے پر کام کرنے والے ماہرین اب اسے زینان این ٹی کے منصوبے پر منتقل کرکے اسے بہتر بنا رہے ہیں ۔سائنس دانوں کو اُمید ہے کہ وہ مستقبل میں بہتر معلومات حاصل کرکے اس دریافت کو مزید بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