کرونا سے اموات اور اس کے نئے کیسز میں کمی اگرچہ ایک اچھی علامت ہے مگر یہ کسی طرح سے بھی اطمینان بخش نہیںہے اس پر بڑی سخت محنت کی ضرورت ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کرونا جیسی وبائی مرض پر قابو پانے کیلئے عام شہریوں کے تعاون کے بغیر مثبت نتائج کا آنا مُشکل ہے اس حوالے سے پنجاب حکومت کی کوششیں بارآور ہوتی نظر نہیں آرہیں۔اور پانچ ماہ گزرنے کے باوجود حکومت عام شہریوں کو یہ باور نہیں کرا سکی کہ اُن کا مقابلہ ایک انتہائی خطرناک او ر جان لیوا مرض سے ہے۔لوگ اس حوالے سے ضروری حفاظتی اقدامات کو بغیر کسی ٹھوس دلیل کے سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔ماسک کو بھی پہننے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے حکومتی سطح پر ذہن سازی کیلئے کوئی پُر اثر مہم چلائی جا سکی ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بُزداراور وزیر ِصحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشداگرچہ اس حوالے سے بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے ہیں۔
مگر باقی حکومتی مشینری اس طرح سے سرگرم عمل نہیں ہے بیوروکریسی کے سینیئر لوگ اپنے ذاتی صحت کے حوالے سے تو بڑے محتاط ہیںمگر وہ اپنے ماتحت لوگوں کو اس سلسلے میں مناسب انداز میں پیغام نہیں دے پا رہے۔جس کے باعث کرونا ایس او پیز موثر انداز میں عمل درآمد نہیں ہو رہے اور یوں جتنی تیزی کے ساتھ اور موثر انداز میں کمی کی جا سکتی ہے وہ نہیں ہو رہی۔
کرونا کے تمام شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوئے ہیںمگر اس کا سب سے زیادہ نقصان طلباء طالبات کو ہوا ہے مُسلسل پانچویں مہینے میں تمام تعلیمی ادارے بند پڑے ہیںاور اگلے دو ماہ تک بھی ان کے کُھلنے کا کوئی امکان نہیں اس سے ایک طرف تو تعلیمی نقصان ہوا جو ناقابلِ تلافی ہے۔حکومت نے اس حوالے سے ایک آسان حل نکالاکہ پہلی سے آٹھویں تک کے تمام سٹوڈنٹس کو اگلی کلاسوں میں بغیر امتحان کے ترقی دے دی گئی۔
جس سے اس شعبے کی نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔جماعت نہم اور گیارھویں بارھویں کے امتحانات بھی چونکہ کرونا وبا آنے کے وقت ابھی انعقاد پزیر ہونا باقی تھے۔لہذٰہ جماعت نہم اور گیارھویںکو بغیر امتحان کے ترقی دے دی گئی ۔ جب بارھویں جماعت کے سٹوڈنٹس کو گیارھویں جماعت کے نتائج کی بُنیاد پر او ر مزید تین فیصد اضافی نمبردے کر ترقی دینے کا فیصلہ کیاگیا جو ہائی اچیور سٹوڈنٹس کے لئے بعض صورتوںمیں ناقابلِ عمل ہوجاتا ہے اور سٹوڈنٹس کے حاصل کر دہ نمبر کُل نمبروں سے زیا دہ ہوجاتے ہیں۔اس کا حل بھی ابھی تک ہمارے بڑے بڑے دماغوںکی طرف سے سامنے نہیں آرہا اور سٹوڈنٹس پر یشانی اور بے چینی سے دو چار ہیں۔
بارھویں جماعت کے حاصل کردہ نمبروں کی بُنیاد پر چوںکہ پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے ہونے ہوتے ہیں۔لہذٰہ اس پرفوری اقدامات کی ضرورت ہے۔لیکن باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ تمام پالیسیاں ـ"بابو"ہی بنا رہے ہیں۔اور حکومتی عہدیدار محض ان کو پیش کرنے تک ہی محدود ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب کو بڑے صوبے کے سربراہ ہونے کے ناطے اس پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے تھا۔مگر وہ باوجوہ اپنا کوئی رول ادا نہیں کر سکتے۔
پچھلے دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں حکومتی کارکردگی پر سوالات کے جوابات دینے کیلئے وقت دینے اور تیاری کرنے کے باوجود عین وقت پر راہ فرار اختیار کر گئے۔جس سے جگ ہنسائی کے علاوہ کُچھ حاصلِ وصول نہ ہوا۔اس سے تو بہتر تھا کہ وہ اس پروگرام کے لئے وقت ہی نہ دیتے۔اس قسم کا رویہ آپ کی کمزوریوںاور غیر سنجیدہ رویوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
حکومتِ پنجاب کی کمزور پالیسیوں کے باعث آئے دن کوئی نہ کوئی بحران سر اُٹھائے رکھتے ہیں اور شائد ہی کوئی ایسا بحران آیا ہوجس پر قابو پالیا گیاہو۔ہا ں البتہ یہ ضرور ہوا کہ ہر بحران کے بعد اگلے نئے بحران نے اسے پس پشت ڈا ل دیا اور یار لوگ بیان بازی ہی کرتے رہ گئے۔اب جولائی میں آٹے کے بحران کو ہی لے لیجیئے اس پر سینیئر صوبائی وزیرعبدالعلیم خاں اور وزیراعلیٰ پنجاب کو قابو پانے میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی اور نہ ہی آٹے کی قیمتوں کو قابو میں لایا جا سکا ہے۔
ہر شعبہ میں مافیاز اتنے مضبوط ہیںکہ حکومت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اور عوام مہنگائی کی چکی میں پستے جا رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس کی کارکردگی کو نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکے ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اب تک موجودہ حکومت کے دور میںچار چیف سیکرٹری اور پانچ انسپکٹر جنرلز آف پولیس تبدیل ہو چکے ہیںاور اب تبدیلیوں کی باتیں ہو رہی ہیں مگر بیورو کریسی کی تبدیلی سے نتائج کے متمنی اگر اپنی سیاسی لیڈر شپ میں تبدیلیاں کر لیںتو شائد بہتری کی کوئی صورت نکل آئے مگر صرف الزامات اور سابقہ حکومتوں کو کوسنے پر بات ہو رہی ہے اپنی کارکردگی کا کہیں ذکر نہیں ہے۔
بیوروکریسی جو حکومتی پالیسیوں پر عمل درآمد کی ذمہ دار ہوتی ہے وہ خود کئی گروپوں میں تقسیم ہے ایک گروپ سابق چیف سیکرٹری پنجاب (موجودہ صوبائی محتسب)میجر (ر)اعظم سلیمان خان کا گروپ ہے۔دوسرا گروپ موجودہ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک ہے تیسرا گروپ وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم طاہر خورشید کا ہے اس کے علاوہ بھی گروپنگ ہے جس سے حکومتی کارکردگی پر اثر پڑ رہا ہے ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے کہ حکومتی گرفت کمزور ہوتی ہے اور انتہائی تجربہ کار بیوروکریٹس کی مرہون منت ہے اور یوں وہ اپنے گروپ کے نا اہل افسران کو اکاموڈیٹ کرتے ہیںاور اس سے محکموں کی کارکردگی انحطاط کا شکار ہوجاتی ہے۔