• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُمتِ مسلمہ کے تین تاریخی سانحہ ہائے جات سقوطِ بغداد، سقوطِ ڈھاکہ اور اب سقوطِ کشمیر، خیرہ کن مماثلت ہے۔ کیا کشمیر آزاد ہو پائے گا؟ 13جولائی وادیٔ کشمیر کے دونوں اطراف، ایک تروتازہ جوش، جذبے اور ولوے سے منایا گیا۔ 13جولائی 1931 کے شہدا سے تجدید وفا اور عہد جہد مسلسل کا دن ہے۔ کشمیری بھائیو! جاگتے رہنا، مسلمانوں اور پاکستانیوں پر نہ رہنا۔

سب باجماعت مفاداتی ابدی نیند سو رہے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کے تخمینے، اندازے 100 فیصد درست، کشمیر نے طاقِ نسیان پر رکھا جانا تھا۔ 5اگست 2019کو بھارت نے کشمیر پر قبضہ جمایا۔ چونکہ کشمیریوںکو غلامی میں رکھنا ناممکن، وادی کا محاصرہ کرکے جیل بنا دیا گیا۔

سفاکی، درندگی، ظلم و بربریت ایک انتہا کو چھو رہی ہے، کشمیریوں کا جذبہ پھر بھی تروتازہ۔ ہمارے ہاں گلے سڑے دعوے، منافقت آلود نعرے، مبالغہ آمیز علم البیان اور بوسیدہ فن خطابت، عوام میں سماجی تقسیم در تقسیم باہمی ٹکراؤ، وطنی معاشی ابتری، کشمیر سے صرف نظر کے اجزائے ترکیبی ہی تو ہیں۔

سانحہ مشرقی پاکستان بھولی بسری داستان بن چکا۔ سبق کیا سیکھنا تھا؟ وطنی حالات کی 1971کے پاکستان سے مماثلت خوفزدہ رکھتی ہے۔

ہلاکو خان نے جب 29جنوری 1258کو بغداد کا محاصر ہ کیا تو جلیل القدر عباسی خلیفہ المستعصم باللہ کو کچھ شرائط پر ہتھیار ڈال کر بغداد حوالے کرنے کو کہا گیا۔ المستعصم کے انکار پر ہلاکوخان نے بغداد کو نیست و نابود کرنے کا اعلان کیا۔

13دن کے محاصرے کے بعد 10فروری 1258کو ہلاکو خان کے حکم پر زندہ خلیفہ ِوقت کو قالینوں میں لپیٹ کر، رسیوں سے باندھ کر گھوڑوں کے پیچھے گھنٹوں گھسیٹتا گیا، یوں دم نکلا۔ ہلاکو کا شاہی خون نہ ٹپکانے کا وعدہ بھی پورا ہوا جبکہ عام مسلمان کو چن چن کر ذبح کیاگیا۔

خلیفہ مستعصم باللہ اور اسکی سلطنت کا ذکر اس لیے کہ صدر یحیٰی خان اور ریاست پاکستان کے حالات ایک جیسے پائے گئے۔ 16دسمبر 1971تک درجنوں سیاسی حل موجود،یحیٰی خان نے بد ترین شکست اور حزیمت منتخب کی۔ بھارت نے 3دسمبر 1971کو دور افتاد مشرقی پاکستان کا محاصرہ کیا۔ یہاں بھی 13 دن کے اندر پاکستان کو برباد کر دیا گیا، وطن عزیز دو لخت ہوا۔ سقوط بغداد اور سقوط ڈھاکہ میں مماثلت تھی کیا؟

تاریخی سیاسی عدم استحکام، حریصِ اقتدار، نا اہل، نالائق اخلاق باختہ اور کرپٹ حکمران، معاشی ابتری و بد حالی کا نقطہ عروج، بدترین طرز حکمرانی، وزراء اور مشیران میں مفاداتی ٹکراؤ اور باہمی چپقلشیں، محلاتی سازشیں، دونوں ادوار میں عوام تقسیم در تقسیم،مع باہمی دست و گریبان، حکومتی نظم و نسق زمین بوس، دونوں ادوار آج کی ریاست پاکستان کی کہانی، لرزنا بنتا ہے۔

13جولائی کشمیر کا یوم شہدا، 1931سے شروع تحریک کو پورے 89سال ہو چکے۔ کشمیری عوام آج بھی اپنے خون سے آبپاری کر رہے ہیں۔تب سے بہنے والاخون خشک ہونے کو نہیںدیا۔ 11ماہ سے مقبوضہ وادی محاصرے میں،ایک جیل بن چکی۔مجال ہے جو بےسہارا، بےآسرا کشمیریوں نے ہمت ہاری ہو۔

