سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی صرف گرفتاری ہوئی ہے ابھی انہیں کسی عدالت نے کوئی سزا نہیں دی لیکن پھر بھی محض گرفتاری کو مکافات عمل قرار دیا جارہا ہے۔مشرف کو عبرت کانشان بھی کہا جارہا ہے، گستاخی معاف! یہ تبصرے قبل از وقت ہیں ۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ڈکٹیٹر کو باقاعدہ گرفتار کیا گیا اور اس کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہوچکی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ سابق ڈکٹیٹر سیاسی طور پر انتہائی کمزور ہے لیکن اسلام آباد میں کچھ غیر ملکی سفارتکاروں کے لہجوں میں مشرف کے لئے پائی جانے والی ہمدردی مجھے یہ خبر دے رہی ہے کہ مشرف کمزور نہیں ہے۔ مشرف کے ساتھی یہ تاثر دیا کرتے تھے کہ ایک سابق آرمی چیف کو گرفتار کرنا اور سزا دینا پاکستان میں ناممکن ہے۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ ابھی تک پاکستان کی فوجی قیادت نے مشرف کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی لیکن اسلام آباد میں یہ سرگوشیاں شروع ہوچکی ہیں کہ پرویز مشرف کو ان کے غیر ملکی دوست کسی نہ کسی طرح پاکستان سے واپس لے جائیں گے۔ گزشتہ دوپہر ایک غیر ملکی سفارتکار نے مجھے پوچھا کہ نواز شریف نے مشرف کے بارے میں ا پنی خاموشی کیوں توڑ دی؟میں نے جواب میں کہا کہ الیکشن قریب ہے، میڈیا میں مشرف کے معاملے پر نواز شریف کی خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی تھی اور نواز شریف کے ساتھیوں کے لئے ان سوالات کاجواب دینا مشکل ہورہا تھا لہٰذا نواز شریف نے مشکل صورتحال سے نکلنے کے لئے خاموشی توڑ دی۔ نواز شریف کے کچھ قریبی حلقے یہ تاثر دیتے ہیں کہ24مارچ کو پرویز مشرف کی واپسی سے لے کر 19 اپریل2013ء کو مشرف کی گرفتاری تک نواز شریف کی خاموشی کامقصد صرف یہ تھا کہ وہ سابق ڈکٹیٹر کے ساتھ کسی ذاتی مخاصمت کا تاثر نہیں دینا چاہتے تھے۔ دلچسپ صورتحال تو اس وقت پیدا ہوئی جب مشرف نے بھی نواز شریف پر تنقید سے گریز کیا۔ کراچی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران مشرف سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان واپسی سے قبل آپ کی نواز شریف سے صلح کروائی گئی ہے تو موصوف نے جواب میں کہا کہ میں نے کسی سے کوئی معاہدہ نہیں کیا البتہ میرے غیر ملکی دوستوں نے کسی سے کچھ کہا ہے تو کہا ہوگا۔ غیر ملکی سفارتکار نے مجھے یاد دلایا کہ نواز شریف کے خاندان نے جلا وطنی کے زمانے میں سعودی حکومت سے قرض لے کرسعودی عرب میں کاروبار شروع کیا تھا لہٰذا نواز شریف کے لئے سعودی حکومت کو ناراض کرنا بہت مہنگا پڑے گا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب میرے لہجے میں کچھ تلخی پیدا ہوگئی اور مجھے کہنا پڑا کہ یہ سعودی حکومت اور نواز شریف کا معاملہ ہے، نواز شریف نے مشرف کے بارے میں اپنی چند روزہ خاموشی توڑ کر حق گوئی کا مظاہرہ کیا ہے کسی تیسرے ملک کو اس معاملے میں مداخلت سے گریز کرنا چاہئے۔ غیر ملکی سفارتکار نے فوراً پہلو بدلا ،لہجہ بدلا اور موضوع بھی بدل دیا۔ اب ہم مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر گفتگو کررہے تھے لیکن میری زبان میرے ذہن کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ میرا ذہن مشرف پراٹکاہوا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا میں نے سفارتی ا ٓداب کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتہائی بھونڈے انداز میں کہا کہ…”ایکسی لینسی !جس طرح ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان سے بھگادیا گیا تھا کیا اسی طرح مشرف کو پاکستان سے بھگانے کی تیاری شروع ہے؟“۔
