دانیال حسن چغتائی، کہروڑ پکا
لفظ ’’سیرت‘‘ کے لغوی معنی خواہ کچھ بھی ہوں، لیکن عام طور پر لوگ اِس سے مراد سیرت النبیﷺ ہی لیتے ہیں۔ حضور رحمتِ عالمﷺ کی ولادت باسعادت سے وفات تک کے تمام مراحلِ حیات، آپﷺکی ذات وصفات اور تمام وہ چیزیں ،جن کا آپﷺ کی ذات سے تعلق ہو،سیرت میں شامل ہیں۔چناں چہ اعلانِ نبوّت سے پہلے اور بعد کے تمام واقعات ،کاشانۂ نبوّت سے غارِ حرا اور غارِ ثور تک، حرمِ کعبہ سے طائف کے بازار تک، مکّے کی چراگاہوں سے شام کی تجارت گاہوں تک اور خلوت گاہوں سے غزوات کی رزم گاہوں تک آپﷺ کی حیاتِ مقدسہ کے ہر ہر لمحے کو سیرت کہتے ہیں۔ نیز، سیرت نگاروں نے آپﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ، اولادؓ، اصحابؓ، سواری کے جانوروں، اسلحے اور برتنوں وغیرہ کے تذکرے کو بھی سیرت کا حصّہ شمار کیا ہے۔یوں سیرت کا مفہوم بہت وسیع ہو گیا ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ صرف آپﷺ کی ذات ہی تمام انسانوں کے لیے کامل نمونہ ہے۔ یہ دعویٰ صرف عقیدت اور محبّت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ عقل کا فیصلہ اور تاریخ کی گواہی بھی یہی ہے۔لہٰذا سیرتِ طیّبہؐ کا مطالعہ صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں، غیر مسلم اقوام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو یہ مسلمانوں کے لیے محض کوئی علمی مشغلہ نہیں، بلکہ ایک فریضہ ہے۔
کیوں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ’’ تم میں سے کوئی بھی اُس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک وہ اپنے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبّت نہ رکھے‘‘ اور یہ بات مسلّم ہے کہ کسی کا بار بار اور اچھے الفاظ میں تذکرہ محبّت میں اضافے کا باعث ہے۔ نیز، جس سے محبّت کی جاتی ہے، اُس کی زندگی کا احوال جاننا بھی ضروری ہے۔ قرآنِ کریم میں جہاں اللہ پر ایمان لانے کا حکم ہے، وہیں رسولؐ پر ایمان لانے اوراُن کے نقشِ قدم پر چلنے کا بھی حکم ہے۔ نقشِ قدم پر چلنے کے لیے ضروری ہے کہ اُن کی حیاتِ پاک سے واقفیت ہو۔ آپﷺ کی زندگی میں ہر شعبے سے وابستہ افراد کے لیے رہ نُمائی ہے۔ آپ ﷺداعی تھے اور مربّی بھی، قاضی تھے اور زاہد بھی، سیاست دان تھے اور حکم ران بھی، سپاہی تھے اور رہ نُما بھی، باپ اور شوہر تھے، لہٰذا اگر آپ داعی ہیں، تو سیرتِ نبویؐ کے مطالعے سے دعوت کے کئی اسلوب ملیں گے۔ معلوم ہوگا کہ کلمۂ توحید کی سربلندی کی خاطر تکالیف اور آزمائش کے موقعے پر ایک داعی کا صحیح کردار کیا ہونا چاہیے۔اگر آپ خاندان، قبیلے یا فوج کی قیادت کر رہے ہیں، یا زمامِ حکومت سنبھالے ہوئے ہیں، تو مطالعۂ سیرت سے ایک مضبوط نظام اور مستحکم اسلوب ملے گا۔
