مشتاق احمد یوسفی نے دور ِ ’’ضیا ‘‘کو دورِ
ِ’’ضیاع ‘‘قرار دیا ہے
ضیاع اور زیاں دو بالکل الگ الفاظ ہیں ، معنی کے لحاظ سے بھی اور اصل کے لحاظ سے بھی۔لیکن ا ن کے استعمال میں کبھی کبھی گڑ بڑ ہوجاتی ہے ضَیاع (ض پر زبر کے ساتھ) عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں: ضائع ہوجانے کی حالت، گم ہوجانے کی کیفیت، کھونے کا عمل، ضائع کرنے یا ضائع ہونے کا عمل۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ فلاں کام وقت کاضَیاع ہے یعنی اس سے وقت ضائع ہوگا، یہ کام بے فائدہ ہے۔لفظ ضیاع کا عربی میں مادّہ ’’ض ۔ی۔ ع‘‘ ہے اور اسی سے تضیع ہے۔ اسی لیے اردو میں تضیعِ اوقات کی ترکیب بھی مستعمل ہے اور اس کا مطلب ہے وقت کی بربادی ۔
یہ اور بات ہے کہ عربی کے لحاظ سے اس کے ہجے تضیع نہیں تضییع ہوں گے، گویا اس میں ’’ی‘‘ ایک بار (یعنی ت ض ی ع ) نہیں بلکہ دو بار(یعنی ت ض ی ی ع ) لکھی جائے گی ۔ لیکن یہ ان تصرفات میں سے ہے جو اردو والوں نے روا رکھے ہیں اور انھیں (اردو کی حد تک) درست مانا جاتا ہے، اگرچہ عربی کے لحاظ سے اس کے املا میں ایک بار ’’ی‘‘ لکھنا درست نہیں ہوگا۔
یہاں یہ وضاحت کردی جائے کہ ’’ضِیا‘‘ ایک اور لفظ ہے جس کا ضَیاع سے کوئی تعلق نہیں اور ضِیا (ض کے نیچے زیر) کے معنی ہیں روشنی ، اُجالا۔لفظ ضِیا چمک کے معنی میں بھی آتا ہے اور عربی میں اس کے آخر میں ہمزہ (ء)بھی ہے (یعنی ضِیاء) ۔البتہ اب اردو والوں نے جہاں کئی عربی الفاظ کے آخر سے ہمزہ (ء)کو خارج کردیا ہے (مثلاًاِغوا، اِنشا، اِیذا ، اِجرا،شُعرا، اُدبا، عُلما ، وغیرہ اب اردو میں بغیر ہمزہ ہی کے لکھے جاتے ہیں) وہاں ضِیاء میں بھی ہمزہ نہیں لکھا جاتا یعنی اسے ضِیا ء(ض ی ا ء) کی بجاے ضِیا(ض ی ا) لکھتے ہیں۔
لیکن اردو میں ضیا کا لفظ جب مرکبات میں آتا ہے تو اس کے بعد ہمزہ لکھا جاتا ہے مثلاً ضیاء الحق یا ضیاء القرآن تاکہ اس کا درست تلفظ ادا کیا جاسکے۔ کبھی کبھی ضیاع اور ضیا میں بھی التباس ہوجاتا ہے ۔البتہ مشتاق احمد یوسفی صاحب نے اپنی کتاب ’’آب ِ گم ‘‘ کے پیش لفظ میں ’’دور ِ ضیا‘‘ کو دانستہ اور طنزاً’’دورِ ضیاع ‘‘لکھا ہے ۔لیکن وہ ایسے مواقع پر اکثر واوین (یعنی inverted commas یا ’’۔۔۔‘‘ ) کا استعمال نہیں کرتے اور معصوم قاری ایسے مقامات سے بے خبر گزر جاتا ہے۔
عربی میں ضوء بھی روشنی کے معنی میں آتا ہے ، لیکن نور اور ضوء میں فرق ہے۔ ضوء کسی چیزکی ذاتی روشنی ہوتی ہے جیسے سورج کی روشنی مگر نور کسی سے مستعار لی ہوئی روشنی ہوتی ہے جیسے چاند کی روشنی۔ اردو میں ضوء کے املا سے بھی ہمزہ کو خارج کردیا گیا ہے اور اسے ضو لکھا جاتا ہے۔ اردو تراکیب میں بھی ضو کا املا بغیر ہمزہ کے کیا جاتا ہے ، مثلا ضو ریز (روشنی پھینکنے والا)، ضو فشاں(روشنی بکھیرنے والا)، ضو فشانی(روشنی بکھیرنے کا عمل)، ضو گستری(روشنی پھیلانے کا عمل)۔ اقبال نے کہا :
مہر کی ضو گستری شب کی سیہ پوشی میں ہے
جبکہ زِیاں فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں نقصان، گھاٹا، کمی، خسارہ۔غالب نے کہا :؎
فائدہ کیا ، سوچ آخر تو بھی دا نا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے جی کا زِیاں ہوجائے گا
اقبال کا مصرع ہے :
کیوں زِیاں کار بنوں سُود فراموش رہوں
زیاں کار یعنی نقصان کا کام کرنے والا۔ ناصر زیدی کا شعر یاد آگیاـ:
میں وہ تاجر ہوں جو کرتا ہے زِیاں کا بیوپار
مجھ کو تو راہزنِ دل بھی خریدار لگے
مختصراً یہ کہ ضَیاع عربی کا لفظ ہے اور ضائع ہونے کے معنی میں ہے۔ زِ یاں فارسی کالفظ ہے اور نقصان کے مفہوم میں ہے۔ ضیا عربی کا ایک اور لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں روشنی۔