اسلام آباد (انصار عباسی) وزیراعظم نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری (پیپلز پارٹی) اور سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے مل کر تقریباً تین دہائیوں تک پاکستان پر حکمرانی کی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی پاکستان میں طبی معائنہ کرانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ یہ نہ صرف اس ملک کے عوام کی توہین ہے جہاں علاج معالجے کی سہولتیں بدتر سطح پر ہیں اور صحت کی خراب سہولتوں کی وجہ سے روزانہ لاتعداد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ غیر سرکاری اعلان کے مطابق، تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے میاں محمد نواز شریف طبی معائنے کیلئے لندن جا رہے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری جب اپنے دورِ حکومت میں بیمار پڑے تھے تو انہوں نے بھی دبئی میں ایک امر یکی اسپتال سے علاج کرانے کو ترجیح دی۔ حال ہی میں جنرل (ر) پرویز مشرف بھی علاج کرانے کیلئے پاکستان سے باہر چلے گئے۔ یہ تینوں شخصیات اپنے دور میں کیے گئے اقدامات پر بلند بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں، جب اپنی بات آتی ہے تو ان میں سے کسی کو بھی پاکستان میں دستیابی طبی سہولتوں اور میڈیکل انفرا اسٹرکچر پر بھروسہ نہیں ہے۔ یہ ان کی اس ناکامی کی عکاسی ہے یہ لوگ اپنے ملک میں صحت کی بہتر سہولت دینے میں ناکام ہوگئے اور ان کی اس بے حسی کی بھی عکاسی ہوتی ہے کہ کس طرح یہ لوگ اپنے لیے تو بہترین غیر ملکی طبی معائنہ چاہتے ہیں لیکن عوام کو مرتا چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان میں صحت کے شعبے کے اعشاریے انتہائی خراب ہیں اور پاکستان کا شمار ایسے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں صحت کے شعبے کی حالت انتہائی بدتر ہے۔ پاکستان اپنی خام قومی پیدوار (جی این پی) کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ صحت کے شعبے پر خرچ کرتا ہے جبکہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا چار فیصد سے بھی کم حصہ اس شعبے کی ترقی پر خرچ کر تا ہے۔ دی نیوز میں حال ہی میں صحت کے شعبے کی صورتحال پر شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہزاروں اموات ایسی ہیں جنہیں روکا جا سکتا تھا اور ایسا ہونے کی وجہ صرف مطلوبہ آلات اور ساز و سامان کا نہ ہونا ہے، دونوں صوبوں کے 23 اضلاع میں رہنے والے تقریباً 3 کروڑ 10 لاکھ افراد کیلئے کمپیوٹرائزڈ ٹوموگرافی (سی ٹی اسکین) مشین نہیں ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں صورتحال اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے 23 اضلاع سے رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کے تحت ملنے والے مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق ضلعی ہیڈکوارٹرز کے اسپتالوں میں آکسیجن کے سلنڈروں، الٹرا سائونڈ، ای سی جی، سی ٹی اسکین اور ایکس رے مشینوں کی ایک بڑی تعداد غیر فعال ہے جس سے غریب لوگوں کو سنگین مسائل کا سامنا ہے کیونکہ یہ لوگ نجی اسپتالوں کے علاج کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے۔ اعداد و شمار دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ پاک پتن کا ضلعی ہیڈکوارٹرز اسپتال 12 لاکھ لوگوں کیلئے کام کرتا ہے لیکن یہاں ایک بھی ایسی ایکس رے مشین نہیں ہے جو فعال ہو۔ علاج معالجے کے حوالے سے بین الاقوامی رہنما اصولوں کے مطابق ہر ضلعی اسپتال میں ایک سی ٹی اسکین مشین ہونا چاہئے تاکہ حادثات اور ایمرجنسیوں میں بھرتی ہونے والے زخمیوں کے سر کی چوٹوں کا جائزہ لیا جا سکے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبرپختونخوا کے سات میں سے ایک بھی ضلعی ہیڈکوارٹرز اسپتال میں 50 لاکھ افراد (1998ء کی مردم شماری کے مطابق) کیلئے ایک بھی سی ٹی اسکین مشین نہیں ہے۔ ان اضلاع میں مانسہرہ، لکی مروت، کوہاٹ، چارسدّہ، صوابی، کرک اور ہنگو شامل ہیں۔ پنجاب کے 16 ضلعی ہیڈکوارٹرز اسپتال 2 کروڑ 40 لاکھ افراد کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں لیکن ان میں سے کسی میں بھی سی ٹی اسکین مشین نہیں ہے۔ یہ اسپتال لودھراں، اوکاڑہ، منڈی بہاؤالدین، حافظ آباد، اٹک، میانوالی، قصور، نانکانہ صاحب، ملتان، لیّہ، ویہاڑی، چکوال، بھکّر، چنیوٹ، سیالکوٹ اور خوشاب میں ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب کے 21 ضلعی ہیڈکوارٹرز اسپتالوں میں 1960 آکسیجن کے سلنڈرز ہیں جن میں سے 259 غیر فعال ہیں۔ الٹراسائونڈ کیلئے 80 مشینیں ہیں لیکن ان میں سے 14 خراب ہیں جبکہ ای سی جی کی 186 مشینوں میں سے 36 خراب ہیں۔ صرف 6 ضلعی ہیڈکوارٹرز اسپتالوں میں فعال سی ٹی اسکین مشینیں ہیں۔ اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ 21 اضلاع کے ضلعی ہیڈکوارٹرز اسپتالوں میں موجود 97 ایکس رے مشینوں میں سے 20 خراب ہیں جبکہ پاک پتن کے اسپتال میں تو ایکس رے مشین ہے ہی نہیں۔ خیبرپختونخوا کے سات ضلعی ہیڈکوارٹرز اسپتالوں میں 188 آکسیجن سلینڈر ہیں جن میں سے 25 غیر فعال ہیں جبکہ 25 الٹراسائونڈ مشینوں میں سے صرف 17 کارآمد ہیں۔ ان سات اضلاع میں موجود 30 ای سی جی مشینوں میں سے 16 خراب ہیں۔ 25 ایکس رے مشینیں ہیں جن میں سے 7 خراب ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پنجاب میں موجود 619 بنیادی صحت مراکز (بیسک ہیلتھ یونٹس) میں دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مریضوں کے علاج کیلئے ایک بھی ڈاکٹر نہیں ہے۔ وفاقی درالحکومت میں بھی علاج معالجے کی سہولتیں بدتر ہیں۔ 2014ء میں اسلام آباد کے سرکردہ اسپتال پمز میں کارڈیولاجی شعبے کے سربراہ کو اسپتال کی حدود کے اندر ہی گولیاں ماری گئیں لیکن انہیں علاج کیلئے راولپنڈی میں فوج کے اسپتال میں منتقل کرنا پڑا کیونکہ پمز کی اپنی ایکس رے مشین اور سی ٹی اسکین مشین خراب تھی۔ حکمران اپنے لیے تو بیرون ملک علاج کا انتخاب کرتے ہیں لیکن پمز میں 45 سال کے محمد حمید کو ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے آپریشن کیلئے 34؍ ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