• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر رفعت سلطانہ

گزشتہ برس سے ٹڈی دل کی تباہ کاریوں کا نہ نمٹنے والا سلسلہ آج تک جاری وہ ساری ہے۔ اور اب تک لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی اس کی لپیٹ میں آچکی ہے ۔فصلیں جن میں گندم، مکئی، چاول، کپاس، دالیں، سبزیاں، پھل اور پھول شامل ہیں۔ اس کے حملے میں مکمل طورپر تباہ ہوچکی ہے ایک طرف کووڈ 19کی جنگ اور دوسری طرف غذائی قلت ،عالمی سطح پر ہماری معاشی ابتری کی جانب گامزن ہے ،حالا ںکہ ٹڈی دل کو کنٹرول کرنے کے لیے ملک میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں ۔جن میںمحکمہ ٔ زراعت ،فوڈ سیکورٹی اور عام لوگوں کی مشترکہ کوششیں شامل ہیں ۔

اس ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لیے ہرکوئی اپنا بھر پور کردار ادارکر رہا ہے، حالیہ اطلا عات کے مطابق اب تک تقریبا ً ہزاروں لیٹر کا میلا تین (Malathion) اسپرے کیا جا چکا ہے ،تا کہ ان حشرات کو بروقت تلف کیا جاسکے، لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ کیمیائی اسپرے اس کا فوری بچائو تو ہے لیکن اس کے مزید حملے اور مستقل کنٹرول میں یہ تیکنیک مکمل طورپر ناکام ثابت ہورہی ہے اور اسپرے کی فصلیں کئی ہفتوں تک قابل استعمال بھی نہیں مزید یہ ہے کہ ہزاروں لیٹر کا اسپرے کرنے کے باوجود ملک میں اس کی سنگینی ویسے ہی برقرار ہے جو روز اول سے تھی اگر انتظامیہ ایک (Swarm)بھیڑ کو ختم کرتی ہے تو چند ہی روز میں دوسری بھیڑ تیار ہوکر دوبارہ فصلوں پر حملہ آور ہونے کے لیے بے تاب ہوتی ہے ،کئی علاقوں میں بار بار اسپرے کیا جارہا ہے جوکہ کسی بھی جاندار اور ماحول کے لئے سازگار نہیں ہے اور اس پر ستم یہ ہے کہ لاکھوں روپے کا زرمبادلہ خرچ کرکے بھی ہم خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ 

ماہرین زراعت کے مطابق اگر موجودہ بحران اسی افتاد سے جاری رہا تو ملک کی معاشی حالت مزید ابتری کی طرف جائے گی اور ملک میں ناقابل برداشت معاشی بحران پیدا ہوگا۔ ٹڈی دل اب تک افریقا، یورپ، آسٹریلیا سمیت پاکستان اور اس کے پڑوسی ممالک کو بری طرح متاثر کرچکا ہے صرف افریقا میں ہی 13 کروڑ کے لگ بھگ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں اور اگر یہ بحران اس طرح جاری رہا تو یہ تعداد دگنی بھی ہوسکتی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اگر اس کوکنٹرول کرنے کا فوری اور موثر طریقہ نہیں متعارف کروایا گیا تو مستقبل قریب میں ہمیں افریقا جیسی صورت حال کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو اب تک تقریباً 13تا 14خطرناک بھیڑ سے دنیا دوچار ہوچکی ہے ۔

تاریخ کا بڑا اور بدترین بھیڑ پہلی بار Palestineمیں 1915ءمیں رپورٹ ہوا اور اس کے نتیجے میں زمین پر طویل عرصہ تک خشک سالی کا دور رہا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً ایتھوپیا ،موراکواور سائوتھ ویسٹ ایشیا جن میں پاکستان، ایران، افغانستان اور ہندوستان بھی شامل ہیں ان میں کئی خطرناک ترین بھیڑمختلف ادوار میں ریکارڈ کئے گئے ہیں اور ان کے معاشی حالات پر اثرات کئی سالوں تک برقرار رہے۔ پاکستان میں موجودہ بھیڑ اب تک تقریباً 62اضلاع کو متاثر کرچکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق 54اضلاع میں یہ اب بھی اپنی مختلف Developmentalاسٹیج کے ساتھ موجود اور گرائونڈ میں مصروف عمل ہے۔ 

