• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جن کی سوچ گروی، بینائی دھندلائی اور سماعت ناشگفتہ بازگشتوں کے عذاب میں ہے، انسانی حقوق کے ثمرات اور ان باغات کی سیر کے متلاشی تو یہی ہیں، جن کے ہاں اپنے آپ پر کم مگر ضروریات پر شباب زیادہ آتا ہے تاہم یکساں حقوق کی منزل تک پہنچنے کیلئے دشوار گزار راستوں کا مقابلہ آبلہ پائی سے طے ہوتا ہے۔ جب تک احساس کے سمندر میں پوری طرح غوطہ زن نہ ہوں تو ممکن نہیں کہ ہم حقوق کو سمجھ سکیں. بغیر حقوق کے ادراک کے جمہوریت کا فلسفہ پلے پڑ جائے یہ ممکن نہیں۔

یہ عرض بطورِ خاص بلاول بھٹو،مریم نواز اور مونس الٰہی سمیت سبھی نوجوانوں کیلئے ہے کہ:

جمہوریت کو سمجھنے سے قبل استحصالی قوتوں کے طریقۂ واردات میٹھے زہر اور ان کے برانڈز کی لانچنگ اور لابنگ کو سمجھیں۔

سمجھنے کیلئے منظر کو تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے، عقل و دانش اور انسانی زندگی کے بناؤ کو جب چاہا جائے چاہنے والوں کی طرح تو اندھیرے اجالے میں فرق صاف نظر آتا ہے بے شک مصنوعی روشنی ہر سو ہی کیوں نہ پھیلی ہو۔ ٹرمپ دور نے جمہوری طاقت پر یقین رکھنے والوں کیلئے دھندلاہٹ پیدا کردی جس میں ایک طرف تو پولینڈ کے صدر سمیت کئی حکمرانوں نے اسے بحیثیت فیشن اپنایا یوں کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے در جگہ جگہ وا ہونے شروع ہو گئے، کئی ممالک میں پریس اور ہیومن فریڈم پر دباؤ بڑھ گیا۔سائیڈ افیکٹ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کئی ممالک نے امریکہ کے متوازی چائنہ سے امیدیں باندھنا شروع کرلیں جو چینی کمیونسٹ پارٹی کیلئے خوش آئند ٹھہرا۔گویا عالم نے جمہوری روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاشیات اور ضروریات کے مطابق اپنے بلاک متشکل کرتے ہوئے چینی روایتی داخلی آمرانہ نظام کو قبول فرمایا، سبب روایتی طاقتوں کا حقیقی جمہوریت سے منہ موڑنا ہے، کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے ان روایات کو بھی دفن کردیا جو امریکی صدور اپنا ٹیکس ریکارڈ ٹرانسپیرنٹ رکھتے تھے، بطورِ وہائٹ ہاؤس ایڈوائزر اس کی بیٹی و داماد کی دخل اندازی عام ہے، ٹرمپ کا ذاتی بزنس ڈنرز اور پرائیویٹ بین الاقوامی روابط وہ معمول ہے جو ماضی کے صدور میں نہ ملتا تھا مگر 71 فی صد امریکی یہی چاہتے ہیں کہ طاقتور امریکہ دنیا میں جمہوری رویوں کی مدد کرے لیکن ٹرمپ سرکار کا رویہ ان کی چاہت کے برعکس ہے۔جب اخلاقی رویے دم توڑنے لگیں، طاقت منہ زور ہو اور متکبر لوگ ترقی کے زینے چڑھ رہے ہوں تو انسانی حقوق کی پائیداری اور جمہوریت مسخ شدہ چہرے کے ساتھ ترقی کے زینوں سے اترنا شروع کردیتی ہے۔ یہی عالم رہا تو نریندر مودی و عمران خان جیسے رہنما اپنی اپنی اقوام کو جمہوری تاثر تو دیں گے مگر ثمرات نہیں۔

