• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دورہ انگلینڈ، قومی ٹیم کا جیتنا مشکل نہیں، ناممکن ہے

لارڈز ( لندن) کے تاریخی اسٹیڈیم کے خوب صورت میڈیا بکس میں 23مئی 2018 کی دوپہر جب میں داخل ہوا، تو سابق کپتان رمیز راجا اور وقار یونس محو گفتگو تھے، دونوں کے تحفظات ٹھیک ایک دن بعد پاک انگلینڈ سیریز کے پہلے ٹیسٹ کو لے کر نا ختم ہونے والے تھے، دونوں کی گفتگو کا اختتام اس بات پر ہوا کہ ٹیسٹ تین دن سے زیادہ نہیں جا سکے گا لیکن 24سے 27مئی 2018ء تک لارڈز پر کھیلے گئے۔

اس ٹیسٹ میں سب کچھ دو سابق کپتانوں کی گفتگو کے بر خلاف ہوا۔ میچ میں محمد عباس کی 8/66کی پرفارمنس اور پہلی اننگز میں شاداب خان کی نصف سینچری اور فہیم اشرف کیساتھ چھٹی وکٹ پر 72رنز کی شراکت نے سرفراز احمد کی قیادت میں ٹیم پاکستان کی 9وکٹ کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔

اب پاکستان کرکٹ ٹیم اظہر علی کی قیادت میں تین ٹیسٹ کے لئے انگلینڈ کی مہمان ہے، وہ انگلینڈ جس نے حال ہی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز پہلا ٹیسٹ ہارنے کے بعد 2/1سے اپنے نام کی ہے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ میزبان انگلینڈ کی بیٹنگ لائن اپ کو مضبوط نہیں کہا جا سکتا، اور انگلینڈ /ویسٹ انڈیز سیریز میں بولرز کی بالادستی اس بات سے ظاہر ہے کہ سیریز میں کوئی سینچری اننگز سامنے نہیں آئی اور پوری سیریز میں صرف آٹھ نصف سینچریاں ہی بن سکیں لیکن اس بات سے قطع نظر انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز شروع ہونے سے قبل گرین شرٹس کے بیٹس مینوں کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔

ایسا کہا جائے، تو لکھنا غلط نہ ہوگا، انگلینڈ کے خلاف تین ٹیسٹ کی سیریز میں پاکستانی بیٹس مینوں کو تجربے کار انگلش اٹیک کا سامنا ہوگا، جیمز اینڈرسن (589)اسٹوارٹ براڈ (501)کی وکٹوں کا مجموعہ 1190ہے اور ان دونوں کا سامنا کرنے سے قبل ڈاربی میں پاکستان کی وہ بیٹنگ لائن اپ جو پہلے ٹیسٹ کے ممکنہ ناموں پر مشتمل ہو گی۔

اس کا 113رنز پر پویلین لوٹ جانا ،حالات کی نزاکت کا خلاصہ کر رہا ہے، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز کی کامیاب اوپننگ جوڑی شان مسعود اور عابد علی کی فارم نے واضع کردیا ہے کہ سیریز کے تینوں ٹیسٹ میں یہ جوڑی شائد اننگز کا آغاز نہیں کرسکے گی۔

صرف یہی نہیں ٹیسٹ سیریز کے آغاز سے قبل ہی مڈل آرڈر بیٹس مین کپتان اظہر علی ، بابر اعظم اور اسد شفیق کی انگلینڈ میں کھیلی جانیوالی باریاں تشویش میں مبتلا کر رہی ہیں ، وکٹ کیپر محمد رضوان کی بیٹنگ فارم ایک مثبت پہلو ضرور ہے، تاہم ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق نے پہلے ٹیسٹ کے لئے 20ارکان پر مشتمل اسکواڈ سے افتخار احمد کو نا رکھ کر کیا غلط فیصلہ کیا ہے؟

یہ سوال اس تناظر میں اہم ہے کہ انگلینڈ /ویسٹ انڈیز سیریز میں ویسٹ انڈیز کے دائیں ہاتھ کے اسپنر اور مڈل آرڈر بیٹس مین روسٹن چیز نے 10وکٹ لینے کیساتھ 157رنز بنائے تھے۔

پھر 5اگست سے اولڈ ٹریفورڈ مانچسٹر میں جہاں پاکستان /انگلینڈ کا پہلا ٹیسٹ شروع ہونے جارہا ہے، اس اسٹیڈیم میں آخری 15ٹیسٹ میں گیارہ ٹیسٹ میزبان ٹیم کی جیت پر ختم ہوئے ہیں ، جہاں تک پاکستان کی بولنگ لائن اپ کا سوال ہے۔

پہلے ٹیسٹ کے لئے محمد عباس، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کا کھیلنا یقینی لگ رہا ہے تاہم ماسوائے شاہین شاہ آفریدی کے علاوہ عباس اور نسیم کی فارم کا اندازہ ٹیسٹ سیریز کے دوران ہی ہوسکے گا۔

یاسر شاہ کے سر پر 213ٹیسٹ وکٹ لینے کے باوجود خود کو ثابت کرنے کی تلوار لٹک رہی ہے، تو دوسری جانب پریکٹس میچوں میں دو بار اننگز میں پانچ وکٹ کی کارکردگی دکھانے والے 36سال کے سہیل خان پر ٹیم مینجمنٹ اعتماد کرنے کے لئے تیار دکھائی نہیں دے رہی، وجہ ہے ، دائیں ہاتھ کے تیز بولر سہیل خان کی دوسری اننگز میں بولنگ کرنے کی صلاحیت جہاں اعداد و شمار سہیل خان پر عدم اعتماد کی بٹری وجہ بنتے دکھائی دیتے ہیں۔

سہیل خان نے 27ٹیسٹ وکٹوں میں صرف تین دوسری اننگز میں بولنگ کرتے حاصل کر رکھی ہیں ،34سال کے فواد عالم کے پریکٹس میچوں میں بٹری اننگز نہ کھیلنے کی صورتحال نے فی الحال انہیں پہلا ٹیسٹ کھلانے کا کیس کمزور کردیا ہے۔

دورہ انگلینڈ پاکستان ٹیم کیساتھ چئیر مین پی سی بی چیف ایگزیکٹو وسیم خان چیف سلیکٹر /ہیڈ کوچ مصباح الحق کے لئے بھی اہمیت کا حامل ہے، اس دورے کے نتائج ٹیم کی کارکردگی کیساتھ بورڈ کے عہدیداروں کے لئے بھی اہمیت کے حامل تصور کئے جارہے ہیں ۔

تازہ ترین