ٹڈی دل کو کنٹرول کرنے کے لیے عرصہ دراز سے مختلف کیمیکل کا استعمال عمل میں لایا گیا ،جن میں عام طورپر Solution of Dieldrin، Chlordanc، Dpt Parathion، Malathion، Dimetilanاور Sevinکا استعمال کثرت سے کیا گیا، جب کہ حالیہ بھیڑ کی روک تمام کے لیےپاکستان میں بڑے پیمانے پر Malathion )95% ULV)کا اسپرے کیا گیا ۔ ان کیمیکل کے استعمال کے خاطر خواہ نتائج تو سامنے نہیں آئے، البتہ ماحولیاتی، آلودگی، صحت کے مسائل چرند پرند کی اموات، ایکو سسٹم کی تباہی کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے مسائل کا موجب ضرور بنے ہیں۔ حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں کیمیکل کا استعمال بہت زیادہ ہے دنیا میں اب تک استعمال ہونے والے Pesticidos کی شرح استعمال میں 85سے 90فی صد پاکستان میں استعمال ہوتا ہے جب کہ Emgicideکا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے اور Herbicidosکا استعمال 5سے 6فی صد ہے۔

اس کے بر عکس یہ اعداد وشمار ترقی یافتہ ممالک میں بہت متضاد ہیں ،وہاں انسکٹو کوڈ (Insectocodes)کا استعال نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ فنگسائڈس( Fingicides)اورہربیسائڈس(Herbicides) کا استعمال عام ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ترقی یا فتہ ممالک میں ماحولیاتی آلودگی اور دیگر صحت کے مسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ مجموعی طورپر دنیا میں فنگسائڈس کا استعمال 49 فی صد وائرس کا 16 فی صد بیکٹیریا کا 36 فی صد Nematodesکا9فی صد جب کہ دوسرے Microsporidicکا استعمال صرف 2 فی صد تک رہا۔ 

ان تمام حالات کے پیش نظر حیاتیات اور زراعت اس امر پر متفق ہوئے ہیں کہ ٹڈی دل کی مستقل بنیادوں پر روک تھام کے لیے ایک جدید مستحکم نظام کو بہتر جائے جوکہ نہ صر ف اس کی نشوونما اور پھیلائو کو روک سکے بلکہ ہمارے ماحول کو بھی آلودگی سے بچا سکے ان تمام تر مسائل کا حل صرف اور صرف بایولوجیکل کنٹرول( Biclogical Control)میں ہی پوشیدہ ہے ۔ اس طریقہ کار میں کسی اور مخلوق کی زندگی اور سرگرمی بھی متاثر نہیں ہوگی اور ہم اپنے مطلوبہ نتائج بھی حاصل کریں گے اور ماحول پر بھی کوئی برے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ 

ان بایولوجیکل ایجنڈزمیں عام طورپر بیکٹیریا ۔وائرس Nematodes Protozoam، Entemopathogemic Fungi فنجائی اور شکاری پرندے شامل ہیں ۔ چین میں Nuclear Polyhedrosis نامی وائرس کو ٹڈی دل کی روم تھام کےلیے موثر انداز میں استعمال کرنے کی تجویز دی ہے ۔ اب تک تحقیقی کاوش کے مطابق Bacillusنامی بیکٹیریا ٹڈی دل کے موثر کنٹرول میں بہت مفید اور دیرپا نتائج کے طورپر سامنے آرہا ہے۔ 

