اگست کے حوالے سے کئی کالم لکھ چکا ہوں۔ یار لوگوں نے پھر قائداعظم اور تحریک پاکستان کے حوالے سے کچھ ایسے سوالات داغ دیے ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے۔ ایک تاثر قائم کر دیا گیا ہے کہ پاکستان ہندوستان کے مسلمان اقلیتی صوبوں نے بنایا۔ اکثریتی صوبوں میں نہ اتنا جوش و خروش تھا اور نہ ہی مسلم لیگ کو حصول پاکستان کیلئے اتنی حمایت حاصل تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قیام پاکستان کیلئے اقلیتی صوبوں نے بے مثال اور تاریخی قربانیاں دیں۔ لیکن یہ فرض کر لینا کہ مسلمان اکثریتی صوبے سرگرم نہیں تھے اور ان کا قیام پاکستان میں کردار بہت کم تھا، صحیح نہیں ہے۔ ذرا تاریخ کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کیجئے اور تحقیقی آنکھ سے حقائق کو پڑھیے تو پتہ چلے گا کہ بے شک اقلیتی مسلمان صوبوں نے بہت ایثار کیا لیکن تحریک پاکستان میں اکثریتی مسلمان صوبوں کے عوام کا حصہ بھی اسی قدر قابل رشک تھا ورنہ پاکستان معرض وجود میں نہ آتا۔ آپ کو علم ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان کا پہلی بار مطالبہ 23مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقدہ اجلاس میں کیا تھا جس میں لندن ٹائمز کے مطابق ایک لاکھ لوگ موجود تھے۔ اس وقت کی آبادی کے مطابق یہ تعداد متاثر کن تھی اور اسکی اکثریت پنجاب سے آئی تھی۔ کیا اتنی بڑی تعداد جوش و جذبے کے بغیر آ گئی تھی۔ ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے حصول کا مطالبہ پہلی بار سندھ مسلم لیگ نے 1938ء میں کیا۔ قائداعظم کی ہدایت کے مطابق اس قرارداد پر غور کرنے اور تجاویز دینے کیلئے کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے 1939ء میں اپنی سفارشات پیش کیں۔ یہی سفارشات 1940ء کے اجلاس اور قرارداد کی بنیاد بنیں۔ کیا سندھ مسلمان اکثریتی صوبہ نہیں تھا؟ 1940ء کی قرارداد کے بعد 1947ء تک ہر سال لاہور میں ہفتہ پاکستان نہایت جوش و خروش سے منایا جاتا رہا۔ اسی جوش و خروش کی پیداوار وہ نعرہ تھا جسے سیالکوٹ کے پروفیسر اصغر سودائی نے اپنی نظم میں سمویا تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘۔ لاہور ہی میں 1941ء میں ہفتہ پاکستان کے موقع پر قائد اعظم نے کہا تھا کہ قرارداد پاکستان کسی Bargain (سودے بازی) کیلئے منظور نہیں ہوئی۔ حصول پاکستان ہمارے لئے زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ 1946-47ء کا سی آئی ڈی (پولیس) کا ریکارڈ پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے حق میں جتنے جلوس پنجاب اور لاہور میں نکالے گئے ان کے نصف بھی اقلیتی صوبوں میں نہیں نکلے۔ پنجاب کے مسلمان اکثریتی اضلاع میں 1947ء تک دن رات جلسے جلوسوں کا سلسلہ تواتر سے جاری رہا۔ اب ذرا دوسرے پہلو پہ نظر ڈالیں۔ پاکستان 1945-46ء کے انتخابات کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔ یہ انتخابات پاکستان کے نعرے پر لڑے گئے تھے۔ ذرا درج ذیل چارٹ پہ نگاہ ڈالیے اور فیصلہ کر لیجئے کہ کیا مسلمان اکثریتی صوبے اس تحریک میں سردمہر یا دوسروں سے پیچھے تھے۔ اقلیتی صوبوں کی حمایت اس لئے بے مثال تھی کہ اُن کو ہندو غلامی کا طوق نظر آ رہا تھا لیکن انہوں نے اپنے بھائیوں کے لئے ایثار کیا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اکثریتی صوبوں میں جوش و خروش یا پاکستان کے حصول کا جذبہ کم تھا۔
