پچیس جولائی کو حکومت کو پورے دو سال ہو جائیں گے اور یقیناً اس بڑے دن کی مبارکباد دینا بنتا ہے اور زیادہ مبارک باد کی مستحق کیٹیگری ہماری پیاری سی عوام، جو کہ لغت کے مطابق مذکر ہے لیکن موجودہ حالت میں بےجان مونث بن چکی ہے، معصوم اور بے زبان دلہن کی طرح اپنا گھر بسا ئےرکھنا چاہتی ہے۔رشتہ کرانے والی عورت چرب زبانی میں ماہر ہوتی ہے، وہ لڑکی کے والدین کو بتاتی ہے کہ لڑکے کا اتنا بڑا گھر ہے کہ لڑکی راج کرے گی راج ، پھر دلہن کی بارات جس بڑی گاڑی میں آتی ہے تو اُسے دیکھ کر ماں باپ ایک دوسرے کو داد دیتے ہیں کہ واہ کیا اچھا فیصلہ کیا ہم نے، پھر رفتہ رفتہ سہانے خواب کرچی کرچی ہو جاتے ہیں۔ بڑا گھر کرائے کا فلیٹ نکلتا ہے اور وہ بڑی گاڑی میاں کے دوست اسلم دودھ والے کی تھی جو کبھی کبھی اپنی گاڑی اس لیے دیا کرتا ہے کہ میاں جی کے مکینک ہونے کی وجہ سے گاڑی کی مفت سروس ہو جاتی ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ میاں جی دلہن کے سونے کے کنگن جو اس کی ماں اور دادی کی نشانی تھے وہ یہ کہہ کر بیچ دیتا ہے کہ کاروبار سیٹ ہونے دو، یہ کنگن کیا پوراکا سیٹ بنا کردوں گا۔
اس روش پر ہمیں عمران خان کا وہ ٹویٹ یاد آجاتا ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’’پاکستان میں اب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے میں دگنی ہیں، جبکہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پاکستان سے 50سے 75فیصد زیادہ ہیں‘‘۔ اس ٹویٹ میں جو مژدہ جانفزا سنایا گیا، اگر اس کے ثمرات عوام کو ملتے تو وہ ضرور خوشی سے پھولے نہ سماتے لیکن عملاً ایسا کچھ نہ ہوا۔ یہ سب کیسے ہوا، یہ کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے کہ پیٹرول مافیا نے کیسے پہلے پٹرول کا بحران پیدا کیا اور بعد میں کیسے حکومت کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے 70ارب روپے کا منافع کمایا۔ وزارتِ پیٹرولیم کی جانب سے 25مارچ کو ایک لیٹر جاری کیا گیا جس میں آئل مارکیٹنگ کمپنی کو کہا گیا کہ اب آپ آئل امپورٹ نہیں کریں گے، اس خط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں آئل ریفائنری کے مالکان نے اپنی پیداوار میں کمی کر دی جب حکومت کو پتا چلا کہ ہماری جانب سے مارکیٹنگ کمپنیوں کو جاری لیٹر کی وجہ سے بحران پیدا ہو رہا ہے تو انہوں نے ایک مہینے کے بعد ’’ود ڈرا‘‘ کر دیا۔ ہم تو برسوں سے یہ چلن دیکھتے آئے ہیں کہ جیسے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی اطلاعات زیرگردش آتی ہیں ویسے اشیائے خورونوش سمیت ہر چیز کی قیمتوں میں پلک جھپکنے سے پہلے ہی اضافہ ہو جاتا ہے۔
حکومت اپنے منشور سے مخلص ہوتی تو اب تک بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی 50فیصد یا کم از کم ایک تہائی کمی کر چکی ہوتی۔ آئی ایم ایف کے مطابق مجموعی داخلی پیداوار کی شرح منفی ایک اعشاریہ پانچ تک گر سکتی ہے جبکہ ورلڈ بینک کے مطابق یہ منفی دو اعشاریہ چھ فیصد تک جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت اپنی دو سالہ معاشی ناکامیاں کورونا پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں کچھ ۔ سب سے پہلے لارج اسکیل انڈسٹری کی بات کر لیتے ہیں۔ دو سال ہو چلے ہیں، نیگٹو ہی ہے۔ گزرے چھ سے آٹھ ماہ کے اندر ہماری 3.4فیصد کے قریب نیگٹو گروتھ ہے، جس میں آٹو موبائلز چالیس فیصد کے قریب ڈائون ہوئے ہیں، سیمنٹ میں کچھ بڑھی ہے، آئرن اسٹیل وغیرہ میں چودہ پندرہ فیصد کی کمی ہے، ٹیکسٹائل میں کسی قسم کی گروتھ نہیں ہورہی، مقامی پیٹرولیم پروڈکشن دس فیصد کم ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں کورونا سے پہلے ہی لوگ بیروزگار ہو رہے تھےکہ کاروبار ٹھپ ہو رہے تھے، عام شہریوں پر نئے ٹیکس لگائے جا رہے تھے ۔ اسٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے کے مطابق موجودہ حالات میں مزید ایک کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے آسکتے ہیں، جس کے بعد ملک میں یہ تعداد پانچ سے چھ کروڑ ہو جائے گی۔
چینی کے نرخ بڑھے،شدید قلت ہوئی، عوام پریشان ہوئے، رپورٹ منظرعام پر لانے کا عندیہ دیا گیا، جب رپورٹ آئی تو شور بلند ہوا، واہ، واہ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ چینی کی قیمت میں 20سے 25روپے فی کلو اضافے کے باعث گزشتہ 14ماہ کے دوران صارفین نے تقریباً ڈیڑھ کھرب روپے اضافی ادا کیے جو شوگر مافیا کی جیبوں میں گئے۔ دسمبر 2018میں 56روپے کلو فروخت ہونے والی چینی جولائی 2020میں 90روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ شور تھما تو پتا چلا، غیروں سے زیادہ اپنے ملوث ہیں۔ حکومت نے معاشرے کے تمام طبقات کیلئے جی ایس ٹی میں 17فیصد اضافہ کردیا ہے۔ سیلز ٹیکس کی مد میں شوگر سیکٹر سے ایف بی آر کے ریونیو میں 62.3فیصد اضافہ ہوا ہے، تاہم شوگر جی ایس ٹی میں اضافے کا فرق بھی صارفین کو منتقل کرکے اپنے منافع میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ملک میں آٹے کا بحران تو یہ ہوا ایک اور سنہری کارنامہ۔
سچ پوچھیے تو دلہن کے لیے گھر کا کچن چلانا بس سے باہر ہو چکا ہے۔ جو چیز آج خریدتی ہے وہ اگلے ہفتے دوبارہ لینے جاتی ہے تو اس کی قیمت میں پندرہ سے بیس فیصد اضافہ ہو چکا ہوتا ہے، جینا تو پہلے ہی مشکل تھا مرنا بھی آسان نہیں رہا، یہ سب کیا ہو رہا ہے، پرائس کنٹرول کمیٹیاں کیوں فعال نہیں ہیں؟ ایک ایسے وقت میں جب ایک جانب موت کا بھیانک رقص جاری ہے، بنی نوع انسان کو اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے، ہماری منافع خور مافیاز سرگرم ہیں۔ حرفِ آخر یہ کہ اب دیکھنا ہے جو اپنی شادی کی دوسری سالگرہ یعنی ہیپی اینی ورسری منانے جا رہے ہیں اگر حالات یہی رہے تو وہ یہ اینی ورسری مزید کتنی بار منا سکیں گے؟