سمیر حسین پاکستان کے سابق ہاکی او لمپئنہیں،وہ ان دنوں قومی سنیئر ہاکی ٹیم کے کوچ ہیں،2000کے اولمپکس گیمز میں انہوں نے کم عمر اولمپئین ہونے کا اعزاز حاصل کیا،انہوں نے قومی سنیئر اورجونئیر ٹیم کی جانب سے کئی ایشیائی اور عالمی مقابلوں میں حصہ لیا،سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ہاکی میں عمدہ پر فارمنس پر انہیں کیش ایوارڈ دیا، ہاکی میں ان کی خدمات کے اعتراف میں گلشن اقبال بلاک 16 کی یوسی چھ کی ایک سڑک ان سے موسوم کی گئی۔
کراچی یونیورسٹی کی جانب سے 2003میں سال کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دیا گیا،2009 میں انٹر نیشنل اولمپکس کمیٹی کا کورس پاس کیا، ایف آئی ایچ کے کوالیفائیڈ کوچ ہیں، قومی جونیئر ٹیم کے بھی کوچ رہ چکے ہیں،انگلینڈ کے کلب کی بھی کوچنگ کی،ان کی شان دار کوچنگ پر تھائی لینڈ کے ہاکی حکام نےان کے ساتھ اپنی قومی مردوں اور خواتین ٹیم کے لئےمعا ہدہ کیا تین سال کے دوران انہوں نے تھائی ہاکی ٹیم کو مردوں اور خواتین کے کئی انٹر نیشنل اور ایشیائی مقابلوں میں کامیابی دلائی۔
پاکستان کا قومی کھیل ہاکی پچھلے کئی سالوں سے حکومت کی عدم توجہی اور فیڈریشن کے حکام کی ناقص پالیسوں کی وجہ سے تباہی کا شکار ہے،کسی زمانے میں پاکستان کی اس کھیل پر حکمرانی تھی مگر اب اس میں بدحالی کے سواء کچھ نہیں ہے،ہماری عالمی درجہ بندی میں17ویں پوزیشن ہے، کوئی اعزاز ہماری جھولی میں نہیں ہے،فیڈریشن کے حکام فنڈ کی کمی کا رونا روتے ہیں تو حکومت حکام پر کرپشن کے الزامات لگاتی ہے،پچھلے چند برسوں میں ہاکی حکام بدلتے رہے مگر کھیل اور کھلاڑیوں کی قسمت نہ بدل سکی،قومی ہاکی ٹیم کو بہتری کے ٹریل پر لانے کے لئے پی ایچ ایف نے سنیئر ہاکی ٹیم کے کوچنگ اسٹاف میں سابق ہاکی اولمپئین سمیر حسین کو بھی شامل کیا ہے،جو اس سے قبل بھی سابق اولمپئن شہناز شیخ کے ساتھ بطور ہیڈ کوچ ٹیم کے ساتھ منسلک رہ چکے ہیں،پاکستان ہاکی میں زبوں حالی اور اس میںبہتری کے حوالے سے سمیر حسین کا کہنا ہےکہ جب تک کھلاڑیوں کے معاشی مسائل حل نہیں ہوں گے،تمام ایکسر سائز بے سود ثابت ہوگی،بھوکے پیٹ ہم کسی کھلاڑی سے گولڈ میڈل کی امید لگائیں یہ سراسر ناانصافی ہے،کھلاڑیوں کے پاس جاب نہیں ہے ،جو کسی ادارے میں ملازم ہیں بھی تو وہ ایڈ ہاک پر ہیں، ان کھلاڑیوں کے گھر کی کیا پوزیشن ہے کسی نے معلوم کی،مقابلے کی فضا اس وقت جنم لیتی ہے جب اداروں کی ٹیمیں ہو، کھلاڑی کو ادارے حاصل کرنے کی کوشش کریں تو ہر کھلاڑی ذہنی آسودگی کے ساتھ جان مار کر کھیلنے کی کوشش کرے گا،پاکستان میں گنتی کی ہاکی ٹیمیں رہ گئی ہیں، ایک دور ایسا تھا جب20سے22اداروں کی ٹیمیں قومی ایونٹ میں ایکشن میں ہوتی تھیں۔
