پاکستان کی چوتھی فوجی حکومت کے چیف ایگزیکٹو اور آل پاکستان مسلم لیگ کے خود ساختہ سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف انتخابی عذرداریوں کے تحت سال 2013ء کے عام انتخابات سے باہر ہوگئے ہیں۔ اس واردات کے فوائد اور نقصانات بیان کرنے کو کہا جائے تو کچھ فوائد کے اندر سے نقصانات بھی جھانکتے دکھائی دیں گے اور بعض نقصانات کے اندر فوائد بھی نظر آجائیں گے مثال کے طور پر ایک فوری فائدہ تو سابق جنرل پرویز مشرف کو یہ ہوگا کہ وہ انتخابی اخراجات سے بچ گئے ہیں اور یہی نقصان ان کے لئے انتخابی مہم چلانے کے لئے خریدے گئے سیاسی کارکنوں کا بھی ہوگا کہ ان کے چولہے گرم ہونے کی بجائے ٹھنڈے رہیں گے۔
ایک فائدہ ہماری افواج کے سابق سربراہ کا یہ ہوگا کہ وہ انتخاب ہارنے کی بدنامی سے بچ جائیں گے مگر ان کے خلاف انتقامی جذبات رکھنے والے جمہوریت پسندوں کو یہ نقصان ہوگا کہ ان کی آتش انتقام ٹھنڈی نہیں ہوسکے گی یعنی ا یک آمر کو جمہوری طریقے سے شکست دینے کی روحانی آسودگی نصیب نہیں ہوگی۔
”سب سے پہلے پاکستان“ کے نعرے کے موجد کے انتخابات کی آزمائش سے باہر نکل جانے کی وجہ سے وہ بلا خوف تردید یہ دعویٰ کرسکیں گے کہ ا گر انہیں انتخاب لڑنے دیا جاتا تو وہ قومی یا عالمی سطح کا مقبولیت کا نیا ریکارڈ کسی انتخابی حلقہ کے سو فیصدووٹ حاصل کرکے قائم کرسکتے تھے۔پاکستان کے تازہ ترین آمر یہ دعویٰ بھی کرسکتے ہیں کہ اگر وہ انتخاب لڑتے یا لڑسکتے تو یقینی طور پر کامیاب ہوجاتے اور بلاشبہ پاکستان کی تمام کی تمام مسلم لیگوں کو یک جا کرکے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بنا سکتے تھے جو عام انتخابات کے بعد ہونے والے تمام ضمنی انتخابات جیت کر اقتدار تک رسائی حاصل کرسکتی تھی مگر ان کے عام انتخابات کی دوڑ سے باہر ہوجانے کی وجہ سے ملک کی دیگر تمام مسلم لیگوں اور دوسری سیاسی اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی پارٹیوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان جو چار فوجی حکومتوں کے تجربے سے گزر چکا ہے ایک ”سابق فوجی حکومت“ کے نرغے میں آنے سے محفوظ رہا ہے۔غیر ممالک اجرتی تقریروں کے ذریعے اربوں روپے کمانے والے جنرل پرویز مشرف کی جانب سے اس نوعیت کے اعلانات مناسب وقفوں سے برابر آتے رہے کہ وہ اگلے عام انتخابات سے پہلے وطن عزیز میں پہنچ جائیں گے اور انتخابات میں بھرپور انداز میں حصہ لیں گے۔ ہمارے بعض ماہرین سیاست ان بیانات کو محض”بڑھکوں“ کا درجہ دیتے تھے کہ جن پر کبھی عمل نہیں ہوسکے گا مگر سب جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ کر دکھایا ہے اور عبوری یا نگران حکومت کے وجود میں آتے ہی وہ پاکستان تشریف لے آئے ہیں اور انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ بھی کردکھایا ہے۔ ہمارے سیاسی ماہرین یہ معلوم کرنے میں ناکام رہے کہ سابق جنرل پرویز مشرف کا پاکستان تشریف لانے کا اصل مقصد کیا تھا؟ بعض ماہرین کو شبہ تھا کہ وہ علامہ طاہر القادری کی طرح عام انتخابات کو ملتوی یا منسوخ کرانے کے لئے آئے ہیں مگر انہوں نے اس شبے کو بے بنیاد ثابت کردیا۔”صادق“ اور ”امین“ ہونے کے بارے میں ان پر جو شبہ کیا جارہا تھا انہوں نے یہ اعتراف کرکے کہ امریکی ڈرون حملوں کی خفیہ اجازت انہوں نے مرحمت فرمائی تھی ثابت کیا کہ وہ”صادق“ ہیں اور انتخابی امیدوار بن کر ثابت کیا کہ وہ ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں اور عام انتخابات کو ملتوی یا منسوخ کرانے کے حق میں نہیں ہیں۔ ایک عزیز کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف عبوری یا نگران حکومت کے اس دعوے کو سچ ثابت کرنے پاکستان آئے ہیں کہ وہ عام انتخابات کو شفاف اور ٹرانس پیرنٹ بنائیں گے اور اس کے ثبوت کے طور پر وہ عام انتخابات سے باہر کردئیے گئے ہیں۔
کسی کا مشہور شعر ہے کہ #
میں نے کہا کہ بزم ناز غیر سے چاہئے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھادیا کہ یوں!