مطالعہِ سیرت سے زاہدوں کو زہد کا مفہوم، تاجر کو تجارت کے مقاصد و اصول، آزمائش میں مبتلا لوگوں کو صبر و ثبات کے اعلیٰ درجات کا علم حاصل ہوتا ہے۔ گویا مسلمان کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو، اُس کے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں رہ نُمائی ہے۔ جب ہر طرف ظلم کے گھٹا ٹوپ بادل چھائے ہوئے تھے، انسانیت کا ٹمٹماتا چراغ بُجھنے کو تھا، تو رحمتِ دو عالمﷺ کی بعثت ہوئی۔ پھر انسانی تاریخ نے عروج کی منازل طے کرنا شروع کردیں۔ رسول اللہﷺ نے اپنی عُمر کے پندرہویں سال ہی امن کے ایک معاہدے میں شرکت کی۔ امیر غریب، سردار اور غلام کے لیے ایک ہی قانون وضع کیا۔ رفاہی خدمات میں پیش پیش رہے۔ایک مکمل معاشی نظام پیش کیا، جس کے مطابق تجارت کر کے مسلمانوں نے زمامِ تجارت، جس پہ عرصے سے یہودی قابض تھے، اپنے ہاتھ میں لے لی۔ مختصر یہ کہ رسولﷺ کی ان کوششوں کے نتیجے میں جزیرۃ العرب، جو گویا ایک میدانِ جنگ تھا، امن کا گہوارہ بن گیا۔ جہاں بھائی بھائی کا دشمن تھا، وہاں پورا معاشرہ باہم شِیر و شَکر ہو گیا۔معاشرے میں یہ سب تبدیلیاں کیسے آئیں؟ یہ جاننے کے لیے بھی مطالعۂ سیرت انتہائی ضروری ہے کہ اسی نہج پر محنت کر کے ایک مرتبہ پھر پُرامن اور کام یاب معاشرہ تشکیل دے سکیں، جس میں غریب اور نچلے طبقے کا استحصال نہ ہو، جہاں ظلم و بربریت کا نام و نشان نہ رہے۔
آنحضرتﷺ کی نسبی شرافت
عرب میں قریش اور قریش میں بنو ہاشم سب سے عزّت دار سمجھے جاتے تھے۔ آپﷺ کی پیدائش اسی قبیلے میں ہوئی۔جب ابو سفیان سے ہرقل بادشاہ نے آپﷺ کے نسب کے بارے میں پوچھا، تو اُنھوں نے آپﷺکی شرافتِ نسبی کا اعتراف کیا۔ حالاں کہ اُس وقت تک ابو سفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور کفّار چاہتے تھے کہ اگر کوئی گنجائش ملے، تو آپﷺ پر عیب لگائیں۔آپ ﷺ کا سلسلۂ نسب کچھ یوں ہے: حضرت محمّدﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ۔ والدہ کی جانب سے نسب یہ یوں ہے: آمنہ بنتِ وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ۔ کلاب بن مرہ پر دونوں شجرے آپس میں مل جاتے ہیں۔
ولادتِ باسعادت
آپﷺ کی ولادت مشہور قول کے مطابق، ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو اُسی سال ہوئی، جس سال یمن کے بادشاہ نے ہاتھیوں کی فوج کے ساتھ بیتُ اللہ پر چڑھائی کی تھی۔ سیرت نگاروں نے تاریخِ پیدائش 2 ، 8 ا اور9 ربیع الاوّل بھی لکھی ہے۔ تاہم، اِس بات پر اتفاق ہے کہ آپﷺ کی ولادت پیر کے دن ہوئی۔بعض مؤرخین نے آپؐ کی ولادت 20 اپریل،571 ء ذکر کی ہے۔
والدین کریمین ؓکی وفات
والد ماجد، حضرت عبداللہؓ آپﷺ کی ولادت سے قبل مدینہ طیّبہ گئے ہوئے تھے، وہیں وفات پاگئے۔ آپﷺکی عُمر چار یا چھے برس تھی کہ مدینے سے واپسی پر ابواء کے مقام پر آپؐ کی والدہ بھی رحلت فرما گئیں۔والدین کی وفات کے بعد آپﷺ کی پرورش کی ذمّے داری دادا نے لے لی، لیکن جب آٹھ برس کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سَر سے اٹھ گیا۔
رضاعت و طفولیت