اس کے استعمال سے ہم دیرپار نتائج حاصل کرسکتے ہیں جب کہ Enromo Pathogon فنجائی ایک خاص قسم کی fingiہے، جس کے استعمال سے کئی خطرناک قسم کےحشرات کو باآسانی اور مکمل کنٹرول کیا گیا ہے۔ دراصل Sporeحشرات کی جلد میں باآسانی تحلیل ہوجاتے ہیں ،جس میں داخل ہونےکے بعد وہ آہستہ آہستہ حشرات کی اہم سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ بننے لگتے ہیں اور بالآخر حشرہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اب تک بایولوجیکل ایجنڈزمیں اس کا اثر بہت جلد حشرات پر نمودارہوتا ہے ہماری لیبارٹری نتائج کے مطابق اس کے کارآمد نتائج 48-24 اور 72گھنٹوں کے بعد ہی حاصل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ 

اس فنجائی کے ساتھ ہی ایک اہم Embrogonic Parasite) Scelioبھی ہے جو ٹڈی دل کے انڈوں کو کنٹرول کرنے کی وجہ سے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے یہ دراصل Egg-Parasiteہے جوکہ زیرزمین مدفون شدہ انڈوں کو اپنی خوراک بناتا ہے یہ زمین میں دفن (Egg-Pods) میں سورا خ کرکے داخل ہوتا ہے جہاں بڑی تعداد میں انڈے موجود ہوتے ہیں۔ تقریباً ٹڈی دل کی Gregarious Phase، 84تا 90 جب کہ 92-105 Solirary Phaseانڈے دیتی ہے یہ تقریباً 80فی صد انڈے کھا جاتا ہے یا پھر ان کو توڑ پھوڑ دیتا ہے ٹڈی دل کی مزید نسل پیدا ہونے سے پہلے ہی مرجاتی ہے یہ یقیناً 100 فی صد کامیاب کنٹرول ہے۔ اگر Scelioکو بڑے پیمانے پر کلچرکیا جائے اور پھر تمام متاثر اضلاع جہاں پر ٹڈی دل کی Ovipositionہوچکی ہے یا ہونے والی ہے ان جگہوں/ اضلاع میں چھوڑ دیا جائے تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ Scelioان انڈوں کو تلاش کرکے اپنی خوراک کا حصہ بنالیں گے اور مستقبل قریب میں ہم ایک بڑی تباہی سے محفوظ ہوجائیں گے۔ پاکستان میں اب تک Scelioکے استعمال سے Hieroglyphus کی تین اہم انواع کو کنٹرول کیا جاچکا ہے۔ Scelioکے ساتھ ساتھ Nenatodesکے گروپ میں جس میں Mermisnigooscencs شامل ہے۔ 

عموماً بہترین بایولوجیکل کنٹرول ایجنڈ تصور کیا جاتا ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عموماً موسم گرما خاص (مئی تا جون) برسات کے موسم میں کافی کثیر تعداد میں پایاجاتاہے یہ انہی انڈے foliageپر رہنا پسند کرتا ہے یہ عموماً جسامت میں بڑے تقریباً 160ملی میٹر تا 6انچ تک ہوتے ہیں اس کی وجہ سے باآسانی پہچان میں آتے ہیں یہ عموماً ٹڈی دل،bettle ,lepidoptera اور hymenoptera کوکنٹرول کرنے کےلیے بہت موثر ہے ۔ وہاں اس موسم میں کئی قسم کے حشرات بھی اپنی خوراک کے حصول کےلیے سرگرم ہوتے ہیں۔ لہٰذا گھاس پھوس کو کھانے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات وہ ان انڈوں کو بھی نگل جاتےہیں جوکہ حشرات کے جسم میں جاکر Hatchingکے مراحل میں گزرتے ہیں ۔

