• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سردار عبدالرحمٰن خان۔۔۔ بریڈ فورڈ
دنیا کے کونے کونے سےآواز اٹھ رہی ہے کہ امریکہ ’’واحد‘‘ سپر پاور ہونے کے نشے میں بدمست ہاتھی کی طرح جو چاہتا ہے بلا روک ٹوک کرتا پھرتا ہے۔ یہ ملک بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق، اخلاقیات، انٹر نیشنل معاہدات، دوطرفہ ’’ٹرٹیٹز‘‘ اور بین الاقوامی ’’کنونشنز‘‘ کی حدود اور قیود سے آزاد ہوکر اپنی من مانیاں کرا تاپھرتا ہے۔ آزاد اور خودمختار ممالک میں کئی حیلے بہانوں اور کئی طریقوں سے مداخلت کراتا ہے۔ سی آئی اے کی سازشیں ہوں، فوجی مداخلت ہو یا خود اس ملک کے اندر کوئی بغاوت ہو۔ امریکہ ان میں ملوث پایا جاتا ہے۔ کیا صرف ننگی طاقت، اسلحہ جات کی بھرمار، ٹیکنالوجی کی برتری، سائنس میں ترقی، اقتصادی برتری،فوجی سازو سامان اور گولہ بارود کی برتری اور فراوانی کسی ملک کو یہ سرٹیفکیٹ دے سکتی ہے کہ وہ دنیا میں مادر پدر آزاد دندناتہ پھرے اور جو چاہے کرے؟ کیا اس قسم کی گلوبل سپر پاور دنیا میں طوائف الملوکی کو جنم نہیں دے رہی ہے؟ کیا اس نوعیت کے کسی ملک کو گلوبل سطح پر باقی ممالک ہمیشہ کے لیے برداشت کرسکیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو اب اس کی خود سرانا اور متکبرانا پالیسی کی وجہ سے گلوبل سطح پر انتہائی نفرت سے دیکھا جارہا ہے۔ کیا اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ، علم سے منور، جمہوریت سے آگاہ، خودمختاری کے دیوانے، قوانین اور اصول پرستی کے طالب، مختلف قومیتوں اور تہذیبوں پر مشتمل گلوبل کمیونٹی کے شہری امریکہ کے اس خون آلود ’’ورلڈ آرڈر‘‘ اور سپری میسی کو مان لیں گے؟ کیا ظلم اور بربریت کے خلاف آواز نہیں اٹھے گی؟ کیا طاقت کو حق سمجھنا چاہیے؟ یا حق و صداقت میں طاقت ہے؟ انصاف طے شدہ قوانین، روایات، اخلاقیات اور اصولوں پر منتج ہوتا ہے نا کہ صرف ’’بروٹ فورس‘‘ پر۔ جو طریقہ امریکہ نے اپنا رکھا ہے وہ مفرورانہ اور متکبرانہ ہے۔ اس رویے سے امریکن سپری میسی کی تصدیق نہیں ہوتی بلکہ تضحیک ہوتی ہے۔ جرمنی کے مشہور اور معروف میگزین ’’ڈوسپائگل‘‘ نے اپنے1997ء کے شمارے میں امریکہ کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا۔’’دور حاضر کی تاریخ میں کبھی بھی کسی ملک نے اس دھرتی کو اس طرح ’’ڈامی نیٹ‘‘ نہیں کیا جس طرح امریکہ آج کررہا ہے۔‘‘ امریکہ آج کل بین الاقوامی ’’شوازنگر‘‘ بن چکا ہے جو اپنے ’’مسلز‘‘ کی نمائش کررہا ہے اور دنیا میں خوف و حراس پیدا کررہا ہے، کیونکہ امریکہ کے سامنے کوئی طاقت یا رکاوٹ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی طاقت کو محدود کیے جانے کا کوئی چیلنج موجود ہے۔ اس لیے امریکہ سمجھ بیٹھا ہے کہ وہ پوری دنیا کا مالک ہے۔‘‘ تھوڑا پیچھے چلیے۔ پاکستان کے علاقے وزیرستان کی پہاڑوں پر پاکستان فوج کی چوکیاں ہوں، افغانستان، پاکستان بارڈر پر امریکی فوجی حملے ہوں، آسمان سے ڈرون حملے ہوں، پاکستان کی حدود سے گزار کر میزائل پھینکے جارہے ہوں ،ایبٹ آباد پر خفیہ حملہ ہو یا ریمنڈ ڈیوس جیسے جاسوسوں کی کارروائیاں ہوں۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں، لیکن امریکہ کوئی شکایت، کوئی گلہ، کوئی احتجاج، کوئی درخواست، کوئی سمجھوتہ، کوئی دھمکی یا پارلیمنٹ کی قرارداد درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔ امریکہ دنیا کے آزاد اور خودمختار ممالک پر اپنے ’’کائو بوائے‘‘ قوانین نافذ کررہا ہے۔ امریکہ غیر ملکیوں کو اغوا کرکے، اپنے ملک میں لے جاکر اذیت ناک سزائیں دے رہا ہے، لیکن اپنے شہریوں کو بیرونی ممالک سے سنگین جرائم کے باوجود بھی دھمکیوں اور رعب سے آزاد کراکے لے جاتا ہے۔ اگر دنیا کے کسی کونے میں کوئی بھی کسی قسم کی سیاسی بدامنی کی فضا موجود ہے یا ٹرائبل جنگ ہورہی ہے یا دو ہمسایہ ممالک کے درمیان کشمکش ہے یا سول وار ہے یا حق خودمختاری کا تنازع یا پھر ائیڈیالوجیکل اسٹرائف ہے تو یقین جانیے اس میں کسی نہ کسی حوالے سے امریکہ کا ہاتھ نظر آئے گا۔ افغانستان، سیریا، لیبیا، لبنان، عراق فلسطین، کردستان اور ایران صرف چند مثالیں ہیں۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ مجریہ1996ء کے مطابق ’’دنیا بھر میں کسی دن گورنمنٹ یا مسلح گروہوں کے ہاتھوں اگر کوئی مرد، عورت یا بچہ بے گھر ہوتا ہے یا ٹارچر یا قتل ہوتا ہے یا گم کیا جاتا ہے تو عموماً اس کی ذمہ داری میں امریکہ شریک جرم پایا جاتا ہے۔‘‘امریکہ نے اپنے لیے ایک ضابطہ بنا رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے بہترین نظام حکومت صرف کیپٹل ازم ہے اور یہ نظام چلانے کا انجن ’’فری مارکیٹ‘‘ ہے۔ کسی دوسرے ملک میں اس نظام کے مدمقابل کوئی دوسرا نظام امریکہ کو قبول نہیں ہے۔ کسی متبادل نظام کو گلوبل سطح پر کہیں بھی پنپنے نہیں دیا جائے گا۔ امریکہ کسی اور نظام کو اپنے لے اور اپنے اتحادیوں کے لیے خطرناک سمجھتا ہے، جو ملک یا بلاک کیپٹل ازم کے خلاف کوئی آئیڈیالوجی پیش کرے گا۔ اس کو ملیامیٹ کردیا جائے گا۔ لاطینی امریکہ کے کئی ممالک اس جرم میں امریکن سازشوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ کیوبا کی تاریخ پر غور کیجئے۔ سوویت یونین کو75سالوں تک مبالغہ آمیزی اور زہریلے پروپیگنڈوں سے ایک خوفناک عفریت بناکر پیش کیا جاتا رہا۔ کمیونسٹ کانسپیریسی تھیوری کا چرچا ہوتا رہا۔ جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو جارج بش نے نیو ورلڈ آرڈر کا نعرہ بلند کیا۔ ایک نیا دشمن ڈھونڈا جو اسلامی بلاک ہے۔ اسلامی بلاک کے ممالک کو ایک ایک کرکے تباہ کیا جارہا ہے۔ کمزور کرکے ان ممالک کو اپنا کٹھ پتلی بناکر کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے اپنا ہمنوا بناکر مسلمانوں کے درمیان اتحاد تباہ کررہا ہے۔ امریکن ایمپائر اب نیو ورلڈ آرڈر پر استوار ہوچکی ہے۔ یہ نام جارج بش نے گھڑا جس میں نیٹو بھی شامل ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر ہو یا پرانا طریقہ ہو۔ امریکہ کو دنیا میں ایک ’’روگ‘‘ بدمست ہاتھی کی طرح بے مہار بین الاقوامی قوانین کی حدود اور قیود کی پروا نہیں اور من مانی کراتا پھرتا ہے۔1995ء سے لے کر2000ء تک امریکہ ’’دنیا کی ستر (70) حکومتوں کو گرا چکا ہے یا ان کو سبکدوش کرانے کے لیے سی آئی اے کے ذریعے ملوث ہوچکا ہے۔ پاکستان، انڈونیشیا، عراق، افغانستان، لیبیا، یمن، ایران صرف چند مسلمان ممالک ہیں۔ باقی ممالک کی فہرست بہت لمبی ہے جن میں امریکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث رہا ہے۔‘‘ امریکہ نے اپنے دبدبے، مالی برتری، فوجی طاقت، تکبر، خودغرضی اور لالچ کا سہارا لے کر دردناک عذاب نال کیا ہے۔ جب نیلسن منڈیلا لیبیا کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے لگا تو امریکہ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیلسن منڈیلا کو ایسا کرنے سے منع کیا۔ نیلسن منڈیلا ایک بہادر آدمی تھا۔ اس نے کہا امریکہ یا امریکہ کے حکمران ’’یہ ایروگیشن گستاخی کرنے والے کون ہوتے ہیں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ ہم کس سے ملیں، کون سے ملک سے دوستی کریں یا ہم اپنے لیے کیا اچھے سمجھتے ہیں۔ امریکہ اخلاقیات سے محروم ہے۔ ہم یہ ہرگز قبول نہیں کرسکتے کہ کوئی ملک دنیا کا پولیس مین بن بیٹھے۔‘‘پچھلے70سالوں سے امریکہ کی خودسری اور ہٹ دھرمی طشت ازبام ہوچکی ہے۔ یکے بعد دیگرے کئی ممالک کو انتہائی بربریت سے ظلم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ ایسے ممالک ہیں کہ جنہوں نے نہ تو امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے اور ان کی حدود امریکہ کے ساتھ مشترک ہیں۔ بلکہ امریکہ سے ہزاروں میل دور ہیں۔ ویت نام ہو یا عراق، لبنان ہو یا افغانستان، کانگو ہو یا لیبیا سب پر بلا امتیاز بم گرائے گئے۔ معصوم انسانوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا گیا۔ آسمان کی بلندیوں سے کلسٹر بموں کی آگ برسائی گئی اور یہ پروا نہیں کہ کون مرتا ہے۔ افغانستان میں جب امریکہ نے ایک گائوں ’’چوکا کاریز‘‘ پر توپوں اور گن شپس سے حملہ کیا تھا93سویلین ہلاک ہوگئے تھے۔ اس واقعے کے دلخراش منظر اور نتیجے کے بارے میں جب اخباری نمائندوں نے ’’پینٹاگون‘‘ کے ایک ذمہ دار آفیسر سے سوال کیا کہ اس بربریت کا ذمہ دار کون ہے تو اس آفیسر نے برہمی سے کہا۔ ’’یہ لوگ اس لیے ہلاک ہوئے ہیں کہ ہم نے ان کو ہلاک کیا ہے۔‘‘ ساول لانڈو فیلو فار پالیسی اسٹڈی واشنگٹن ڈی سی نے کہا ہے کہ:۔’’یو ایس پالیسی نے آزادی اور انسانی حقوق کے جھنڈوں تلے غیر انسانی جرائم کیے ہیں، جس طرح امن کے دعوے کرنے والے اس ملک نے جنگجوانہ کردار ادا کیا ہے وہ قومی پالیسی کے طلبا کے لیے آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔‘‘ جب امریکہ نے ایران کا ایک مسافر جہاز میزائل مارکر گرایا اور دو سو نوے مسافروں کو شہید کیا تو امریکہ سے معافی مانگنے کے لیے کہا گیا تو اس پر جارج بش نے انتہائی کرخت لہجے میں جواب دیا۔ ’’میں کبھی امریکہ کے لیے معافی نہیں مانگوں گا۔ مجھے ہرگز یہ پروا نہیں ہے کہ حقائق کیا ہیں۔‘‘
تازہ ترین