• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جانے کب جھولا کرسی پر بیٹھے بیٹھے رعنا کی آنکھ لگ گئی ۔ شام ہوچلی تھی، کمرے میں پھیلا ملگجا اندھیرا ، گھر میں پھیلے سنّاٹےکو مزید گہرا کر رہا تھا۔ انہوں نے بمشکل آنکھیں کھولیں، مگر ذہن جیسے آدھا سویا ، آدھا جاگا سا تھا۔ آنکھیں موند کر دوبارہ کرسی پر جھولنے لگیں۔’’گلِ رعنا…!! گلِ رعنا…!! سو رہی ہیں کیا…؟؟‘‘ انہیں لگا ، جیسے خواب میں کوئی پکار رہا ہے۔ ’’گلِ رعنا…!‘‘ کسی نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔تب انہوں نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔ ’’آپ کہاں چلے گئے تھے؟‘‘ شوہر، سفیر احمد کو دیکھ کر خواب آلود لہجے میں گویا ہوئیں۔’’مَیں یہیں تھا، آپ کو بتا کر تو گیا تھا۔لان کی کیاریاں صاف کیں، پودوں کو پانی دیا۔ گرمی کی وجہ سے مُرجھارہے تھے…‘‘’’آپ تھک گئے ہوں گے، مَیں چائے بنا کر لاتی ہوں۔‘‘ انہوں نے اُٹھنے کی کوشش کی۔’’ آپ بیٹھی رہیں،آج مَیں آپ کو چائے پلاتا ہوں۔‘‘سفیر نے کیتلی میں پانی ڈال کر چولھے پر رکھا اور کیبنٹس کھول کر بسکٹ تلاش کرنے لگے ،مگر سارے کیبنٹس خالی تھے۔ ’’ کتنا دل چاہ رہا تھا، چائے کے ساتھ بسکٹ کھانے کا…‘‘وہ مایوس سے ہوکر بڑبڑائے۔’’بسکٹ چاہئیں؟‘‘ انہوں نے مڑ کر دیکھا تو گلِ ر عنا کھڑی تھیں۔’’ہاں، ہیں کیا؟ مجھے تو نہیں ملے۔‘‘ گلِ رعنا نے آگے بڑھ کر کیبنٹ میںپڑے جار ٹٹولے اور ایک جار میںسے بسکٹس نکالے۔’’ارے واہ! مَیں تو مایوس ہی ہوگیا تھا۔‘‘ سفیر احمد خوش ہو کر بولے۔

چائے پیتے ہوئے بھی گلِ رعناخاموش سی تھیں۔ سفیر ان کے چہرے پرنظریں جمائے ماضی میں کھوسے گئے۔ کتنے خوب صُورت دن تھے، جب گلِ رعنا ان کی زندگی میں بہار کا استعارہ بن کر آئی تھیں ۔وہ اسم با مسمٰی تھیں۔ ایک حسین پھول ،جس نے ان کا جیون معطّر ساکردیا تھا۔ سفیر احمد کا دل چاہتاکہ زندگی کی ساری خوشیاں گلِ رعنا کے قدموں میں ڈھیر کردیں، مگر ذمّے داریوں میں گِھرے، معاشی تنگی کے شکار سفیراحمد کی یہ آرزو تادیر پوری نہ ہوسکی۔

لیکن آفرین ہے گلِ رعنا پرکہ صبر وشُکرکی تصویر بنی رہیں ، کبھی شکوہ نہ کیا۔ بہت سلیقے اور سمجھ داری سےگرہستی چلائی۔ تین نندوں کو بیاہ کر بچّوں کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوگئیں، اپنی سفید پوشی کا ایسا بھرم رکھا کہ لوگ رشک کرتے۔ بچّےبھی لائق فائق نکلے اور ماں باپ کو مایوس نہ کیا، مگر عجیب اتفاق تھا کہ دونوں بیٹے روزگار کے سلسلے میں باہر جابسے، تو بیٹیوں کے رشتے بھی ایسے لوگوں میں ہوئے، جو دیارِ غیر میں مقیم تھے۔ چھوٹی بیٹی لیلیٰ کی شادی گزشتہ برس ہی ہوئی تھی۔ اسے بیاہنے کے بعد تو دونوں بہت ہی اکیلے ہوگئے۔ 