میرا سوال سن کر سفارتکار صاحب پہلے تو چکرا گئے پھر انہوں نے ایک مصنوعی قہقہے میں میرے سوال کو ا ڑانے کی کوشش کی لیکن میرے چہرے پر موجود خاموش سنجیدگی نے انہیں چپ کرادیا۔ فرمانے لگے کہ ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان سے نکالنے میں صدر آصف زرداری اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب آصف زرداری اتنے مضبوط نہیں ہیں ۔احمد شجاع پاشا ریٹائر ہوچکے ہیں۔ موجودہ فوجی قیادت مشرف کو بچانے میں ا تنی سرگرم نظر نہیں آتی۔ نگران حکومت کے لئے مشرف کو پاکستان سے نکالنا خاصا مشکل ہے، یہ کام تو الیکشن کے بعد آنے والی حکومت کو کرنا پڑے گا۔ سفارتکار نے پوچھا کہ مشرف نے میڈیا کو آزادی دی لیکن میڈیا مشرف کا ساتھ کیوں نہیں دے رہا؟یہ سن کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے جواب میں کہا کہ میڈیا کی آزادی کا دور محمد خان جونیجو کے دو ر میں شروع ہوا جب پریس اینڈ پیلی کیشنز آرڈی ننس ختم ہوا۔1989ء میں بینظیر حکومت نے پاکستان میں غیر ملکی چینلز کی اجازت دی۔1995ء میں بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت نے پرائیویٹ ریڈیو چینلز شروع کئے اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی اجازت کے لئے کام شروع کیا جو ان کی حکومت ختم ہونے پر ادھورا رہ گیا۔ 1999ء میں پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو دو سال تک انہوں نے پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو اجازت نہیں دی ۔ 2002ء میں عام انتخابات سے قبل دنیا میں اپنا اچھا تاثر قائم کرنے کے لئے انہوں نے پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو محدود آزادی کے ساتھ آزادی دے دی، یہ وہ دور تھا جب پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے ٹرانسمیشن سینٹر پاکستان سے باہر تھے تاکہ کوئی چھاپہ مار کر قیمتی مشینری نہ توڑ دے۔ مشرف دور میں میڈیا کو طرح طرح سے بلیک میل کیا جاتا تھا اور3نومبر2007ء کی ایمرجنسی کے بعد میڈیا پر جو پابندیاں لگیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مشرف نے میڈیا میں کروڑوں اربوں روپے تقسیم کئے جو بکنے کے لئے تیار نہ ہوا پاکستان کا دشمن قرار پایا۔ جلا وطنی کے دور میں بھی مشرف کو پاکستانی میڈیا پر اظہار خیال کی کھلم کھلا اجازت تھی۔ مشرف کی سیاسی ناکامی کی وجہ میڈیا نہیں بلکہ وکلاء اور سول سوسائٹی ہیں۔ غیر ملکی طاقتیں سیاستدانوں کے ساتھ معاہدے کرسکتیں ہیں لیکن وکلاء اور سول سوسائٹی کورام نہ کرسکیں۔ میڈیا عوام کوجوابدہ ہے اور جو عوام چاہتے ہیں میڈیا وہی دکھاتا ہے۔ سفارتکارنے پوچھاکہ کیا مشرف کی گرفتاری سے فوج کی تضحیک نہیں ہورہی ؟میں نے نفی میں سر ہلا کر کہا کہ بالکل نہیں۔31جولائی2009ء کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صرف مشرف کو غاصب قرار دیا ہے اگر آئین کے دفعہ 6کے تحت مشرف پر غداری کامقدمہ چلتا ہے تو فوج کو کوئی اعتراض نہیں ہوناچاہئے بلکہ فوج اس موقع پر خاموشی اختیار کرکے آئین کے احترام کی سنہری مثال قائم کرسکتی ہے۔
سفارتکار سے ملاقات کے بعد میں کافی دیر تک یہ پتہ کرتا رہا کہ مشرف کو بچانے کے لئے کون کون سرگرم ہے؟ اب تک کی اطلاعات کے مطابق مشرف کو بچانے کے لئے کوئی پاکستانی ادارہ متحرک نہیں البتہ کچھ غیر ملکی شخصیات متحرک ہوچکی ہیں ۔ شاید اسی لئے مشرف کو جیل بھیجنے کی بجائے ان کے گھر کو سب جیل قرار دیا گیا ہے، جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مشرف کے مظلوم بننے کا خطرہ ہے ،ان سے سوال ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو نے جیل کی کال کوٹھڑی نہیں دیکھی تھی ؟کیا بینظیر بھٹو کو سکھر جیل میں نہ رکھا گیا؟کیا آصف زرداری نے لانڈھی جیل کراچی اور اڈیالہ جیل راولپنڈی میں وقت نہیں گزارا؟ کیا نواز شریف کو اٹک قلعے میں نہیں رکھا گیا تھا؟اگر سویلین صدر اور وزیر اعظم جیلوں میں جاسکتے ہیں تو ایک سابق ڈکٹیٹر کیوں نہیں؟ اپنے فارم ہاؤس میں نظر بندی کے دن گزارنے والا پرویز مشرف نہ تو مظلوم ہے نہ عبرت کی مثال ہے۔ مشرف کے ساتھ قانون اور آئین کے مطابق سلوک ہونا چاہئے۔ عدالتوں کو ثابت کرنا ہے کہ وہ صرف سیاستدانوں کو نہیں ڈکٹیٹروں کو بھی سزا دے سکتی ہیں۔ اس موقع پر وکلاء سے گزارش ہے کہ وہ صرف قانونی جنگ تک محدود رہیں۔ عدالتوں کے احاطوں میں مشرف کے اکا دکا حامیوں پر تشدد سے گزیر کریں۔ ہمیں مشرف کے ساتھ وہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے جو موصوف نے اپنے دور اقتدار میں ہمارے ساتھ اختیار کیا۔