• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر:محمد صادق کھوکھر۔۔۔۔ لیسٹر


اسلام وہ عالمگیر دین ہے جس کی صداقت پر جب کوئی سچے دل سے ایمان لاتا ہے تو اس کی د نیا ہی بدل جاتی ہے۔ ان نو مسلموں میں کچھ افراد ہیروں کی مانند نظر آتے ہیں جن پر دنیا ناز کرتی ہے۔ یہی وہ خوش قسمت نفوس ہیں جنہوں نے اسلام کی حلاوت کا صحیح مزہ چکھا اور پھر انہوں نے اسلام کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کر کے ایسی گراں قدر خدمات سر انجام دیں جن سے آئندہ آنے والی کئی نسلیں فیض یاب ہوتی رہیں گی۔ محمد اسد، مریم جمیلہ، محمد مارما ڈیوک پکھتال، ڈاکٹر مراد ہافمیں اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ حال ہی میں مدینہ منورہ میں وفات پانے والے پروفیسر ضیاء الرحمٰن اعظمی بھی اسی سلسلے کی ایک اعلیٰ مثال ہیں۔ جنہوں نے پندرہ برس کی عمر میں ہندو مذہب ترک کر کے اسلام قبول کیا تھا اور پھر استقامت سے اس پر قائم رہتے ہوئے شاندار علمی کارنامے سر انجام دیئے۔ قبولِ اسلام سے قبل وہ ایک متعصب ہندو تھے۔ ایک روز انہوں نے بلریا گنج کے مشہور حکیم محمد ایوب سے ملاقات کی اور ان کی وساطت سے اسلامی کتب کا مطالعہ کیا تو ان کی دنیا بدل گئی۔ انہیں خاص طور پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب "اسلام دینِ حق" نے بے حد متاثر کیا تھا۔ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ "حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کے فوراً بعد مجھے ایک زبردست ذہنی کشمکش سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ دراصل اس عملی کشمکش کا نقطہ آغاز تھا جو چند ماہ بعد میرے قبولِ اسلام کے انکشاف اور اعلان کے بعد شروع ہونے والی تھی۔ اس ذہنی کشمکش کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرا سلسلہ تعلیم منقطع ہوکر رہ گیا۔ میرا سارا وقت یا تو سید مودودیؒ کی کتابوں کے مطالعے میں گزرتا یا ان کتابوں کے منتخب حصے اپنے ساتھی طلبہ کو سنانے میں۔" قبولِ اسلام کی وجہ سے انہیں گھریلو مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔ گھر والوں نے ہر طرح کا دباؤ استعمال کیا تاکہ وہ اسلام ترک کر کے دوبارہ ہندو مذہب اختیارکر لیں۔ انہوں نے جھاڑ پھونک بھی کرائی۔ رونے دھونے کے علاوہ مار پیٹ بھی کی۔ ایک دفعہ ان کی پوری فیملی نے بھوک ہڑتال بھی کر دی۔ نوبت یہاں تک آئی کہ وہ مرنے کے قریب پہنچ گئے لیکن پروفیسر اعظمی کی استقامت کے باعث ان کے گھر والوں کے یہ تمام حربے بالآخر ناکام ہو گئے۔ انہوں نے شبلی کالج اور جامعہ دارالسلام عمر گڑھ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ماسٹر ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ سے کیا۔ ایم اے کا مقالہ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کردہ احادیت کی نوعیت اور حیثیت پر مبنی تھا۔ جس میں انہوں نے مشترقین کے الزامات کا موثر جواب دیا۔ اس مقالے کی تعریف حدیث کے مشہور عالم شیخ ناصرالبانی بھی کیا کرتے تھے۔ پھر جامعہ الازہر مصر سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کے لیے اندلس کے مشہور عالم محمد بن فرج المالکی کی تصنیف "رسول اللہﷺ کے فیصلے" کو منتخب کیا۔ ڈاکٹر اعظمی نےاس سلسلے میں بیان کردہ احادیث کی تحقیق اور تخریج کی۔ اب یہ کتاب ایک مستند انسائیکلوپیڈیا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس کا اردو میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ وہ مدینہ یونیورسٹی میں کئی برس تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ وہ رابطہ عالمی اسلامی کے انچارج ہیڈ آفس بھی رہ چکے تھے۔ نیزوہ مسجدِ نبوی میں درسِ حدیث بھی دیتے تھے۔ مرحوم نے تقریبا" دو درجن کتب تصنیف کیں جن میں زیادہ تر عربی میں ہیں باقی ہندی اوراردو میں ہیں۔ ہندی میں ان کی سب سے مقبول کتاب قرآن کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اس کا اردو میں بھی ترجمہ ہو رہا ہے۔ موصوف کی تالیف کردہ کئی کتب سعودی عرب کی جامعات کے اعلیٰ درجوں کے کورسز کا حصہ بن چکی ہیں جس میں سرفہرست ”دراسات فی الیہودیہ والمسیحیہ وادیان الہند“ قابلِ ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ”الجامع الکامل“ ان کی بڑی اہم تصنیف ہے۔ اس میں انہوں نے تمام صحیح احادیث کو فقہی اعتبار سے جمع کیا ہے۔ ہر حدیث کی تحقیق اور تخریج کی ہے۔ یہ حدیث کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے ایک بے مثال تحفہ ہے۔ یہ بارہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اداروں کا کام تن تنہا سر انجام دے کر اہلِ علم کو چونکا دیا ہے۔ موصوف موجودہ زمانے میں علم الحدیث کے بہت بڑے عالم تھے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی علمی اور عملی خدمات کو قبول فرمائے۔ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور امتِ مسلمہ کو ان کا متبادل عطا کرے۔ آمین 

تازہ ترین