گندم کی بین الصوبائی منتقلی اور اسمگلنگ کو روکنے کے لئے حکومت سندھ کے احکامات صرف کاغذوں کی حد تک محدود،ہیں۔گندم کی منتقلی پر عائد پابندی اور دفعہ 144کے نفاذ کے باوجود سندھ سے پنجاب و بلوچستان کے مختلف علاقوں میں یومیہ 70سے 80 ٹرک گندم کی بوریوں سے بھرے ہوئے منتقل کئے جارہے ہیں۔ اس صورت حال کی وجہ سے سندھ کے دیہی و شہری علاقوں میں آٹے کے سنگین بحران اور قحط کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔کراچی سمیت سندھ میں آٹے کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں اوردس کلو آٹے کا تھیلا 620سے 680میں فروخت ہورہا ہے۔کراچی میں دکان دار اور چکی مالکان عوام کو من مانی قیمت پر آٹا فروخت کررہے ہیں جب کہ کمشنر کراچی افتخار شلوانی سمیت تمام ڈپٹی کمشنرز نےآٹا، چینی ، سبزی ، دودھ اور دیگر اشیائے ضروریہ و خورونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی طرف سے چشم پوشی اختیار کررکھی ہے۔
چیف سیکریٹری سندھ کے احکامات کے بعد محکمہ اینٹی کرپشن نے ایک کارروائی کے دوران گندم کی اسمگلنگ کی بڑی کھیپ کو ناکام بناکر ایک ٹریلرسے 470 گندم کی بوریاں برآمد کرلی گئیں جو کہ سندھ کے سرحدی علاقے گھوٹکی کے راستہ پنجاب منتقل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔مختار کار ،ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولراور تین پولیس اہلکاروں کو گرفتارکرکے رشوت میں لی گئی 13 لاکھ روپے سے زائد کی رقم بھی برآمد کی گئی۔ گندم سے بھرا ٹریلر پولیس نے ًتحویل میں لے لیا ہے۔
جرم صرف وہی نہیں ہوتا جس میں اسلحے کے زور پر کسی بھی شخص کو لوٹ لیا جائے یا قتل کردیا جائے بلکہ ہر وہ کام جرم کے زمرے میں آتا ہے جسے قانون نے کرنے کی ممانعت قرار دی ہو۔ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ بھی ایک ایسا ہی جرم ہے، جس میں بعض افراد سستے داموں خریدی جانے والی الی چیز کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کے بجائے اسے اپنے گوداموں میں جمع کئے رکھتے ہیں اور پھران اشیاء کی کضنوعی قلت پیدا کرکے آہستہ آہستہ بلیک مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں نےسندھ میں بھی گندم و آٹے کے بحران کے باعث قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی کے ستائے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کررکھا ہے۔
گندم و آٹا بحران پر قابو پانے کے لئے حکومت سندھ کی جانب سے گندم کی بین الصوبائی نقل و حمل پر پابندی بھی عائد کی گئی ہے جب کہ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے اس حوالےسے انتظامی افسران کوخصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ اس سلسلے میں چیف سیکریٹری سندھ کی جانب سے سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے کمشنرز کو خصوصی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ چیف سیکریٹری کے احکامات کے باوجود سکھر و لاڑکانہ کی ڈویژن کی انتظامیہ نے گندم کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے ہیں۔
انتظامی افسران، محکمہ خوراک اور پولیس کی جانب سے اگر کوئی ایک آدھ کارروائی بھی کی گئی ہے تو اس کی مثال آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ چیف سیکریٹری کی جانب سےکمشنر سکھر اور کمشنر لاڑکانہ کو لکھے گئے خطوط میں بتایا گیا تھا کہ سندھ سے پنجاب اور بلوچستان گندم کی اسمگلنگ کے باعث کراچی اور حیدرآباد میں گندم کا بحران پیدا ہوسکتا ہےاس لیے گندم کی غیرقانونی نقل و حمل کو روکا جائے۔ خط میں چیف سیکریٹری نے واضح طور پر سندھ سے گندم کی دیگر صوبوں میں اسمگلنگ کو روکنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔چیف سکریٹری کے خط کے مطابق سندھ سے روزانہ کی بنیاد پر 70 سے 80 گندم سے بھرے ہوئے ٹرک پنجاب اور دیگر صوبوں میں اسمگل کیے جارہے ہیں جس کے باعث کراچی اور حیدرآباد میں گندم کا سنگین بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے وزیراعلی سندھ اور چیف سیکریٹری کے احکامات کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے اور سندھ بلوچستان اور سندھ پنجاب کے سرحدی علاقے یا کسی اور شہر میں کوئی بڑی کاروائیاں نظر نہیں آرہی ہیں جبکہ ذرائع کے مطابق سکھر سمیت سندھ کے متعدد اضلاع میں بھاری مقدار میں گندم ذخیرہ کی گئی ہے اور مختلف شہروں سے گندم کی جیکب آباد، گھوٹکی، قمبر شہداد کوٹ اضلاع سے اسمگلنگ جاری ہے۔