مستقبل کا مورخ لکھے گا ’’ بات ہے پرانے وقتوں کی، اور دور لگ بھگ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے آخری سالوں کا، اس ماضی میں جمہوریت ہچکولے کھاتی کشتی میں امریکہ سے چلتی اور چائنہ تک پہنچتی ہے، آمریت کے چپوئوں سے چلتی اس کشتی کو بھارت جیسے گنجان آباد اور جنونی باسیوں کے سمندر سے روس جیسے سفید و سرخ بےسمت سیاسی لہروں سے بھی کوئی خطرہ نہ تھا۔ ڈونلڈ نما کوئی صدر روزانہ امریکیوں کی دانشمندی کے مینارے کی بنیادوں کو اپنی دلالی کے تجربے اور اسی کمائی کی کدال سے کھودتا...‘‘

شخصیات کے شکنجے میں جکڑی ڈیموکریسی جمہوریت نہیں کہلا سکتی۔ شخصیتی مرکزہ نظام کی ضد ہوتا ہے، جمہوریت ایک نظام ہے جو انسانوں اور انسانیت کی باغبانی اور ترجمانی ہے۔ جمہور کو پولیٹکل سائنس تو سمجھتی ہے مگر عام سائنسدان نے سمجھنا اور سمجھانا چھوڑ دیا،جمہوریت محض ایک تعلیم نہیں بلکہ پوری تربیت اور ایک مکمل تہذیب کا نام ہے. اسے مزید سمجھنے کیلئے سیاست کے در پر ٹھہرنا ہوگا۔ سیاستدان،سیاسی پارٹیوں اور سرکاری سرگرمیوں کا مجموعہ ہی سیاست نہیں , درحقیقت سیاست لوگوں کے مابین،خواص و عام کے درمیان،عورتوں و مردوں کے بیچ اور والدین و بچوں کے درمیان باہمی تعلق داری اور مشاورت بلکہ پاور کی تفویض کاری کا نام ہے۔

اگر عالم جمہوریت کی روح کو یونہی کچلتا رہا تو اقوام متحدہ امریکہ طرز کی طاقتوروں کی مزید آلہ کار بن جائے گی۔ مثبت اور حقیقی صحافت کی جگہ سیدھے سیدھے پروپیگنڈا ماسٹرز ہوں گے، مقبوضہ کشمیر سے فلسطین تک انسانیت مرثیہ گو رہے گی، میانمار پر کوئی رویا؟ چشم فلک گواہ ہے گزشتہ 13برس سے حقیقی جمہوریت مسلسل زوال کی راہ پر ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا بول بالا ہے۔ یہ سب عام آدمی اور عام ریاستوں کیلئے مزید کربناک بنتا جائے گا۔ بڑی طاقتیں عام ریاستوں کی پاورفل اشرافیہ کو اپنی مٹھی میں لے کر فراہمی قوت کا باعث بننے لگی ہیں، جیسا ملکی میدان ہوتا ہے ویسا ماحول اور ہدایت کاری عمل میں آنے لگی ہے۔اوپر سے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوروں اور نیچے سے مقامی رہنماؤں اور ریجنل میڈیا کو سوچنا ہوگا کہ جس تیزی سے پانی سر سے گز رہا ہے بالآخر حالات پر قابو پانا ناممکن ہو جائے گا۔ جمہوری رویوں اور سیاسی اقدار کو بیدار کرنا ہوگا، سیاست صرف کرسی کے حصول اور عنان اقتدار ہی کیلئے نہیں ہوتی، سیاست اداروں اور حکومتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کیلئے بھی ہوا کرتی ہے۔ انسانی حقوق، تعلیم و صحت کے امور میں دیانت اور کوالٹی لانے کی سعی کی سیاست کاری بھی لازم ہے یہ محبت کے بعد بھی محبت بلکہ محبت در محبت کا وہ زنجیری عمل ہے جو جمہوریت کو فروغ دے گا اور بتائے گا کہ بعض اوقات ایک ناکامی بیسیوں کامیابیوں کا راستہ بھی تو کھولتی ہے۔ نوجوان کو کرنٹ افیئرز کے تناظر میں عالمی منظر نامہ اور تاریخ کو کھنگالنا ہوگا کیونکہ اجتماعی اور جواں فکر ہی قومی فکر کو جنم اور عمل دیتی ہے، محبت ناکامی کے خوف سے بےنیاز ہوتی ہے۔جمہوریت تو محبت در محبت کا سلسلہ جاریہ ہے!

تازہ ترین