شرفائے عرب اپنے بچّوں کو دودھ پلانے کے لیے قرب و جوار کے دیہات میں بھیج دیا کرتے تھے، جس سے اُن کی نشوونما اور جسمانی صحت اچھی ہو جاتی اور خالص عربی زبان بھی سیکھ لیا کرتے۔ آپﷺ کو پیدائش کے بعد تین دن تک والدۂ محترمہ اور پھر چند دن چچا، ابو لہب کی باندی، ثوبیہ نے دودھ پلایا۔ اس کے بعد رواج کے مطابق، آپﷺ کو حضرت حلیمہ سعدیہ اپنے ساتھ اپنے قبیلے بنو سعد لے گئیں۔ اور وہاں آپﷺ نے اُن کا دودھ پیا۔
حلیۂ مبارک
آپﷺ نہایت ہی حَسین و جمیل تھے۔میانہ قد، سرخی مائل سفید رنگ، کندھے کُھلے ہوئے اور سینہ چوڑا تھا۔سَر کے بال کان کی لو تک لمبے اور سیاہ تھے۔سَر اور داڑھی میں کُل بیس بال سفید چمک دار تھے۔ چہرۂ مبارک چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔ بدن مبارک متناسب اور معتدل تھا۔خاموشی کے وقت رُعب اور جلال برستا، گفتگو کے وقت تازگی اور لطافت جھلکتی۔ جو شخص آپﷺکو دُور سے دیکھتا، تو پیکرِ حُسن و جمال سمجھتا اور جو قریب سے دیکھتا، راحت و شیرینی محسوس کرتا۔
گفتگو انتہائی میٹھی ہوتی۔ پیشانی کشادہ، ابرو باریک اور لمبی، لیکن درمیان سے ملی ہوئی نہیں تھیں۔ناک بلند، رُخسار نرم، دانت مبارک چمک دار اور کشادہ تھے۔دونوں کندھوں کے درمیان’’ مُہرِ نبوّت‘‘ تھی۔حضرت حسّان بن ثابتؓ کا یہ شعر آپﷺ کے حلیے کے عین مطابق ہے’’میری آنکھ نے آپﷺسے زیادہ خُوب صُورت انسان نہیں دیکھا اور دیکھتی بھی کیسے کہ کسی ماں نے آپﷺجیسا حَسین جنا ہی نہیں۔ آپﷺ ہر عیب سے پاک ہیں، گویا آپﷺ کو، آپﷺ کی مرضی کے مطابق بنایا گیا ہو۔‘‘
بے داغ جوانی
ایک ایسے ماحول میں جہاں شراب نوشی، بد گوئی، گالم گلوچ، ناچ گانا اور بُت پرستی عام تھی، اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ان سب برائیوں سے محفوظ رکھا۔ ایک بار آپ ﷺنے ایک شادی والے گھر کی محفل میں شرکت کا ارادہ کیا، جہاں محفلِ موسیقی جاری تھی۔یہ ارادہ کرنا تھا کہ اللہ ربّ العزّت نے آپﷺ پر نیند طاری کر دی۔
اُجرت پر بکریاں چَرانا
آپﷺ کا فرمان ہے کہ’’ کوئی نبیؑ ایسا نہیں، جس نے بکریاں نہ چَرائی ہوں۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا’’ یا رسول اللہؐ ! آپؐ نے بھی؟‘‘ فرمایا’’ ہاں، مَیں بھی اُجرت پر اہلِ مکّہ کی بکریاں چَراتا رہا ہوں۔‘‘ اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ داعی کو دعوت کے ساتھ خود محنت کر کے کمانا بھی چاہیے تاکہ داعی کی نظر کسی کی جیب کی طرف نہ ہو۔ وہ مالی طور پر کسی کا محتاج نہ ہو اور’’ اس دعوت پر میں تم سے مال کا طالب نہیں ہوں‘‘(القرآن) کا حقیقی مظہر ہو۔ یہی سبق آپﷺ کے تجارت کے لیے کیے جانے والے سفرِ شام سے بھی اخذ ہوتا ہے۔
پہلا سفرِ شام اور نبوّت کی پیش گوئی