ترجمان پیپلز پارٹی سندھ سینیٹر عاجز دھامرا نے سکھر پریس کلب میں واضح طور پر کہا تھا کہ گندم کی اسمگلنگ کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ اب تک صوبائی حکومت وزیراعلی اور صوبائی وزراء کے اقدامات صرف بیانات تک ہی محدود ہیں عملی طور پر نہ اسمگلنگ روکی جاسکی اور نہ ہی ذمہ داران کے خلاف کوئی کاروائی سامنے آئی ہے۔
اینٹی کرپشن کی یکارروائی کے دوران بھی محکمہ خوراک ریونیو اور پولیس افسران و اہلکار ملوث پائے گئے ہیںجن کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہے۔ یہ صرف ایک کامیابی ہے جو چیف سیکریٹری سندھ کے احکامات کے بعد سامنے آئی ہے، اس کے علاوہ ڈویژنل انتظامیہ، محکمہ خوراک و دیگر اداروںنے کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی ہے۔ ایس پی اینٹی کرپشن منیر کھوڑو کے مطابق خفیہ اطلاع موصول ہوئی تھی کہ سندھ سے پنجاب ودیگر علاقوں میں غیر قانونی طور پر گندم ٹرالر کے ذریعے لے جائی جارہی ہے، جس میں محکمہ ریونیو، خوراک اور پولیس کے بعض افسران و اہلکار ملوث ہیں۔ گھوٹکی ضلع کے سرحدی علاقے کے ذریعے ٹرالرز کو گزار کر پنجاب کی حدود میں داخل کرایا جارہا ہے۔
اطلاع ملنے پر ڈپٹی ڈائریکٹر اے سی ای سکھر کی نگرانی میں ہماری ٹیم نے ایک ٹرک کو ٹریس کیا۔ اینٹی کرپشن حکام کو اطلاع ملی تھی کہ ایک ٹرالر جس میں 470 گندم کے تھیلے ہیں جوکہ میرپور ماتھیلو ضلع گھوٹکی سے گزر کر پنجاب کی حدود میں داخل ہوگا اور لاہور تک سامان لے کر جائے گا۔جب ٹرک سندھ پنجاب بارڈر کے سرحدی علاقے کموں شہید پولیس چوکی کے قریب پہنچا تو محکمہ خوراک، ریونیو، پولیس کے افسران نے ٹرک کو روکا تاہم بھاری رشوت وصولی کے بعد ٹرک کو جانے دیا گیا۔ محکمہ اینٹی کرپشن کی ٹیم مسلسل ٹرک کی نگرانی کررہی ہے۔ وہاں سے تھوڑا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہماری ٹیم نے ٹرک کو روکا۔ جب اس کی چیکنگ کی گئی تو اس میں گندم کی بوریاں بھری ہوئی تھیں۔
ایس پی اینٹی کرپشن کے مطابق، حکومت سندھ کی جانب سے گندم کو صوبے سے باہر منتقل کرنے سے روکنے کے لئے دفعہ 144بھی نافذ کررکھی ہے اور گندم کی بین الصوبائی نقل و حمل پر پابندی بھی عائد ہے۔ محکمہ ریونیو، خوراک، پولیس افسران و اہلکاروں کی جب تلاشی لی گئی تو رشوت کے طور پر وصول کی گئی 13 لاکھ 73 ہزار روپے کی رقم بھی برآمد ہوئی۔ کارروائی کے دوران چند افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، ان کے نام ایف آئی آر میں درج ہیں جبکہ اسمگلنگ میں ملوث ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر گھوٹکی، مختیار کار نیوگوٹھ آباد اسکیم ضلع گھوٹکی، اور تین پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چیف سیکریٹری سندھ کی جانب سے ایک ماہ قبل واضح طور پر یہ احکامات دیے گئے تھے کہ سندھ سے گندم کی دیگر صوبوں میں اسمگلنگ کو روکنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں۔راس کے باوجودسندھ سے روزانہ کی بنیاد پر 70 سے 80 گندم کے ٹرک پنجاب اور دیگر صوبوں میں اسمگل کیے جارہے ہیں ۔ ایک ماہ گزرنے کے باوجود، نتظامی اداروں کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں آئی ۔
گندم و آٹے کی اسمگلنگ سے سندھ میں گندم و آٹے کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے جبکہ قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، محکمہ خوراک اور انتظامیہ گندم و آٹے کی اسمگلنگ کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لئے کوئی خاطر خواہ کارروائی کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