سابق وزیرا عظم محمدخان جونیجواگرچہ مطلق العنان ضیاالحق کاانتخاب تھے،ضیاصاحب کا خیال تھاکہ وہ بلاچون و چرا وہی کرینگے جو کہا جائیگا،لیکن حیران کن طور پر جونیجومرحوم کے بعض اقدامات مثالی اور یاد رکھے جانے کے قابل ہیں،ان میں ’’ہمدردانہ پریس ایڈوائس ‘‘ کاخاتمہ شامل ہے۔جونیجو صاحب اگرچہ ایوبی آمریت کے پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کے خاتمے کیلئے بھی پیش رفت کرچکے تھے لیکن آمرانہ ہتھکنڈوں کے سبب ایسا نہ ہوسکا اور جسے ضیاصاحب کی موت کے بعد غلام اسحٰق خان کی عبوری حکومت نے ختم کیا ،ظاہرہے یہ ان حکومتوں کا احسان نہ تھا بلکہ یہ ثمر طویل جدوجہد کے بعد ملا۔اور اس طرح صحافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ہمدردانہ پریس ایڈوئس‘‘پاکستان بنتے ہی روبہ عمل ہوااور نئی مملکت میں اس کا پہلا شکار بانی پاکستان کی تقریر بنی۔ پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمدخان کی تصنیف’’آزادی صحافت کی جدوجہد میں اخبارات کا کردار‘‘ کے مطابق قائد اعظم نے 11اگست کوآئین سازاسمبلی کے پہلےاجلاس میں نئی ریاست کے خدوخال پر پالیسی تقریر کی تھی جس کے کچھ حصے بیوروکریسی کو قبول نہ تھے ،یوں قائد اعظم کی حکومت نے ہی پہلی دفعہ اپنےہی قائد کی تقریر کے کچھ حصوں کو اشاعت سے روکنے کیلئے پریس ایڈوائس کا استعمال کیا ۔کہاجاتا ہے کہ پاکستان کا قیام ایک جمہوری عمل کا نتیجہ ہے ،لیکن قیا م پاکستان کے ساتھ ہی انڈپینڈنٹس ایکٹ کے تحت وہ قوانین نافذ ہوگئے جو برطانوی حکومت نے آزادی کی تحریک کو روکنے کیلئےنافذ کئے تھے،اس کی بنیادی وجہ وہ نوکر شاہی تھی جو برطانو ی حکومت کا حصہ اوراُس کی ہی تربیت یافتہ تھی۔چنانچہ فرنگی سامراج کی پروردہ نو کر شاہی نے پاکستان کی انتظامیہ کو اپنے زیرنگیں کرلیا ، یہ بیوروکریسی جمہوری رویہ ،اختلاف رائے کی آزادی کا احترام اور آزادی صحافت کا تحفظ جیسےزریں اصولوں سے چونکہ آشنا نہ تھی اس لئے اس کا طرز عمل مسلمہ جمہوری اصولوں کے قطعی منافی استوار ہوا۔کون نہیں جانتاکہ فی زمانہ جمہوری نظام ہی بہترین مملکتی بندوبست ہے۔اس نظام میں اخبارات کا کردار بنیادی ہوتاہے،یہ ریاست کے تینوں ستونوں پر نظر مرکوز رکھتا ہے،اخبارات (میڈیا) افکار ،نظریات و خیالات کو آشکاراور ان کی ترویج کیلئے دست وبازو بنتے ہیں۔اس طرح اخبارات اور ابلاغ کے دیگر میڈیم کے وسیلے سے عالمی وملکی مسائل ،زندگی سے متعلق ناگزیر معاملات زیربحث آنے سے رائے عامہ کی تربیت ہوتی ہے، اور یوں ایسی فکرسامنے آتی ہے جو سماجی عمل کے ذریعےجمہوری اداروں کے استحکام کا وسیلہ بنتی ہے۔اب جن جن ملکوں میں استبدادی کلچر غالب ہے وہاں آمریت یا کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی خاطر ہر وار اخبارات و میڈیا پرکیا جاتاہے ۔ایسے ممالک خود کو جمہوری ظاہر کرنے کیلئے برائے نام جمہوریت کو تو بادل نخواستہ قبول کرلیتے ہیں لیکن اس خوف سے بقول حضرت اقبال ’’کہ یہ ٹُوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے‘‘بالخصوص صحافت کو ہاتھ میں رکھنے کیلئے برابر جتن جاری رکھتے ہیں۔ اس کیلئے مختلف ادوار میں مختلف ہتھکنڈے بروئے کار لائے گئے جن میں پریس ایڈوائس،امتناعی قوانین ،اشتہارات ،نیوزپرنٹ ،سنسر شپ ،خفیہ ایجنسیوں کاہاتھ ،پریشر گروپس وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔غلامی کے بعد آزادی کا سفر طے کرتے کرتے سات عشرے بیت چکےہیں ، اس دوران ہمارے ساتھ اور ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ترقی کےاوج ثریا پر ہیں بلکہ افسوسناک امر یہ ہےکہ ہم ہی سے آزادی لینے والا بنگلہ دیش آج ترقی کی اُس شاہراہ پرہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کا مذاق اُڑاتے ہوئے اقتصادی ماہرین کا کہنا یہ ہےکہ پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بننےکا خواب کیا پورا ہوگاکہ پاکستان کو معاشی طور پر بنگلہ دیشن بننے کیلئے بھی کم از کم دس سال درکار ہیں!۔ کاش ہم تھوڑی دیر رُک کر اپنے اعمال کا بھی جائزہ لیںاوراس امر پرغور کریں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ وزیراعظم جس شے کی بڑھتی ہوئی قیمت کو واپس اپنی سطح پر لانے کا اعلان کرتے ہیں وہ مزید مہنگی ہوجاتی ہے۔یاد رہے اخبارات،میڈیا و صحافت پر کنٹرول سے آپ مافیاز پر کنٹرول نہیں پاسکتے۔ہونا تو یہ چاہئےتھےکہ ہم جمہوری و اظہار رائے کی آزادی جیسے بنیادی حقوق کے حوالے سے اپنا ریکارڈ بہتر بناتے لیکن بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے ظاہر یہ ہےکہ اس حوالے سے اقوام عالم میں ہم پسندیدہ نہیں اور میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری اس کی اہم وجہ ہے۔کہتے ہیں کہ سورج کو انگلی سے نہیں چھپایا جاسکتا،جنگ گروپ عالمی دنیا میں پاکستان کا ایک تعارف اور روشن چہرہ ہے،اس چہرے کو مسخ کرنےکی کوشش پاکستان کے چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