پاکستان کی معروف انٹرنیٹ آف تھنگ(آئی او ٹی) کمپنی ٹی پی ایل کارپوریشن نے ٹریکنگ کے ذریعے کورونا سے متاثرہ علاقوں تک رسائی ممکن بنادی۔
ٹی پی ایل ٹریکر کی میپنگ ڈویژن نے ایسا انٹر ایکٹو میپ متعارف کروایا ہے جو عالمی وبا کے پھیلاؤ والے مقامات کی نشاندہی کرتا ہے۔
بڑے شہروں میں کورونا وائرس کے کیسز کی میپنگ، تجزیہ اور رپورٹ کرتے ہوئے اس وبا کے دوران پاکستان کے عوام کی مدد کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ٹی پی ایل کمپنی کے سی ای او سرور علی خان نے جنگ ویب سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں ٹریکنگ کی سہولت ٹی پی ایل فراہم کررہی ہے ، ٹی پی ایل حکومت پاکستان سے لائیسنس شدہ کمپنی ہے، جو کارگو ٹریکنگ، کنٹینر سیکیورٹی، آئی او ٹی کی سہولت اور ٹریکنگ کی دیگر مسائل کا حل فراہم کررہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ عالمگیر وبا کے دوران ٹیم کے ساتھ مل کر ٹیکنالوجی کی دنیا میں جدت لاتے ہوئے ایک ایسی ایپ تیار کرکے حکومتِ پاکستان کو دی ہے جس کے پیچھے دو مقصد تھے، ایک تو یہ کہ کورونا سے زیادہ متاثر علاقہ کونسا ہے اور دوسرا یہ کہ اسے ٹریک کیسے کیا جائے۔
سرور علی خان نے کہا کہ اس جدید ٹیکنالوجی سے میپنگ کے ذریعے ڈیٹا حاصل کیا جاتا ہے جس سے کورونا کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کیلئے حکومت کو جغرافیائی سطح پر اسمارٹ لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات اٹھانے میں آسانی ہوتی ہے۔
مزید انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جی پی ایس اور بلوٹوتھ کی ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں جو چین، کوریا اور آسٹریلیا میں کورونا کی روک تھام کیلئے کامیابی سے استعمال ہورہی ہے ۔
حکومت کو فراہم کردہ ایپ کے دئیے گئے ڈیٹا اور اس کی تصدیق کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈیٹا انتہائی محفوظ ہے کیونکہ ایپ کے ذریعے دیا جانے والا ڈیٹا انتہائی حساس اور ذاتی ہونے کے باعث یہ صرف نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے پاس محفوظ ہے جو اسپتالوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔
ٹریکنگ کا حل فراہم کرنے والی کمپنی ’ٹی پی ایل ٹریکر لمیٹڈ‘ 2016 میں پاکستان کی پہلی مقامی طور پر تیار کی جانے والی ڈیجیٹل میپنگ سولوشن (digital mapping solution) موبائل ایپ جاری کی تھی۔
ٹی ایل پی گوگل میپ کی حریف کس طرح ہے ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سرور علی خان نے کہا کہ اس وقت گوگل کی پاکستان میں کوئی قانونی نمائندگی نہیں ہےنہ کوئی آفس ہے، کوئی ٹیکس نہیں دیا جاتا تو اس لحاظ سے حکومتِ پاکستان جب چاہے گوگل میپ کو ختم کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میپنگ کیلئے ’سروے آف پاکستان‘ کا لائسنس درکار ہوتا ہے جو اس وقت صرف ٹی ایل پی کے پاس ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کے لوکل ایریاز میں جہاں گوگل کی رسائی نہیں وہاں ہماری ایپ آسانی سے پہنچ سکتی ہے اور بہت سی بڑی کمپنیوں جیسا کہ فوڈ پانڈا نے گزشتہ 6 ماہ سے ہماری ایپ کا استعمال شروع کیا ہے۔
اس سے ہمیں لوکل اور عوام کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا رہتا ہے اس طرح ہم اپنی ایپ کی بہتری کیلئے مسلسل کوشاں رہتے ہیں کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد گوگل میپ سے ہماری ایپ پر منتقل ہورہے ہیں کیونکہ ہمارا روڈ میپ لوگوں کی ترجیحات کے عین مطابق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اپنی ایپ ’ڈیجیٹل میپنگ سولوشن ‘میں زیادہ درست اور سہولت کے عین مطابق ڈیٹا فراہم کرنے والا ’انڈور میپ‘ کا آپشن بھی متعارف کروایا ہے جو پاکستان میں اپنی طرز کا پہلا کامیاب تجربہ ہے۔
سرور علی خان نے بتایا کہ اُن کی ایپ کا اگر کمرشلی موانہ گوگل سے کیا جائے تو ان کی ایپ زیادہ سستی اور آسان ہے۔اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ گوگل سے 40 فیصد ڈسکاؤنٹ پر ہے ۔
سرور علی خان نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) کے ساتھ شراکت داری کی ہےاور بےشمار پراجیکٹس میں کام کررہے ہیں ، ڈیجیٹل پاکستان بھی اسی کی ایک مثال ہے۔
پاکستانی کی معاشی صورتحال اور سرمایہ کاری کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے سرور علی خان نے کہا کہ مختلف بڑے بینکس نے ہمارے انڈر رائٹس لیے ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ مارکیٹ اس وقت مستحکم ہے اور سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہماری کمپنی کی ترقی کی عالمی وبا کے دوران بھی اچھی قدر ہے کیونکہ آگے سب آن لائن ہے عوام شاپنگ سے لے کر عام ضروریات کا سامان سب گھر پر چاہتی ہے جو میپ اور لوکیشن کے بنا ناممکن ہے۔