عُمر مبارک بارہ سال ہوئی، تو آپﷺ نے اپنے چچا، ابو طالب کے ساتھ شام کا سفر کیا۔ راستے میں ایک راہب، بحیرا نے آپﷺ کو بعض علامات سے پہچان لیا اور آپؐ کا دستِ مبارک تھام کر کہا’’ یہ ربّ العالمین کے رسول ہیں۔ اللہ تعالی اِنھیں نبی بنا کر بھیجے گا تاکہ اہلِ عالَم کے لیے رحمت ہوں۔ جب آپﷺیہاں آئے، تو تمام درخت اور پتھر سر بسجود ہو گئے۔ درخت اور پتھر نبی کے علاوہ کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔‘‘ بحیرا نے ابو طالب سے کہا’’ اگر آپ اِنھیں شام لے جائیں گے، تو اندیشہ ہے کہ یہودی اِنھیں قتل کر دیں۔‘‘ لہذا، ابو طالب نے آپﷺ کو واپس مکّہ بھیج دیا۔
دوسرا سفرِ شام
کچھ عرصہ بعد آپﷺ مکّے کی ایک مال دار خاتون، حضرت خدیجہؓ کا مالِ تجارت لے کر شام گئے۔اُن کا غلام، میسرہ بھی ساتھ تھا۔ اِس مرتبہ جب حضورﷺ شام میں داخل ہوئے، تو ایک اور راہب، نسطورا نے بھی آپﷺ کے نبی ہونے کی پیش گوئی کی۔ میسرہ کے مطابق، اس سفر میں عجیب واقعات پیش آئے۔ جب سخت دھوپ ہوتی، تو بادل آنحضرتﷺپر سایہ کرلیتے۔
کعبے کی تعمیرِ نو اور آپؐ کو امین تسلیم کرنا
آپﷺ کی عُمر 35 سال تھی، جب قریش نے کعبے کی ازسرِ نو تعمیر کا فیصلہ کیا۔ تمام قبائل نے اِس کام میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔جب حجرِ اسود کو اپنی جگہ رکھنے کا وقت آیا، تو ہر قبیلہ اور ہر شخص یہ سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا، یہاں تک کہ قتل و قتال کے عہد و پیمان ہونے لگے، لیکن پھر چند سنجیدہ لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ صلح کی کوئی صُورت نکالی جائے۔
مشورے میں طے پایا کہ کل جو شخص سب سے پہلے حرم میں داخل ہوگا، وہی معاملے کا فیصلہ کرے گا۔اگلے دن سب سے پہلے آنحضرتﷺ حرم میں داخل ہوئے، تو سب نے بیک زبان کہا’’ بلا شبہ یہ امین ہیں، ہم ان کے فیصلے پر راضی ہیں۔‘‘ آپﷺ تشریف لائے اور ایسا حکیمانہ فیصلہ کیا کہ سب خوش ہو گئے۔ آپﷺنے چادر بچھائی اور حجرِ اسود کو اپنے ہاتھوں سے اُٹھا کر اس پر رکھا۔ پھر ہر قبیلے کا ایک ایک شخص بطور نمایندہ آیا اور سب نے مل کر چادر کو کونوں سے پکڑ کر اُٹھا لیا۔مقرّرہ مقام تک پہنچ کر رسول اللہﷺ نے اپنے ہاتھ سے حجرِ اسود کو اس کی جگہ نصب کیا۔
تذکرۂ ازواج
شام کے دوسرے سفر سے واپسی پر آپﷺ کا حضرت خدیجہؓ کے ساتھ نکاح ہوا۔وہ ایک مال دار اور عقل مند خاتون تھیں۔آپﷺ، اُن ہی کا مالِ تجارت لے کر شام گئے تھے اور واپسی پر جب اُنھیں آپﷺ کی شرافت و لیاقت کا علم ہوا، تو اپنی سہیلی، نفیسہ کے ذریعے نکاح کا پیغام بھیجا، جسے ﷺ نے قبول فرمایا۔ ابو طالب نے رؤسائے قریش کی موجودگی میں آپﷺ کا نکاح پڑھایا۔نکاح کے وقت آپ ﷺ کی عُمر مشہور روایات کے مطابق پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہؓ چالیس سال کی تھیں۔اُن کے آپﷺ کی زوجیت میں آنے سے پہلے بھی دو نکاح ہوئے تھے اور دونوں سے اولاد بھی تھی۔
