ڈاکٹر ایم اظفر سکندری، حیدرآباد
چکن پاکس کو طبّی اصطلاح میں"Varicella"کہا جاتا ہے، جو ایک متعدّی عارضہ ہے۔یہ مرض"Varicella zoster"نامی وائرس کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ویسے توچکن پاکس ایک سے دوسرے فرد میں انتہائی تیزی سے منتقل ہوجاتی ہے،لیکن متاثرہ فرد کےکھانسنے اور چھینکنے سے بھی پھیل سکتی ہے۔ چکن پاکس کا عارضہ کسی ایک خطّے تک محدود نہیں، بلکہ پوری دُنیا میں عام ہے،جس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ صرف 2013ء میں چکن پاکس اور"Herpes zoster"کے ایک کروڑ چالیس لاکھ مریض رپورٹ ہوئے۔ تاہم، حفاظتی ٹیکے دریافت ہونے کے بعد،خصوصاً امریکا میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں 90فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔واضح رہے کہ چکن پاکس کی ویکسین "Varicella" کے ذریعے 70سے 90فی صد افراد کو متاثر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
چکن پاکس کی واضح علامت، جِلد پر چکتوں کی شکل میں سُرخ نشانات نمایاں ہونا ہے، جو بعد میں چھوٹے چھوٹے خارش زدہ پانی بَھرے چھالوں اور آبلوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ پانی بَھرے دانے ابتدا میں سینے، کمر اور چہرے پر نمودار ہوتے ہیں، مگر پھر آہستہ آہستہ جسم کے دیگر حصّوں تک پھیل جاتے ہیں۔ مرض کی دیگر علامات میں بخار، تھکن ،بے چینی اور سَردرد شامل ہیں۔ یہ علامات سات سے دس دِن تک برقرار رہتی ہیں اور پھر بتدریج ٹھیک ہوجاتی ہیں۔ مرض کی پیچیدگیوں میں نمونیا، دماغ میں انفیکشن اور جِلد کے دانوں میں مواد بَھرجانا شامل ہیں۔ عام طور پر چکن پاکس بچّوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔
تاہم، بڑے بھی اس سے محفوظ نہیں کہ عُمر کے کسی بھی حصّے میں اس بیماری سے واسطہ پڑ سکتا ہے، خاص طور پر اگر چکن پاکس کی ویکسی نیشن نہ کروائی گئی ہو۔ ویسے یہ بیماری بڑوں میں زیادہ تکلیف کا باعث بنتی ہے، لیکن یہ عارضہ زندگی میں صرف ایک بارلاحق ہوتا ہے۔ دوبارہ ہونے کی صُورت میں اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ بڑوں اور بچّوں میں چکن پاکس کی ابتدائی علامات قدرےمختلف ہیں۔جیسے بڑوں میں مرض کی شروعات متلی، بھوک کی کمی، پٹّھوں میں کھنچائو سے ہوتی ہے، جس کے بعد منہ میں سُرخی اور چھالےظاہر ہونے کےساتھ کم درجے کابخار ہوجاتا ہےاور سُستی محسوس ہوتی ہے،جب کہ بچّوں میں منہ کے چھالے ابتدائی علامت ہیں۔
بڑوں میں لال دانے چہرے، سَر کی جِلد، کندھوں، ہاتھوں اور ٹانگوں میں پھیل جاتے ہیں اور دس سے بارہ گھنٹوں میں ان میں پانی بَھر جاتا ہے،جب کہ مرض پیچیدہ ہونے کی صُورت میں پیپ بھی بَھر سکتی ہے۔ بعض کیسز میں ناف میں پیپ بَھرے چھالے گچھّے کی صُورت ظاہر ہوتے ہیں۔ مواد بَھرے دانوں میں شدیدچبھن محسوس ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں، یہ چھالےتالو، حلق میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں،جو انتہائی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ بڑوں کی جِلد پر سُرخی بچّوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، جب کہ بخار کا دورانیہ بھی طویل ہوتا ہے۔ حاملہ خواتین میں یہ مرض خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کہ اگر چھے ماہ کےحمل میں حاملہ اس وائرس کا شکار ہوجائے،تو شکمِ مادرمیں پلنے والے بچّے کی جان بھی جا سکتی ہےیاCongenital Varicella Syndrome سے متاثر ہونے کے سبب بچّہ پیدایشی معذور بھی ہوسکتا ہے۔
مثلاً پیروں اور ہاتھوں کی انگلیاں متاثر ہوسکتی ہیں، مقعد یا مثانے کی ساخت میں نقص ہوسکتا ہے۔ دیگر نقائص میں دماغ کی جھلّی پہ ورم، سَر کا حجم چھوٹا ، دماغ میں پانی بَھرجانا اور بینائی متاثر ہوجانا شامل ہے۔نیز، حرام مغز متاثر ہونے کی صُورت میں پیدایشی طور پر بچّے کی ٹانگیں بے جان ہوسکتی ہیں۔ حمل کے آخری ایّام میں اگریہ مرض لاحق ہوجائے تو یہ پیدایشی وریسیلا کہلائے گا، جس کی وجہ سے زچگی قبل از وقت ہوسکتی ہے، بچّہ پیدایشی پیچیدگیوں کا شکار ہوسکتا ہے اور اکثر نمونیا میں مبتلا رہتا ہے۔یوں تو چکن پاکس کی تشخیص علامات دیکھ کرباآسانی کی جاسکتی ہے، تاہم دانوں میں موجود مواد، کھرنڈ(scab) اور خون کےٹیسٹس کے ذریعے بھی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ بعض کیسز میں معالج خون کاٹیسٹ بھی تجویز کرتا ہے۔علاوہ ازیں، زچگی سے قبل الٹراسائونڈ کے ذریعے بھی جانچا بھی جاسکتا ہے کہ بچّہ کن نقائص کے ساتھ پیدا ہوگا۔
جہاں تک علاج کا سوال ہے، تو اس مرض کا کوئی علاج نہیں کہ یہ بغیر کسی علاج کے ایک یا دو ہفتے میں خودبخود ختم ہو جاتا ہے۔تاہم، ویکسین کے ذریعےمرض سے بچاؤ ممکن ہے۔چکن پاکس کی ویکسین حفاظتی ٹیکوں میں شامل ہے،جس کا پہلا ٹیکا12ماہ اوردوسرا چھے سال کی عُمر کے اندر لگایا جاتا ہے۔ متعدّد مُمالک میں بچّوں کو اسکول جانے سے قبل پہلا اور دوسرا ٹیکا پانچ سال کی عُمر کے بعد لگایا جاتا ہے۔ یہ ویکسین عُمر بَھر کے لیے چکن پاکس سے تحفّظ فراہم کرتی ہے۔ تاہم ویکسین کے بعد خدانخواستہ اگر بچّہ اس وائرس سے متاثر ہو بھی جائے، تو علامات کم ہی ظاہر ہوتی ہیں۔ نیز، مرض پیچیدہ ہونے کے امکانات بھی نہیں ہوتے۔ چکن پاکس سے متاثرہ مریض کوگھر کے کسی ایک کمرے تک محدود رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے، تاکہ دیگر اہلِ خانہ متاثر نہ ہوں۔
چکن پاکس کے دانوں میں خارش بہت ہوتی ہے۔اگر ان کو کھرچا یا کھجایا جائے، تو انفیکشن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ، لہٰذا بہتر ہوگا کہ مریض کے ناخن تراش دیں اور ہاتھوں میں گلوز پہنا دیں،تاکہ دانوں کو کھرچنے اور کھجانے سے بچایا جاسکے ۔ خارش کی شدّت کم کرنے کے لیے بعض مخصوص لوشنز کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، جو نہ صرف ٹھنڈک کا احساس پیدا کرتے ہیں، بلکہ ان میں پایا جانے والا زنک آکسائیڈ جراثیم کُش ہونے کے ساتھ حفاظتی تہہ کابھی کام کرتا ہے۔ دانوں میں جراثیم کی افزایش روکنے اور انفیکشن سے محفوظ رہنے کے لیے نیم گرم پانی سے نہانا مفید ہے،لیکن صابن استعمال نہ کیا جائے۔ درد اور بخار کے لیے عام دوا استعمال کی جاسکتی ہے،جب کہ سیکنڈری انفیکشن اور دانوں میں پیپ بھرجانے کی صُورت میں اینٹی بایوٹکس ادویہ تجویز کی جاتی ہیں۔
اگر مرض پیچیدہ ہونے کے امکانات پائے جائیں،توپھر ایک مخصوص انجیکشن(Varicella Zoster Immune Globulin) گوشت میں لگایا جاتاہے۔ بڑوں میں چوں کہ مرض کی شدّت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے اینٹی وائرل ادویہ کا استعمال فائدہ مندثابت ہوتا ہے۔اوران ادویہ کی افادیت تب مزید بڑھ جاتی ہے، جب دانے نمودار ہونے کے فوراً بعد( یعنی 24سے 48گھنٹوں کے درمیان) اینٹی وائرل دوا استعمال کروادی جائے،لیکن 12سال سے کم عُمر بچّوں میں ان کا استعمال احتیاط سے کیا جاتا ہے۔
بعض افراد،خصوصاً مائیں چکن پاکس کے دانوں کو خسرے کا عارضہ بھی سمجھتے ہیں، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ یاد رکھیے، خسرے میں پہلے بخار ہوتا ہے، جس کے بعد باریک، مہین، چھوٹے اور جِلد سے ملے ہوئے دانے ظاہر ہوتے ہیں، جب کہ چکن پاکس میں دانے پہلے نکلتے ہیں اور بخار بعد میں ہوتا ہے۔ یہ دانے قدرےموٹے، بڑے ،جن میںپانی بَھرا ہوتا ہے اور جِلد سے اُبھرے ہوئے ہوتے ہیں۔بعض مائیں بچّے کے جسم پر چکن پاکس کے کالے نشانات دیکھ کر پریشان ہوجاتی ہیں کہ کہیں یہ مستقل نہ رہ جائیں،تو ایسا نہیں ہے، اس مرض کا دورانیہ دو ہفتے پر محیط ہے۔پہلے ہفتےمیں دانے نکلتے ہیں اور دوسرے ہفتے میں کالے ہوکر ٹھیک ہوجاتے ہیں، جب کہ اگلے دو ہفتوں میںدانے مندمل ہوکر نشانات غائب ہوجاتے ہیں۔ (مضمون نگار، ماہرِ امراضِ جِلدہیں اور محکمۂ صحت، سندھ میں خدمات انجام دے رہے ہیں)