• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوچار نہیں، برطانیہ میں بہت سے ایسے شہر ہیں جن میں پاکستان سے آئے ہوئے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ کچھ شہروںمیں تو یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کو لٹل پاکستان کہا جانے لگا ہے۔سنہ ساٹھ کی دہائی میں جب یہ لوگ نئے نئے آئے تھے تو ا ن کے رنگ ڈھنگ وہی تھے جو یہ اپنے ساتھ لائے تھے۔مگر اب تو وہ بات پرانی ہوئی۔ دادا کی انگلی تھام کر مسجد یا مکتب کو جانے والی نسل کے بالوں میں بھی سفیدی آرہی ہے۔ ان کی تعلیم برطانوی طرز پرہوئی ہے، ان کی اٹھان بھی اور طرح کے ماحول میں ہوئی ہے۔ انگریزوں کی طرح بولنے لگے ہیں اور بات کرنے کا یعنی استدلال کا ڈھنگ بھی اب برطانوی طرز کا ہوگیا ہے۔ مگر کچھ ایسی بات ہے کہ یہ لوگ اب بھی جدا، مختلف اور نرالے ہی نظر آتے ہیں۔

اس تمہید کے بعد کہہ سکتا ہوںکہ ذرا وقت کی ستم ظریفی دیکھئے۔ جب کورونا وائرس کی آفت قابو میں آنے لگی اور ہر روز چھ چھ سو افراد کے مرنے کی خبریں آنی بند ہوئیں اور روزانہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو ہندسوں تک محدود ہوگئی، اچانک یہ چونکانے والی خبر آئی کہ انگلستان کے شہر لیسٹر میں وبا نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے۔ اچانک یوں ہوا ہے کہ شہر کے جن علاقوںمیں جنوبی ایشیا ‘ کے باشندوں کی آبادی ہے وہاں کورونا وائرس قابو میں آرہا تھاکہ کچھ ایسا ہوا کہ معاملہ تلپٹ ہوگیا ہے۔ صاف بات یہ کہ جنوبی ایشیا ئی باشندوں کے محلوں میں وبا لوٹ آئی ہے۔

یہ قصہ شہر لیسٹر سے شروع ہوا اور خیال تھا کہ بات ایک شہر تک محدود رہے گی۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ دوسرے شہروں میں اعدادو شمار رکھنے والوں نے بتایا کہ مرض وہاں بھی زور پکڑ رہا ہے، وہی جنوبی ایشیا کے باشندوں میں۔جب سے یہ خبریں آئی ہیں،ماہرین سر کھپا رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔کچھ لوگ تو وہی پرانی دلیل پیش کرتے رہے کہ ان لوگوں کا رہن سہن کا انداز ہی ایسا ہے کہ جس گھر میں ایک شخص کو بھی کورونا کی وبا لگ جائے ، پھر اس گھر میں آباد سارے باشندے با جماعت بیمار پڑتے ہیں۔اور یہ کہ کئی کئی کنبے اکٹھے رہتے ہیں اور یوںمرض پھیلتا ہے۔ جب ماہرین اپنے اپنے ہنر کا مظاہرہ کر رہے تھے ، اُسی شور میں یہ دلیل بھی سننے میں آئی کہ برطانوی شہروں میں آباد ایشیائی باشندوں کو ساری بات پوری طرح نہیں سمجھائی گئی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان سے پنجابی، میر پوری یا اردو میں بات نہیں کی گئی ۔ وہ پورا معاملہ سمجھنے سے قاصر رہے۔

اس ساری گفتگو کے بعد اب کوئی مجھ سے پوچھے کہ میں کس نتیجے پر پہنچا ہوں تو عرض کروں کہ ان لوگوں کو برطانیہ میں آباد ہوئے پچاس برس ہوگئے اور دیکھنے میں ان کے اندر فرق بھی آیا ہے لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ ان کا رہن سہن، رکھ رکھاؤ، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، ملنا جلنا اندر سے اب تک وہی ہے جو یہ اپنے گاؤں دیہات میں چھوڑ کر آئے تھے۔خاص طور پر بڑے بوڑھے جتنے ہیں، اکثر ذیا بیطس کے مریض ہیں، دل کا عارضہ اکثر کو لاحق ہے اور اسی نوعیت کی بیماریاں ان کو دبوچے ہوئے ہیں۔

ایک اور بات جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں وہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے مریضوں کو چھپاتے ہیں، انہیں گھر ہی میں رکھنا چاہتے ہیں خاص طور پر بہت بوڑھے مریضوں کو گھر ہی میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ جب ان کا وقت آخر ہو تو ان کی آل اولاد ان کے گرد موجود ہو اور کوئی ان کا ہاتھ تھامنے والا ہو۔جن دنوں وبا اپنے عروج پر تھی تو کتنے ہی مرتے ہوئے لوگوں کا ہاتھ تھامنے کی ذمہ داری نرسوں کوسونپی گئی تھی اور رشتے داروں کو قریب آنے کی بھی ممانعت تھی۔ بارہا ہم نے یہ منظر دیکھا کہ مریض بستر مرگ پر لیٹا ہے اور اس کے عزیز و اقارب شیشے کی کھڑکی سے ان کا دیدار کررہے ہیں اور اپنے آنسو اپنی ہتھیلیوںمیںجذب کر رہے ہیں۔اُن ہی دنوں ہر روز مرنے والوں کے جو اعداد وشمار بتائے جاتے تھے ان میں ایک تعداد کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اپنی کمیونٹی میں جاں بحق ہوئے۔ یہ وہی لوگ تھے جن کے رشتے داروں نے انہیں اپنی آخری گھڑیاں گھر انے ہی میں اور کنبے کے درمیان گزارنے کا موقع دیا۔

پچھلے دنوں برطانیہ میں لاک ڈاؤن میں کچھ نرمی ہوئی اور کچھ کاروبار کھولنے کی اجازت دی گئی تو ہم نے ٹیلی وژن پر دیکھا ، یہی جنوبی ایشیائی لوگ بہت مسرور تھے۔ اس وقت خیال آیا کہ پاکستان میں عید کے موقع پر لوگوں نے موج مستی کی جوسز ا پائی، وہ منظر برطانیہ میں نہ دہرایا جائے۔ لوگوں نے کس بے دردی سے خود کوہلاکت میں ڈالا اور جان سے گئے۔

ایسے میں خیال ہوتا ہے کہ کیا واقعی وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے؟

تازہ ترین