نباش بن زرارہ سے دو، ہند اور ہالہ اور عتیق سے ایک بیٹی، اُس کا نام بھی ہند تھا۔ یہ تینوں بچّے مسلمان بھی ہوئے۔آپﷺ کی بھی صرف حضرت خدیجہؓ ہی سے اولاد ہوئی، سوائے ایک بیٹے کے۔آپﷺ کو اُن سے بے حد محبّت تھی اور اُن کی زندگی میں دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔ نبوّت کے دسویں سال جب حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا، تو آپﷺ نے اُسے’’ عام الحزن‘‘ یعنی’’ غم کا سال‘‘ قرار دیا۔ اُسی سال چچا، ابو طالب کا بھی انتقال ہوا تھا۔حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپﷺ نے حضرت سودہ بنتِ زمعہؓ سے نکاح فرمایا۔
نکاح کے وقت دونوں کی عُمر پچاس سال تھی۔حضرت سودہؓ نے اپنے پہلے خاوند کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، لیکن واپسی میں شوہر کا انتقال ہوگیا ۔حضرت سودہؓ نے 23 ہجری کو حضرت عُمرؓ کے دورِ خلافت میں وفات پائی۔ بعدازاں، آپﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے نکاح فرمایا، جو امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیٹی تھیں۔حضرت عائشہ آپﷺ کی وفات کے بعد اڑتالیس سال حیات رہیں۔ آپﷺ کا چوتھا نکاح حضرت حفصہؓ بنتِ امیرالمومنین عُمرؓ بن خطاب سے ہوا۔ وہ پہلے حضرت خنیس بن حذافہ السہمیؓ کے نکاح میں تھیں، جو غزوۂ بدر میں زخمی ہوئے اور بعدازاں انہی زخموں کی وجہ سے وفات پائی۔آپﷺ کا پانچواں نکاح حضرت زینبؓ بنتِ خزیمہ سے ہوا، جو کچھ ہی عرصے بعد انتقال کر گئیں۔
چھٹا نکاح حضرت اُمّ سلمہؓ سے ہوا۔وہ پہلے عبداللہ بن عبدالاسد کے نکاح میں تھیں۔ حضرت اُمّ سلمہؓ نے دونوں ہجرتیں فرمائیں۔62ہجری میں84سال کی عُمر میں انتقال فرمایا۔آپﷺ کا ساتواں نکاح حضرت زینبؓ بنتِ جحش سے ہوا، جو آپﷺ کی پھوپھی زاد تھیں۔وہ پہلے آپﷺ کے آزاد کردہ غلام اور متبنی، حضرت زیدؓ کے نکاح میں تھیں۔آپﷺ کا آٹھواں نکاح حضرت جویریہؓ بنتِ حارث سے ہوا۔اُن کا پہلا نکاح مسافع بن صفوان سے ہوا تھا، جو غزوۂ مریسع میں مارا گیا تھا۔ حضرت جویریہ قید ہو کر آئیں، تو اُن کے مالک، ثابت بن قیس نے کچھ پیسوں کے بدلے آزاد کرنا چاہا، آپﷺنے پیسے دے کر آزاد کروایا اور نکاح کر لیا۔
حضرت جویریہؓ قبیلہ بنو مصطلق کے سردار، حارث بن ابی ضرارہ کی بیٹی تھیں۔آپﷺ کا نواں نکاح حضرت اُمّ حبیبہؓ بنتِ ابی سفیانؓ سے ہوا۔اُن کا پہلا نکاح عبیداللہ بن جحش سے ہوا تھا۔ حضرت اُمّ حبیبہؓ اُس کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ گئیں، تو وہ وہاں مرتد ہو کر عیسائی ہو گیا اور کفر کی حالت میں فوت ہوا۔آپ ﷺنے وہیں شاہِ حبشہ کے پاس پیغامِ نکاح بھیجا اور شاہِ حبشہ نے خود نکاح پڑھایا۔ آپﷺ کادسواں نکاح حضرت صفیہؓ سے ہوا، جو یہودی قبیلے، بنو نظیر کے سردار، حیی بن اخطب کی بیٹی اور حضرت ہارون علیہ السّلام کی اولاد میں سے تھیں۔اُن کے آپ ﷺسے پہلے بھی دو نکاح ہوئے تھے۔ دوسرا شوہر غزوۂ خیبر میں مارا گیا اور حضرت صفیہ قید ہو کر آئیں۔ اسلام قبول کیا، تو آپﷺ نے آزاد کر کے نکاح فرما لیا۔آپﷺ کا گیارہواں نکاح حضرت میمونہ بنتِ حارثؓ سے ہوا۔اُن کے بھی پہلے دو نکاح ہو چُکے تھے۔ (جاری ہے)