پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف آج پابند سلاسل ہیں۔ اس تنہائی اور غربت کے عالم میں جب وہ اپنے ماضی کے جھرونکوں میں جھانکتے ہوں گے تو کتنے چہرے، اَن گنت واقعات ان کی نظروں کے سامنے آتے ہوں گے اسلام آباد شہر کی سڑکیں اور درو دیوار ان سے پوچھتے ہوں گے کہ وہ ہم سفر کہاں ہیں جو ان راستوں میں تمہارے ہم راہی ہوا کرتے تھے۔ سابق صدر سوچتے ہوں گے کہ آیا انہوں نے واپس آکر فاش غلطی کی ہے۔ یا یہ سب ”مکافات عمل“ ہے کیا میں ایسا صیاد ہوں جو خود اپنے دام میں آگیا ہو۔ سابق صدر سوچتے ہوں گے کہ وہ لوگ کہاں گئے جو ہمیشہ میرے پسینے پر اپنا خون بہانے کیلئے تیار رہتے تھے، میری مسکراہٹ پر مسکراتے اور ملول ہونے پررنجیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ جو کہا کرتے تھے کہ جمہوریت میرے دم سے ہے۔ مجھے جمہوریت کا سمبل قرار دیتے تھے بلکہ ان کے بیانات آج بھی ماضی کے اخبارات میں زندہ ہیں جن میں وہ مجھے وردی میں بھی سو بار صدر بنانے کا عہد کیا کرتے تھے۔ سابق صدر پرویز صاحب آپ ہی نہیں جانتے کہ وہ آپ کے شب و روز کے ساتھی کہاں گئے ہیں؟ سارا زمانہ تو جانتا ہے کہ وہ آج کل ملک میں جمہوریت کی بقا اور نشو و نما کے لئے الیکشن لڑنے میں معروف ہیں اور وہ سب آپ سے باقاعدہ معاہدہ کرکے جلا وطن ہو جانے لیڈر کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں آج کل انہیں وہ تمام خوبیاں مسلم لیگ (ن) کے رہنما میں نظر آرہی ہیں جو ماضی میں آپ کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ محترم امیر مقام جیسے آپ کے با اعتماد ساتھی (اگر آپ کو یاد ہوکہ آپ نے ایک بار انہیں پستول کے ذاتی تحفہ سے بھی نوازا تھا) ہونے کا فخر تھا آج وہ نواز شریف سے ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد ان کی تعریفوں میں زمین آسمان کے خلابے ملا رہا ہے ماروی میمن جو آپ کے مستعفی ہونے پر اشک بار ہوکر آپ سے عقیدت و محبت کا اظہار فرماتی تھیں آج کل یہی آنسو و محبت نواز شریف کی عقیدت میں بہائے جارہے ہیں آپ کے چہیتے رہنما چوہدری پرویز الٰہی جو آپ کو سو مرتبہ وردی میں بھی صدر بنانے پر بضد تھے اور آپ کا ارادہ تھا کہ آئندہ انہیں وزیراعظم پاکستان بنایا جائے آج کل گجرات میں چوہدری مختیار سے الیکشن لڑنے کی پرزور تیاریوں میں مصروف ہیں مسلم لیگ میں قائداعظم کے وفادار ساتھیوں کے بعد … جو بھی مسلم لیگیں بنتی گئیں وہ برسراقتدار ٹولہ کی ہم رقاب رہیں اور اقتدار بدلتے ہی دوسرے برسراقتدار ٹولے کی ہمنوا بنتی گئیں۔
آج سابق صدر مشرف کی واپسی پر مختلف سیاسی رہنما ایک ہی انداز میں الفاظ الٹ بدل کر تنقید کررہے ہیں نواز شریف کی مسلم لیگ کا رویہ اس سلسلے میں نہایت سخت ہے نواز شریف کا حالیہ بیان ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھ رعایت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ انہوں نے آئین کو توڑا جمہوریت کو پامال کیا۔ عوام کے حقوق غضب کئے اس سلسلے میں مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق اورماضی کے ہمارے انقلابی کامریڈ پرویز رشید کا بیان انتہائی جارحانہ ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھ عام انسانوں جیسا سلوک کیا جائے عدالت ان سے کوئی رعایت نہ برتے۔ اس سلسلے پیپلزپارٹی کا موقف نہایت واضح اور شفاق ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم ”انتقامی سیاست“ پر یقین نہیں رکھتے۔ اس کا ثبوت ذوالفقارعل بھٹو، بینظیر بھٹو ، آصف علی زرداری اپنے دور اقتدار میں دے چکے ہیں گذشتہ پانچ سالہ دور اقتدار میں پیپلزپارٹی نے کسی شخص کے خلاف سیاسی مقدمہ نہیں بنایا تھا۔ اس ضمن میں ماہر قانون،عالمی سطح کی وکیل عاصمہ جیلانی کا بیان نہایت مناسب ہے۔ آپ فرماتی ہیں ”کہ سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ عدالتیں ایسا رویہ اختیار کریں ”کہ قانونی تقاضوں کو ذرا سی ٹھیس نہ پہنچے“۔
میرا ذاتی خیال بھی یہی ہے کہ مشرف کیس سے سلسلے میں قانونی تقاضے ہر صورت مد نظر رکھے جائیں آج کی صورتحال میں بغاوت کا کیس چلانا قطعی مناسب نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوا تو پنڈورا بکس کھل جائے گا اس میں جنرل ، جج صاحبان، بیوروکریٹس، سیاسی رہنما اور بہت سے کئی لوگوں کے نام آئیں گے۔ ملک کی موجودہ مخدوش صورتحال کی وجہسے ایسا عمل مناسب نہیں۔ مجھے پھر سکندر اعظم اور پورس کا وہ واقعہ بھی یاد آرہا ہے جس میں ٹکسیلا کی فتح کے بعد جب سکندراعظم کے سامنے پورس کو قیدی کی حیثیت میں پیش کیا گیا تو سکندر اعظم نے ایک فاتح کی حیثیت سے پورس سے دریافت کیا کہ اب بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے پورس نے تاریخی جواب دیا تھا کہ ”جو سلوک بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں وہی سلوک میرے ساتھ کیا جائے“ اس جواب پرسکندر اعظم نے پورس کو رہا کردیا تھا۔ آج کی وطن عزیز کی ابتر اور خونچکاں صورتحال میں سب سے بہتر اقدام تو یہی ہیں۔ ملک کو دہشت گردی سے محفوظ رکھا جائے ملک کی اکثریت ، غریب آبادی کو زندہ رہنے کا حق دیا جائے اس ضمن مہنگائی کنٹرول کی جائے۔ بیماریوں پر قابو پایا جائے تعلیمی نظام اور اداروں کو فروغ دیا جائے۔ ملک میں بڑھتی ہوکر پشن کا سختی سے سدباب کیا جائے۔
آج کے دور کا بس یہی تقاضا ہے:
”سات صندوقوں میں بھر کے دفن کر دو نفرتیں“
آج انسان کو محبت کی ضرورت ہے، بہت۔