عمران خان نے تو مودی کے الیکشن جیتنے کی تمنا کی تھی کہ چشم تصور میں مدبرانہ بصیرت ہی تو کام آئی۔ 13جولائی 1931کو شہید ہونے والے کشمیریوں کا جرم تھا کیا؟ اذان دینا اور نماز جمعہ کے لیے بلانا۔ بندوقوں پر روکنے کی کوشش ہوئی، مؤذن نے بلا خوف اللہ کا لفظ ادا کیا، گولی چھلنی کر گئی۔اللہ اکبر! 22بےگناہ کشمیری ایک ایک کرکے جان کا نذرانہ ضرور دیتے گئے کہ ’’شہادت مطلوب و مقصود مومن‘‘، آخری جملہ، کہ ’’ہمیں ہےحکمِ اذان لا الہ الا للہ‘‘، ادا کر گئے۔

3منٹوں میں 22شہید بھرپور تحریک کا آغازکر گئے۔ آج لاکھوں جانوں کی قربانی تحریک کو امر بنا چکی ہے۔ 5اگست کو بھارت کا تسلط جمانا، بین الاقوامی قوانین، معاہدوں کی دھجیاں اڑانے اور کشمیریوں کو مکمل اپنے تسلط میں لینے کی جرات فقط اس لیے ہوئی کہ ریاست پاکستان سیاسی عدم استحکام، بدترین معاشی بحران،ناکام بلکہ منہدم گورننس، وزراء مشیران دست و گریبان، دو سال سے یہ طے نہ ہو سکا کہ ’’عثمان بُزدار اور محمود خان کو کس طرح بچایا جائے‘‘ یا بالمقابل بیانیہ ’’کس طرح ہٹایاجائے‘‘۔

آج کا دور کسی طورمستعصم باللہ اورجنرل یحیٰی خان کے ادوار سے مختلف نہیں۔ کشمیر کا مقدمہ ہارنے سے پہلے کیا اتمام حجت ہو چکی تھی۔ عمران خان حکومت ایسے وکیل کی مانند کہ کیس تاریخی لڑا اگرچہ مؤکل پھانسی لگ گیا۔ دعویٰ کہ ’’کشمیر کا سفیر ہوں، پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر اجاگر کیا‘‘۔

کشمیری بھائیو! پلیز تن تنہا اپنی ہمت سے تحریک آزادی برپا رکھنی ہے۔ جمعہ کو آدھے گھنٹے کے لئےعلامتی احتجاج، وہ بھی چند ہفتے ہی جاری رہا چونکہ چند ہفتے بعد اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی کا بھی اجلاس شروع ہونا تھا، کشمیر بارے تاریخی تقریر کا اعلان ہوا۔ اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں (جنرل اسمبلی کی تقاریر محض رسمی اور اپنے ہوم کراؤڈ کو مطمئن کرنا مطمح نظر) وزیراعظم کا دلاسہ کہ ’’کشمیر پر فیصلہ کرواکر آؤں گا‘‘، ایک صریح مبالغہ تھا۔ 2018میں جب منتخب ہوئے، برہان وانی کی شہادت سے بھڑکی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی

۔ جنرل اسمبلی جانا بنتا تھا۔ شاید پہلا موقع ہو کہ پاکستان کا سربراہ نہ گیا ہو، جانا پسند نہ فرمایا۔ کشمیر کا مقدمہ رسمی سہی، اجاگر نہ ہو پایا جبکہ حالات بھی اجازت دیتے کہ مولانا طارق جمیل کا پیغام اقوامِ متحدہ کے ایوان سے بھرپور گونج پاتا۔ فریضہ اقامت دین کی رسمی ادائیگی سے بھی محروم رہے۔ تب اس لیے نہ گئے کہ گھر کے حالات ’’سب اچھا‘‘ کا مستقبل رکھتے تھے۔

2019میں سقوط کشمیر کا تر وتازہ دباؤ جبکہ گھرکا دال دلیا کاکام بھی خراب ہو چکا تھا، جانا پڑا۔ وہاں 50منٹ کی غیرضروری طویل تقریر کر ڈالی۔ 2017میں نواز شریف کی 15منٹ کی تقریر ایک مثال سامنے، کشمیر اور صرف کشمیر ہی پر فوکس تھا۔ مجال ہے ایک لفظ ضائع کیا ہو۔ تب چونکہ اقتدار پرجائز ناجائز قبضہ کرنا تھا، قومی ایشو کی تضحیک کی گئی۔

کلبھوشن کا نام نہ لینا قومی مسئلہ بن گیا۔ نان ایشو پر نواز شریف کا میڈیا ٹرائل ہوا۔ اگر نواز شریف کلبھوشن کا سرسری ذکر کرتے، بھارت جس کا پاکستان کے خلاف مقدمہ ہی دہشت گردی تھا، اسی پر گفتگو مرکوز ہو جاتی۔

موضوع دہشتگردی بن جاتا۔ کلبھوشن اگر اتنا اہم مسئلہ تھا تو آج کلبھوشن کہاں ہے؟ وطنِ عزیز میں کوئی ہے جو خالی مسئلہ کشمیر پر ہی سہی، وطنی چارپائی کے نیچے ’’ڈانگ‘‘ پھیرے۔

تازہ ترین