اب گلِ رعنا پر ایک ہی دُھن سوار تھی کہ دونوں میاں بیوی کسی طور فریضۂ حج ادا کرلیں۔ اس مقصد کے لیے وہ کئی برس سے تھوڑی تھوڑی بچت بھی کررہی تھیں۔ سفیراحمد جانتے تھے کہ شادی کے بعد شاید یہ پہلی آرزو تھی، جو گل ِرعنا نے اپنی ذات کے لیے کی تھی، مگر افسوس کہ دنیا بھر میں پُھوٹنے والی کورونا کی وبا نے نہ صرف کئی زندگیوں کے چراغ گُل کیے ،بلکہ کتنے ہی دِلوں میں پنپتے خواب بھی توڑ دئیے۔

رعنا کو ہر لمحہ یہی دُکھ کھائے جاتا کہ وہ اس سال فریضۂ حج ادانہیں کر سکیں گی، ان کی دِلی خواہش ادھوری رہ گئی۔پھر بچّوں کی جدائی اور فکر بھی انہیں مضمحل رکھتی، کسی کی کال میں تاخیر ہوجاتی تو بے حد بےچین ہوجاتیں، آنسو تو جیسے ہر دَم چھلکنے کو تیاررہتے۔گرچہ چاروں بچّے اور ان کے اہلِ خانہ کورونا سے محفوظ تھے اور وہ خود دونوں میاں بیوی بھی، لیکن اس کے با وجود ایک گہری اداسی نے جیسے ان کے پورے وجود کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ سفیر احمد انہیں خوش رکھنے کی حتی الوسع کوشش کر رہے تھے مگر وہ ہر وقت بجھی بجھی ، اداس ہی رہتیں۔

ایک روز سفیراحمد سودا سلف لائے ، تو کریلے بھی خرید لائے کہ ان کا دل کریلے، قیمہ کھانے کو چاہ رہا تھا، مگر وہ گلِ رعنا کو کسی مشقت میں نہ ڈالنا چاہتے تھے، لہٰذا چُپکے چُپکے خود ہی تیاری کرتےرہے۔گلِ رعنا عصر کی نماز پڑھ کر کچن میں گئیں ،تو وہ کریلے فرائی کر رہے تھے۔’’کیا کر رہے ہیں آپ…؟اور آپ کو ہوکیاگیا ہے؟ مجھے نہیں کہہ سکتے تھے کہ کریلے پکا دو…‘‘ ’’آپ…‘‘ وہ کچھ گھبرا سے گئے۔ ’’ارے بھئی! آپ تو ہمیشہ ہی مجھے نِت نئے پکوان پکا کر کھلاتی ہیں، اگر آج مَیں پکالوں گا تو کیا ہوجائے گا…؟؟‘‘’’اتنی گرمی ہےکچن میں، آپ چھوڑیں، باقی کام مَیں کرلوںگی۔ ‘‘وہ مُصر ہوئیں۔’’تو کیا آپ کو گرمی نہیں لگتی… چلیں ،آپ آہی گئی ہیں، تو روٹیاں پکا لیں، پھر مل کر کھائیں گے…‘‘ سفیر احمد نے تجویز پیش کی۔قیمہ ،کریلےکا سالن اتنا لذیذ تھا کہ گلِ رعنا نے بھی کئی دن بعد پیٹ بھر کے کھانا کھایا۔ سفیراحمد کو لگا کہ ان محنت وصول ہوگئی۔

کھانے کے بعد سفیراحمد گلِ رعنا کو سوشل میڈیا پر کچھ دل چسپ ویڈیوز دکھانے لگے۔ وہ بھی دیکھ کر دھیمے دھیمے مسکراتی رہیں۔مگرجوں جوں حج اورعید کے دن قریب آرہے تھے، رعنا کی اُداسی بڑھتی جارہی تھی ، پہروں سوچوں میں گم رہتیں۔ تصوّر ہی تصوّر میں اللہ کے گھر پہنچ جاتیں اور دل ’’لبّیک، اللّھم لبّیک ،لبیک لا شریک لک لبّیک…‘‘ کا ورد کرنے لگتا۔کورونا کے سبب فلائٹ آپریشنز بند تھے تو امسال عید پر بچّوں سے ملاقات بھی ممکن نہیں تھی، تو ان کا دل کسی خوشی کی بات پر بھی خوش نہیں ہو رہا تھا۔

