الیکشن ہوئے تو ٹھیک 20دن بعد ووٹ ڈالے جائیں گے لیکن روایتی گہما گہمی نظر نہیں آرہی ۔ البتہ 20سے زائد شخصیات شفاف الیکشن کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ موجودہ صورتحال اور الیکشن کے حوالے سے عام لوگ کیا سوچتے ہیں ۔ یہ تو صرف ان کی زبانی ہی پتہ چلے گا۔ گو ملک میں کوئی بھی جماعت شاید انتخابی مہم کو کھل کر چلانے کی پوزیشن میں نہ ہو مگر گلی ، محلوں کے فٹ پاتھوں اور تھڑوں پہ بیٹھنے والے لوگ مشعل اوباما سے لیکر وسیم اکرم اور ششمیتا سین تک ،زلزلہ سے لیکر فلسطین میں ہونیوالے مظاہروں تک ، پرویز مشرف کی نااہلی سے غداری کے مقدمے اور عدالت سے فرار ہونے سے گرفتاری تک، الیکشن کے ضابطہ اخلاق سے لیکر اس کی دھجیاں اڑانے تک ، گیلانی سے لیکر مولانا فضل الرحمن تک، شیخ وقاص سے لیکر جمشید دستی اور نگرانوں کی بددیانتی تک ہر موضوع پر نہ صرف بحث مباحثہ کر رہے ہیں بلکہ بڑے حیران کن تجزیئے بھی پیش کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ گراس روٹ لیول تک کی سوچ کا احاطہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ جو اکثر ہم جیسے کالم نگاروں کے مشاہدے سے اوجھل رہتی ہے۔ آج ہم آپکو اندرون لاہور کی ایک سٹریٹ میں ہونیوالی ڈبیٹ کااحوال سنا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ڈبیٹ کا احوال پڑھتے ہوئے بعض جگہوں پر آپ کو نامکمل یا ادھورے جملے نظر آئیں مگر ان کو نظر انداز کر دینا ہی قارئین کی صحت کیلئے اچھا ہے ۔
ہُن وسیم اکرم بھی ششمیتا سین کو پاکستان کی بھابی بنا رہا ہے۔ یہ تو غلط ہے ۔ اس کی تردید تو خود وسیم اکرم بھی کر چکا ہے اور ششمیتا نے تو یہ کہا ہے کہ صرف اچھی دوستی ہے۔ اچھی دوستی ہی تو رشتے میں بدلتی ہے ۔ اب دیکھو سلمیٰ آغا اور جاوید شیخ ، شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کے بارے میں تو بھی ایسی تردیدیں سامنے آتی تھیں مگر سب نے دیکھ لیا کہ پاکستانی ہمیشہ انڈیا کے اوپر ہی رہتے ہیں ۔تمہیں وسیم اکر م اور ششمیتا کی پڑی ہے ملک میں انتخابات ہو رہے ہیں اور مسرت شاہین مولانا فضل الرحمن کے خلاف الیکشن لڑ رہی ہے۔مولانا فضل الرحمن کے خلاف تو اے این پی ، جماعت اسلامی ، ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی اتحاد کر لیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ سب جماعتیں مسرت شاہین کو سپورٹ کر رہی ہیں ۔ بالکل کر رہی ہیں چونکہ مسرت شاہین آرٹیکل 62، 63پر پورا اترنیوالا ایک ماڈل ہے۔تمہارا مطلب ہے کہ مسرت شاہین صادق اور امین ہے ۔ بالکل… تم پوچھ لو ان لوگوں سے جن کا واسطہ مسرت شاہین سے رہا اس نے اپنے دھندے میں کبھی جھوٹ بولا اور نہ ہی کبھی طے کی گئی کمٹ منٹ سے پیچھے ہٹی ۔ تم سمجھتے ہو کہ مولانا فضل الرحمن اور مسرت شاہین برابر ہیں۔ ہاں خود مولانا نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 62، 63کی تشریح مسرت شاہین کے کاغذات منظور کرکے کی ہے اسکے بعد تو آئین کے تناظر میں اسکی تشریح کی مزید گنجائش نہیں ۔الیکشن کمیشن نے تو مذہب کے نام پر ووٹ لینے پر پابندی بھی لگا دی ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ یہ ملک مذہب کے نام پر بنا اور مذہب کے نام پر ووٹ لینے پر پابندی دراصل نظریہ پاکستان کی نفی ہے۔اصل میں یہ بھی مسرت شاہین کی شرارت ہے اور الیکشن کمیشن مسرت شاہین کے ساتھ ملکر مولانا کو ہرانے کی سازش کر رہا ہے۔ اس ڈبیٹ میں حصہ لینے والے ایک اور اسپیکر بولے کہ تم کس بحث میں الجھ گئے ہو الیکشن کمیشن کوئی سازش نہیں کر رہا، اس نے تو بس آئندہ کیلئے یہ سرٹیفکیٹ جاری کئے ہیں کہ نہ تو جمشید دستی کی ڈگری جعلی ہے نہ ہی وقاض اکرم شیخ کے اولیول سرٹیفکیٹ، نہ نواز، شہباز قرض نادہندہ ہیں، نہ ہی فہمیدہ مرزا کی طرح 48کروڑ کا قرض معاف کرانا جرم ہے ، کیونکہ یہ سب الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی ( چھلنی ) سے فلٹر ہو کر نکل چکے ہیں۔ البتہ پرویز مشرف کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ وہ 62،63کے مطابق صادق اور امین ہیں ۔ ہاں بھئی اگر مولانا ، مسرت شاہین اور امین فہیم ، شیخ رشید عتیقہ اوڈو صادق اور امین ہیں تو پرویز مشرف تو ہر ” اچھی برائی“ کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ البتہ ان کے کاغذات تو چاروں جگہوں سے مسترد ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ان پر غداری کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ عدالت عظمیٰ نے تو نگران حکومت کو یہ حکم دے دیاہے کہ وہ شفاف انتخابات کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کااختیار بھی رکھتی ہے ۔ غداری کے مقدمے سے یاد آیا کہ جامع حفصہ کی خواتین نے برچھیوں سے پرویز مشرف کی تصویر والے پوسٹر کاٹے ہیں۔ ابھی تو صرف تصویر کاٹی ہے۔ یار یہ جنرل مشرف پاکستان لینے کیاآیا ہے ۔کونسی ایسی سزا ہے جو اس نے اپنے دور میں پاکستانیوں کو نہیں دی جو اب دینے کیلئے آگیا ہے۔ یہ تو پروٹوکول انجوائے کرنے آیا ہے ۔ اس کو پتہ تھا کہ جب وہ ملک سے باہر گیا تو اسے گارڈ آف آنر دیا گیا اب بھی وہ اسکی توقع رکھتا تھا۔ بالکل۔ کراچی میں ایک وکیل نے جوتی سے گارڈ آف آنر دیاتھا اب بے چارہ پولیس اسٹیشن میں قیدہے، باہر نکلے گا تو پھر گارڈ آف آنر مل جائیگا۔ وہ قید نہیں، اپنا پروٹوکول اور سکیورٹی انجوائے کر رہا ہے۔ اس وقت ملک میں سب سے زیادہ سکیورٹی اسکی ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ یہ سب سے بڑی شخصیت ہے اور سپریم کورٹ نے نواز اور شہباز شریف، گیلانی، پرویز اشرف اور وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ساتھ ارکان پارلیمنٹ کو دی جانیوالی سکیورٹی کا نوٹس لیا ہے۔ ان کو حاصل ” مرگ بعد“ یعنی اسمبلیوں سے فارغ ہونے کے بعد حاصل ہونیوالی مراعات کو ختم کرنے کا کہا ہے مگر مشرف کی سکیورٹی بڑھ گئی ہے۔ مشرف کو ہمارا مشورہ ہے کہ اب نہ تو وہ خود الیکشن لڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی پارٹی کوئی بھی سیٹ جیت سکتی ہے۔سیاست کرنا ان کے بس کا روگ نہیں ۔اگر وہ عدالت کی طرح ملک سے فرار ہوسکتے ہیں تو آرام سے اپنے دھندے کی طرف لگیں۔میوزک گروپ بنائیں، طبلہ بجائیں ،لوگوں میں خوشیاں بانٹیں ، اب تو ابرار الحق نے مکمل طور پر اپنے آپ کو سیاست کے حوالے کر دیا ہے ۔ اس فیلڈ میں بڑا اسکوپ ہے۔
یہ سب سیاستدان بے کار ہیں۔ ہرکوئی ان پر کچڑ اچھالتا ہے ، گندے انڈے اور جوتے مارتا ہے ، ان کے ٹیکس اور قرضے ہڑپ کرنیکی بات کرتا ہے۔ کالے دھن کی رقم کو ملک میں لانے کا مطالبہ کرتا ہے، تم کس چکر میں پھنس گئے ہو۔ پوری قوم کو تم نے نئے سرے سے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ ترکی کے بیچ (Beach) تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ دینا جہاں کی دولت باہر اکٹھی کر لی ہے ۔ اب پاکستان سے کیا لوٹنا چاہتے ہو۔ تمہاری طرح 62،63 پر پورے اترنے والے تمام سیاستدان سمندر کنارے بنائے تمہارے ڈسکو کلب میں ضرور آیا کریں گے کیونکہ ان سب کو پتہ ہے کہ تم ڈرتے، ورتے کسی سے نہیں۔ بس ہائیکورٹ سے ضمانت مسترد ہونے پر فرار ہو جاتے ہو۔ یہ فرار بھی کسی کے کہنے پر ہوا ہوگا۔ کوئی پتہ نہیں کہ طبل بجے اور مشرف ایک مرتبہ پھر چیف ایگزیکٹو اور صدر بن جائے! نوٹ: ڈبیٹ کا باقی احوال آئندہ قسط میں پڑھنے کا ضرور انتظار کیجئے گا !