یہ ہماری کامیابی اور سنہری دور کی وجہ تھی،بھارت میں صرف ہاکی کا بجٹ ایک ارب روپے ہے،جبکہ جونیئر اور سنیئر کھلاڑیوں پر مشتمل 40 سے 45 ٹیمیں ہیں، یورپی ملکوں میں آ سٹر و ٹرف کی بھر مار ہے،ہمارے پاس گنی چنی ٹرف ہے، کراچی جیسے شہر میں صرف چار فلڈ لائٹ اسٹیڈیم ہیں،ان حالات میں کس طرح ہاکی کا معیار بلند ہوگا،پاکستان میں ہاکی کا ٹیلنٹ موجودہے مگر انہیں گروم کرنے اور کوچنگ کی بہتر سہولت فراہم کرنے کی ضرورت ہے، جب ہم کھلاڑیوں کو کھیل کے مواقع نہیں دیں گے ان کو عالمی معیار کا تجربہ کیسےحاصل ہوگا،پاکستان کی ٹیم نے پچھلے تین سالوں میں کتنے انٹر نیشنل میچز میں حصہ لیا، سب کے سامنے ہے، میری کوچنگ کے پچھلے ادوار میں کوچنگ اسٹاف کی محنت سے پاکستان نے2014میں بھارت کو چیمپئینز ٹرافی میں اس کی سر زمین پر شکست دی، اگر فائنل سے قبل ہمارے تین کھلاڑی ایک میچ کے لئے معطل نہیں ہوتے تو ہم فائنل میں جرمنی کو شکست دے سکتے تھے۔
اسی سال انچییون کوریا میں ہونے والے ایشین گیمز مین سلور میڈل جیتا،کوریا کو اس کی زمین پر سیریز مین شکست دی، 2015مین ہوبارٹ آ سٹریلیا میں ہونے والے چار قومی ایونٹ میں سلور میڈل حاصل کیا،پاکستان ہاکی میں بہتر نتائج کے لئے فیڈریشن کو کسی بھی ٹیم انتظامیہ کو کم از کم چار سال کا ٹارگٹ دینا ہوگا، اس دوران احتساببھی ہونا چاہئے مگر جہاں بہتری آئی ہو اس کو بھی تسلیم کرنا چاہئے،ایک سال میں پاکستان کی ٹیم جیت کے ٹریک پر نہیں آ سکتی ہے۔
قومی ٹیم کو بیرون ملک سیریز کے لئے بھیجنا چاہئے، ملکی سطح پر ڈومیسٹک ہاکی کے ڈھانچے میں تبدیلی لانا ہوگی، شہروں کی ٹیموں کے ساتھ مکمل کوچنگ اسٹاف ہونا چاہئے جس میں فزیو بھی شامل ہو،حکومت کو فیدریشن کی مالی مدد کرنا ہوگی،تاکہ وہ کھلاڑیوں کے ساتھ مالی معاہدہ کرسکے،قومی سطح پر ایونٹ کی تعداد میں اضافہ کیا جائے،تھائی لینڈ میں جہاں میں کوچ کے فرائض انجام دے چکا ہوں صرف خواتین کے سال میں ایک درجن سے زیادہ مقابلے ہوتے ہیں،پاکستان ہاکی میں بہتری کی بہت گنجائش ہے،منتخب نمائندوں کو بھی اس جانب توجہ دینا ہوگی،اس کے بغیراس کھیل میں ہمارا سنہری دور واپس نہیں آسکتا ہے۔
کھلاڑیوں کو روز گار فراہم کرنا ہوگا،اداروں کی ٹیموں کا دور واپس لانا ہوگا،جب ہم یورپ، بھارت، جاپان،ملائیشیا ،کوریا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ شکست کا سارا ملبہ فیڈریشن پر ڈالنا کہاں کا انصاف ہے، حکومت کو اگر فیڈریشن سے کوئی شکایت ہے تو وہ اس کے حکام کے ساتھ مل کر بات کرے اور ہاکیمیں بہتری کا کوئی حل نکالے تاکہ ہم اس کھیل میںسر خرو ہوسکیں ورنہ پھر ایسا مطالبہ بھی سامنے آئے گا کہ قومی کھیل پر پابندی لگا دو۔ان کا کہنا ہے کہ ملک میں کلب ہاکی کو بڑھایا جائے،کلبوں کی اسکروٹنی کر کے درست کلبوں کی لیگ کرائی جائے، ہر ایسوسی ایشن کو یہ ٹارگٹ دیا جائے کہ وہ ہرسال اپنے ایک کھلاڑی کو قو می سطح کے لئے تیار کرے،ملک میں پی ایس ایل کی طرز پر پاکستان سپر ہاکی لیگ کے منصوبے کو جلد عملی شکل میں لایا جائے اس کے مقابلے جب ٹیلی کاسٹ ہوں گے تو لوگوں میں جوش اور جذبہ اور نئے کھلاڑیوں میں شوق جنم لے گا۔ (نصر اقبال)