سفیراحمد ان کے دل کا حال بخوبی جانتے تھے ،مگر اپنی باتوں سے دل بہلانے کے علاوہ ان کے بس میں کچھ نہ تھا۔ ایک شام وہ موبائل دیکھتے ہوئے بے حد دُکھی ہوگئے۔ ساتھ بیٹھی گلِ رعنا نے ان کی اُداسی فوراً محسوس کرلی۔’’کیا ہوا؟سب خیریت توہے؟آپ ایک دَم سےچُپ کیوں ہوگئے۔‘‘گلِ رعنا نے پریشان ہو کر پوچھا۔ ’’کچھ نہیں، بس یونہی۔‘‘ وہ گلِ رعنا کو حتی الامکان بُری خبروں سے دُور ہی رکھتے تھے۔’’کچھ تو ہے، بتائیے ناں…‘‘وہ مصر ہوگئیں۔ سفیراحمد نے خاموشی سے فون ان کی جانب بڑھا دیا۔ ’’یہ معصوم بچّہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہے، جس کے علاج کے لیےلاکھوں روپے درکار ہیں، مگر بچے کا غریب باپ علاج کروانے سے قاصر ہے۔ 

یہ پوسٹ میرے ایک دوست نے شیئر کی ہے، بچّے کا باپ اس کے محلّے میں سبزی کی ریڑھی لگاتا ہے۔اس نے مدد اور دعاؤں کی اپیل کی ہے۔‘‘ سفیر احمد خاموش ہوئے تو گلِ رعنا وہ تصویر دیکھ کر تڑپ سی گئیں۔ اور ان کاحزن وملال کا خودساختہ خول ایک چھناکےسےٹوٹ گیا۔’’یا اللہ! ہمارے اِرد گِرد کتنے لوگ، کیسی کیسی بیماریوں،پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔مَیں ناحق ہی خود کو دنیا کی سب سے دُکھی عورت سمجھ رہی تھی ۔ ربّ کریم! لیکن تیرا ہزارہا شُکر ہے کہ مَیں، میرے رفیقِ حیات اور بچّے سب تیری امان میں ہیں، محفوظ ہیں۔‘‘ وہ آنکھیں بند کیے کُرسی پر بیٹھی سوچ رہی تھیں، پھراچانک ہی اُٹھیںاوروضو کرکے اللہ کے حضور نوافل ادا کرنے لگیں۔

اگلی صبح انہوں نے سفیر احمد سے کہا کہ حج کے لیے جمع کی گئی ساری رقم اُس بچّے کے علاج کے لیے دے دیں ۔اورسفیراحمد تو اپنی شریکِ حیات کے چہرے پر بکھری رعنائی دیکھ کر ہی انتہائی پُرسکون ہوگئے ۔ مسکرا کر بولے ’’جیسے آپ کی خوشی بیگم صاحبہ…‘‘اُس رات گلِ رعنا کواپنا دل و دماغ بہت ہلکا پھلکا محسوس ہوا۔ وہ سکون سے گہری نیند سوئیںاور عید کی صبح اُٹھتے ہی سیدھے با ورچی خانے کا رُخ کیا۔ مختلف پکوانوں کی اشتہا انگیز خوشبوؤں نے سفیر احمد کی بھوک چمکا دی تھی۔ کچن میں جھانکا تو گلِ رعنا کو تن دہی مصروف پایا۔ 

آج اُن کے چہرے پر ویسی ہی آسودگی اور اطمینان تھا، جیسا اپنے بچّوں سے ملاقات کے وقت ہوتا تھا۔ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ کہ آج وہ اپنے چار بچّوں کے لیے نہیں، بے شمار ضرورت مند ، غریب گھرانوں کے لیے پیکٹس تیار کر رہی تھیں۔ ’’عید مبارک میری گلِ رعنا‘‘ سفیر احمد آج اتنے عرصے بعد اُنہیں خوش دیکھ کر چہکے۔’’آپ کو بھی صبحِ عید مبارک‘‘ وہ مُسکرائیں۔ ’’آپ ناشتا کرلیں، تو پھر کچی آبادی میں یہ پیکٹس بانٹنے چلتے ہیں۔‘‘گلِ رعنا نے بڑی چاہ سے اُن کی طرف دیکھا، تو سفیر احمد نے آگے بڑھ کر اُن کے ہاتھ تھام لیے۔’’کیوں نہیں، بس اللہ آپ کے چہرےکے یہ رنگ سلامت رکھے۔‘‘

تازہ ترین