صوبہ مسلمانوں کیلئے مخصوص نشستیں مسلم لیگ کی کامیابی
1۔مدراس 28 28
2۔بمبئی 29 29
3۔بنگال 17 114
4۔یوپی 64 54
5۔پنجاب 84 75
6۔بہار 39 34
7۔آسام 34 31
8۔سرحد 38 17
9۔سندھ 33 27
10۔سی پی 14 13
11۔اڑیسہ 4 4
کل 482 429
بلاشبہ صوبہ سرحد میں خان برادران کی سربراہی میں کانگریس حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی لیکن ریفرنڈم میں رائے دہندگان کی اکثریت نے پاکستان کے حق میں ووٹ دے کر کفارہ ادا کر دیا۔ پنجاب میں مسلم لیگ اکثریتی پارٹی تھی لیکن انگریز گورنر گلینسی نے خضر حیات ٹوانہ کی حکومت بنوا دی جسے مسلم لیگ کی ایجی ٹیشن نے ناکام بنا دیا اور بالآخر خضر حیات کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس دور میں لیگی کارکنوں اور طلبہ نے جیلیں بھر دیں، بے تحاشا لاٹھیاں کھائیں اور جانوں کی قربانیاں دیں جو حصولِ پاکستان کے لئے ان کے جذبے اور جوش و خروش کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔ مرکزی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ نے سو فیصد نشستیں جیت کر ثابت کر دیا کہ حصولِ پاکستان مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ اور منزل ہے۔ تاج برطانیہ سے وفاداری کا طعنہ دینے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ 15اگست 1947ء کو قائد اعظم نے بحیثیت گورنر جنرل حلف اٹھاتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کے آئین سے وفاداری کا حلف لیا تھا۔ بعد ازاں 3ستمبر 1947ء کو حکومت ہند کے 1935ء کے ایکٹ کو Adapt (اختیار) کرتے ہوئے اس سے تاج برطانیہ کی وفاداری کے الفاظ نکال دیے گئے تھے۔ اسی گزٹ نوٹیفیکیشن میں گورنر جنرل اور گورنروں کی تنخواہیں بھی گھٹا دی گئی تھیں۔ رہا یہ سوال کہ قائد اعظم نے کس کے کہنے پر گورنر جنرل بننے کا فیصلہ کیا؟ یاد کیجئے کہ تقسیم ہند (3جون 47ء) کے منصوبے کی مسلم لیگ کونسل سے 9-10جون 47ء کو منظوری لیتے ہوئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ اب پاکستان بن گیا ہے اور میں سیاست سے ریٹائر ہونا چاہتا ہوں۔ اس پر کونسل کے اراکین نے قائد اعظم کی سربراہی پہ اصرار بھی کیا۔ قائد اعظم نے مائونٹ بیٹن کو اس وقت تک گورنر جنرل بننے کا عندیہ نہیں دیا جب تک مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے یہ فیصلہ صادر نہیں کر دیا۔ گویا یہ فیصلہ مسلم لیگ کا تھا۔ پاکستان کی نئی مملکت کی علیحدہ پہچان، قومی اتحاد اور ملکی مضبوطی کے لئے قائداعظم کا گورنر جنرل بننا ناگزیر تھا جو مشترکہ گورنر جنرل کے سبب خطرے میں پڑ جاتا۔ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے ایثار کی جتنی بھی تعریف کریں کم ہے لیکن اکثریتی صوبوں کے کردار کے حوالے سے احساس کمتری میں مبتلا ہونا تاریخی حقائق کے منافی ہے۔ قومی تحریکیں پوری قوم کی امانت ہوتی ہیں، قومی سوچ کی مظہر ہوتی ہیں، انہیں صوبوں میں تقسیم کرنا ان سے بے انصافی کے مترادف ہوتا ہے۔ قائد اعظم نے سب کو قومی دھارے میں لانے کی مخلصانہ کوششیں کیں لیکن جنہیں پاکستان کی مٹی میں دفن ہونا گوارہ نہیں، وہ قومی دھارے میں کیسے آتے؟ اس لئے نفرتوں کا الزام مسلم لیگ کی قیادت کو نہیں دیا جا سکتا۔ ان لوگوں نے خود ہی یہ دیواریں تعمیر کیں۔