• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1990کی دہائی میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بار بار رن پڑا تو 10سال میں 4حکومتیں اپنے اپنے گھروں کو سدھار گئیں اور سیاسی قوتیں کمزور ہو گئیں اور 1999میں پرویز مشرف حکومت پر قبضہ کر لیا یہ 10سالہ میوزیکل چیئر حکومتیں تھیں۔ نواز شریف اور بینظیر ایک دوسرےکے خلاف مقدمات بناتے رہے اور جمہوریت کو کمزور کرتے چلے گئے۔ پھر لندن میں میثاقِ جمہوریت ہوا، بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے قسم اٹھائی کہ ہم ایک دوسرے کی حکومت کو گرانے کے لیے کسی قوت کے آلہ کار نہیں بنیں گے۔ پھر ایسا ہوا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے پانچ سال تک ایک ایک باری لی، ایک دوسرے کے خلاف ایسے مقدمات بنائے کہ پکڑے نہ جائیں پھر کیا ہوا تحریک انصاف نے 2018کے الیکشن میں میثاقِ جمہوریت والی دونوں پارٹیوں کو چاروں شانے چت کر دیا۔ عمران خان نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کی کرپشن کے خلاف تحریک چلائی۔ ایک طرف عوام نے ووٹ دیے اور حکومت دینے والی قوتوں نے بھی عمران خان کی پیٹھ کو ٹھونکا اور سابق حکمرانوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا مینڈیٹ دیا لیکن عمران خان عوام کی طرف سے دیے جانے والے مینڈیٹ کو پورا نہ کر سکے۔ نواز شریف پر ترس آگیا اور لندن جانے کی راہ ہموار کی بعد میں شور ڈال دیاکہ دھوکہ ہو گیا اور 50روپے کے اسٹامپ پیپر پر شہباز شریف نواز شریف کو لندن چھوڑ کر خود وزیراعظم بننے کا خواب لے کر واپس لاہور آگئے جو پورا نہ ہو سکا اور اب جاتی امرا میں نواز شریف کو توشہ خانہ کیس میں 17اگست کو عدالت میں پیش ہونے کا نوٹس لگا دیا جو بارش کی نذر ہو گیا، یہ بھی عوام کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ نواز شریف لندن میں پاکستانی عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے خریدے جانے والے محل میں خوش گپیاں لگا رہے ہیں اور پاکستان کے مفروروں اسحاق ڈار حسین نواز حسن نواز اور شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز اور داماد علی کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ اسپتال میں داخلے کے بجائے ہوا خوری کے لیے روزانہ کسی نہ کسی پُرفضا کیفے کا وزٹ کرکے پاکستانی عوام کا منہ چڑا رہے ہیں اور جہانگیر ترین جو کہ شوگر اور آٹے کے اسکینڈل کے مرکزی کردار ٹھہرے تو وہ بھی لندن کلب کے ممبر بن گئے اور لندن کی فضاؤں میں گونج ہے کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کی ملاقات ہو چکی لیکن ترین ماننے کے لیے تیار نہیں لیکن (ن)لیگ اس کی تصدیق کے قریب ہے۔ ترین کے لندن جانے کے بعد حکومتی ایوان میں زلزلہ آیا ہوا ہے مائنس ون اور عدم اعتماد کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں اور اپوزیشن 90کی دہائی کی طرح الزامات کی سیاست کر رہی ہے اور بلاول بھٹو بار بار عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں اور صدارتی نظام کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں اور تجزیہ نگار بھی گومگو کی حالت میں ہیں۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لیکر عمران خان کی حکومت تک کرپشن کے چرچے ہیں۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری تو حکومتوں میں جب جب آئے کرپشن کے بےتاج بادشاہ ٹھہرے، ملکی خزانہ لوٹا، لندن دبئی اور دیگر ممالک میں اتنی جائیدادیں بنائیں کہ پاکستان کا سرکاری خزانہ ان کے محلوں کے سامنے ہیچ نظر آنے لگا۔ اب تحریک انصاف کے بھی کرپشن کے واقعات سننے میں آرہے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان اوراجمل وزیر اشتہارات کی مد میں کمیشن لینے کے چکر میں وزارتوں سے نکالے جا چکے ہیں اور ایک وزیر صحت عامر کیانی جس نے ادویات کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ کیا اور میڈیسن مافیا سے مال بٹورنے کی خبریں سننے میں آئیں لیکن عمران خان نے یہ سزادی کہ عامر کیانی کو پارٹی کا جنرل سیکرٹری بنا دیا، جہانگیر ترین کو عدلیہ نے نااہل قرار دیا تو عمران خان نے ان کو حکومتی امور میں ساتھ رکھا جس کی وجہ سے انہوں نے چینی کو مہنگا کر کے اربوں کاچونا لگایا اور جو رقم جہانگیر ترین نے عمران خان کو جہاز اور ہیلی کاپٹر کے ساتھ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو خریدنے پر خرچ کی بمعہ سود دصول کی ۔جس کے صلہ میں خان صاحب نے ان کو لندن کلب کا ممبر بننے کا موقع فراہم کیا۔ نہ جانے کیا مجبوریاں ہیں جو عمران خان کو اپنے نعروں اور منشور پر عمل کرنے سے روک رہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ عمران خان صدر بننے کے لیے پر تول رہے ہیں اور وہ اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ چاہتےہیں لیکن ایوان میں ان کی جماعت کے ممبران کی تعداد کم ہے۔ عمران خان کیلئے مشورہ ہے کہ وہ اپنی گورننس کو بہتر کریں ورنہ آپ کی بھی داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔ جس طرح نواز شریف اور آصف علی زرداری کے خلاف آپ نے تحریک چلائی تھی اب آپ کے خلاف تحریک چلائی جائے گی۔

تازہ ترین