Mermisوہاں پر کثیر تعداد میں ہوں گے۔ جہاں پر Parasitismکرنے کی شرح تقریباً 20تا 70فی صد رپورٹ ہوئی ہے یہ کبھی بھی خشک جگہوں پر نہیں ملتا ہے، البتہ جہاں نمی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے یہ وہاں پر موجودہوتا ہے۔ لہٰذا پاکستان کے کئی ایسے علاقے جن میں تھرپارکر، ایکستان، بلوچستان اور چولستان شامل ہیں۔ وہاں نمی کا تناسب اور سالانہ بارشوں کی شرح بہت کم ہے۔ لہٰذا وہاں پر Scelio Speciesانواع کو Cullireکروا کر متعارف کروایا جائے۔ Scelioکے ساتھ ساتھ Entrombidim جو عام طورپر Redniteکے طورپر جانا جاتاہے کبھی کبھار اس کو ٹڈی دل کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے یہ عموماً اپنی larvaاسٹیج میں ٹڈی دل کے نابالغ اور بالغ کو موثر طریقے سے کنٹرول کرتا ہے یہ Mitesعموماً حشرات کے پیروں میں چھپ کر بیٹھ جاتی ہے اور جسم کے اندرونی حصوں کے ساتھ منسلک ہوکر ان کے جسم میں ایک خاص مادّہ جس کو Hemdymphکہا جاتا ہے۔ Red miteکا infection حشرات پر مون سون بارشوں میں باآسانی نوٹ کیا جاسکتا ہےاور یہ ہی وہ کارآمد وقت ہے جب ان کو کثیر مقدار میں اکٹھا کرکے مزید (Culruring technique)کے ذریعے کمرشل سطح پر بروئے کار لایا جائے۔ Mermisکا لائف سائیکل بہت پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا لمبا اور وقت طلب ہے۔ لہٰذا اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اس کے انڈوں کو بھی جمع کرکے مصنوعی ترقی سے Hatchکروایا جائے اور Gooeth Chamberکے ذریعے ان کے Larvaوغیرہ کی نشوونما کروائی جائے اور پھر جیسےہی قلیل مقدار مہیا ہو اس کو فوری طورپر فیلڈ میں متعارف کروایا جائے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بایو لوجیکل کنٹرول دیرپا اور فائدہ مندانہ نتائج پر مشتمل ہے اس کے لیے ہمیں بہت ہمت برداشت اور حوصلے کے ساتھ کیمیکل مافیا کا مقابلہ کرناہوگا ۔کیمیکل اسپرے بہت جلد اور فوری نتائج کا ضامن ہے۔ لہٰذا ایک عام کسان کی نظر میں اس سے پائیدار اور کوئی ذریعہ نہیں حالیہ بحران کے نتیجے میں حکومت اور عوام الناس نے بڑی بے دردی کے ساتھ ہزاروں لیٹر میں ان کیمیکل کا استعمال کیا باوجود اس کے کہ یہ مختلف نقصانات کا براہ راست ذمہ دار ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ایک باشعور اور ذمہ دار قوم کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے ملک کی سلامتی و بقا کے لیے اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک جدید (Pollution free Zone) کی تشکیل نو کرنی ہوگی ،جو نہ صرف ملک کو لاکھوں اربوں کے سالانہ اخراجات سے محفوظ رکھے گا بلکہ عوام الناس کو ایک صاف ستھری فضا بھی میسر ہوگی۔ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کی تقلید کرتے ہوئے بایولوجیکل ایجنڈ کو ہنگامی بنیادوں پر متعارف کروائے اور ان لوگوں کی بقا کے لیے بھی موثر اقدامات کرے۔ ایک ذمہ دار شہری کے فرائض نبھاتے ہوئے ہمیں یہ سبق کسان برادرری تک براہ راست پہنچانا ہوگا۔ 

کسانوں کو اعتماد میں لےکر بایولوجیکل ایجنڈکے releaseکو ممکن بنا یا جاسکتا ہے ۔یہ وہ مقاصد ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے بایولوجیکل کنٹرول کی ضرورت کو محسوس کیا جائے اور اس کی جامع معلومات کو ٹیسٹنگ کے مرحلے سے گزار کر عملی طور پر اپنا یا جائے یا وقت ضرورت ملک میں کسی بھی سنگین معاشی صورت حال سے نمٹنے کے لیے یقیناً کار آمد ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین