یورپی ممالک میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد مقیم ہے ،جو اپنے بہتر مستقبل کی تلاش اور روزگار میں ترقی کے لئے شب و روز محنت مزدوری اور بزنس سیکٹر میں اپنا مقام پیدا کئے ہوئے ہے ۔ مسلمان کمیونٹی میں براعظم افریقہ کے مختلف ممالک ، ساوتھ ایشیاء ، انڈیا ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، نیپال ، مراکش ، نائجیریا ، اور عرب ممالک کے مسلمان شامل ہیں جو یورپی ممالک میں اپنے قومی اور مذہبی تہوار عقیدت و احترام اور جذبے سے مناتے ہیں ۔ ان ممالک میں اٹلی ، پرتگال ، فرانس ، ہالینڈ ، جرمنی ، آسٹریا ، بیلجم اورا سپین میں پاکستانیوں کی خاصی تعداد مقیم ہے ،جو یوم پاکستان ، یوم آزادی پاکستان ، یوم دفاع ، کشمیر ڈے ، یوم یکجہتی کشمیر کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی تہوار وں پر بڑے بڑے اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں، جہاں مذہبی خطابات اور قومی اور ملی جذبات اُمڈ آتے ہیں ۔
ان اجتماعات کو مقامی برادری بہت مثبت انداز سے خراج تحسین پیش کرتی ہے ، خاص کر مسلمانوں کے مذہبی تہواروں پر مقامی اتھارٹیز مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ان اجتماعات میں خصوصی طور پر شرکت کرتی ہیں ۔ا سپین میں رہنے والے مسلمان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے اور وہ بھی اپنے قومی اور مذہبی تہواروں کو بھرپور انداز سے مناتے ہیں ،اس حوالے سے بڑے بڑے اجتماعات کے لئے مقامی حکومتوں سے کھلے میدان حاصل کئے جاتے ہیں تاکہ ساری کمیونٹی وہاں آکر اُن اجتماعات کا حصہ بن سکے ۔
رواں سال دُنیا بھر کو کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ،جس کی وجہ سے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں اور روزگار کی فراوانی بھی حدود و قیود کی مرہون منت بن گئی ہے ، کورونا وائرس کے لئے ہنگامی حالات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے تاکہ یہ وباء دوسروں تک نہ پھیل سکے ۔اس کے لئے ہاتھوں کو صاف رکھنا اور چہرے پر ماسک کا استعمال قانونی طور پر ضروری قرار دیا جا چکا ہے ۔ اس حوالے سےا سپین میں بہت سختی کی گئی ہے اور پولیس سمیت دوسرے انتظامی ادارے ماسک نہ پہننے والوں کو بھاری جرمانے کر رہے ہیں ، اس کے باوجود کہ اسپین میں کورونا وائرس کی لہر ایک باردوبارہ واپس آ ئی ہے، لوگوں میں خاص کر پاکستانیوں میں اس وباء کا کوئی ڈر یا خوف نہیں پایا جاتا ، پاکستانی کمیونٹی اُسی طرح کھانوں کی دعوت اور شادی بیاہ اور دوسرے پروگرامز پر جم غفیر پیدا کرتے ہیں ،جو اس وباء کے بڑھاوے کا باعث بن رہا ہے ۔
اسپین میں چونکہ دس بندوں سے زیادہ افراد کے اکھٹے ہونے پر پابندی ہے اس لئے عید الاضحی کی نماز کے لئے مساجد میں جانا یا کھلے میدانوں میں اس کا اہتمام کرنا مقامی انتظامیہ کے لئے بہت مشکل تھا لیکن مسلمان کمیونٹی نے مقامی انتظامی اداروں سے اجازت لی کہ ہم کورونا وائرس کی وجہ سے تمام ’’ ایس او پیز ‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے نماز عید ادا کریں گے ، زیادہ رش نہیں ہو گا اور ہم ایک دوسرے سے سوشل فاصلہ بھی رکھیں گے ، انتظامیہ نے اس شرط پر اجازت دے دی تو مساجد میں نماز عید کی جماعتوں کا اعلان کر دیا گیا ، فیضان مدینہ مسجد بادالونا ، منہاج القران مسجد بارسلونا سنٹر ، منہاج القران مسجد بادالونا ، طارق بن زیاد مسجد ، شاہ جمال مسجد بارسلونا میں نماز عید کے اوقات کا اعلان کیا گیا ،ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ بغیر ماسک مساجد میں داخلہ نہیں ہو گا اور تمام نمازی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے بلکہ ایک دوسرے سے دو میٹر کے فاصلے پر کھڑا ہو کر نماز ادا کی جائے گی ۔ مساجد میں داخلے سے پہلے ہاتھوں کو دھویا جائے گا کیونکہ لوگ وضو گھروں سے کرکے آئیں گے اس لئے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہاتھ سینی ٹائزر کے ذریعے اچھی طرح صاف کئے جائیں تاکہ تمام ایس او پیز کا خیال رکھا جائے کیونکہ مقامی انتظامیہ نے ہم سے یہ وعدہ لیا ہے کہ مسلمان کمیونٹی لاء اینڈ آرڈر اور ایس او پیز کا خیال رکھے گی ۔
مساجد میں کہیں دو اور کہیں تین جماعتیں ہی ہوئی تھیں کہ رش کی وجہ سے لوگ ایس او پیز کو بھول گئے اور سوشل فاصلے کا خیال نہ رکھتے ہوئے مسجد کے اندر داخل ہونے میں دھکم پیل کی ، ایک دوسرے سے پہلے نماز ادا کرنے کی ہر مسلمان کو جستجو ہوتی ہے بس اس عمل کو مقامی انتظامیہ نے دیکھ لیا چونکہ پولیس کسی قسم کے نا خوشگوار واقعہ سے نپٹنے کے لئے تیار ڈیوٹی کر رہی تھی اس لئے پولیس نے باقی نمازیں نہ پڑھنے دیں اور مسلمان مایوس گھروں کو لوٹ گئے ،مساجد بند کر دی گئیں ۔پہلی جماعتوں میں جو مسلمان عید کی نماز ادا کر سکے سو کرسکے۔
باقی جو نہیں کر سکے انہوں نے پاکستانیوں کے بڑے گھروں میں نماز عید کی جماعتیں کروائیں اور نماز ادا کی ،ا سپین کے معروف بزنس مین نماز عید کی ادائیگی کے لئے جگہ مہیا کرتے رہے جن میں چوہدری اشفاق باغانوالہ سر فہرست ہیں ،جنہوں نے حافظ رزاق کی امامت میں اپنے گھر پر نماز عید کی جماعت کا اہتمام کیا جہاں کافی مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئے ، چوہدری اشفاق نے قربانی کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا انہوں نے نماز کے بعد قربانی کی تو نماز میں شریک بہت سے پاکستانی وہاں رک گئے اور دوپہر کا کھانا بھی کھایا ، اسی طرح بادالونا میں بھی مختلف لوگوں نے اپنے دفاتر اور گھروں میں لوگوں کو نماز عید کی ادائیگی کے لئے جگہ مہیا کی۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس سال کھلے میدانوں اور مساجد میں وہ رونق نظر نہ آئی جو گزشتہ سالوں میں نظر آتی تھی ، اس سال مسلمانوں کے لئے قربانی کے لئے پہلی بار بکروں اور دنبوں کی فروخت بھی ہوئی جنہیں باقاعدہ طور پر حلال کیا گیا اور انہیں لوگوں کے گھروں تک پہنچایا گیا ،اس سے پہلے اسپین میں ایسا ممکن نہیں تھا ، اس وجہ سے رواں سال بہت سے پاکستانیوں نے قربانی کے لئے یہیں جانور خریدے اور اللہ کے راہ میں قربان کرکے سنت ابراہیمی ادا کی۔