ارادہ تھا ایک علمی موضوع پہ لکھنے کا لیکن اخبارات کی ’’چیختی‘‘ سرخیوں نے توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔سیاست کو دیکھتے اور اس کی بے اصول ادائوں کا مشاہدہ کرتے پانچ دہائیاں گزر گئیں۔ مدت ہوئی کہ ایک بہت بڑے سیاست دان سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا۔ بوقت رخصت انہوں نے پوچھا کوئی مشورہ؟کوئی نصیحت؟میں نے عرض کیا اگر آپ اپنی سیاست کو اخلاقی اصولوں کے تابع رکھیں توآپ کو منفرد مقام حاصل ہو سکتاہے ورنہ ہماری بے اصول سیاست کی دلدل آپ کو بھی ’’کیچڑ آلود‘‘ کر دے گی۔ قائد اعظم کی سیاسی زندگی اور عظمت کردار کا راز’’اصول پرستی‘‘ میں پنہاں ہے۔ قائداعظم ثانی کہلانے یا نعرے لگوانے سے کوئی قائداعظم ثانی نہیں بنتا۔اگر آپ سیاسی مفادات کےلئے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کریں تو تاریخ آپ کو قائداعظم ثانی کا خطاب نعروں کے بغیر عطا کر دے گی۔افسوس کہ وہ صاحب جب برسراقتدار آئے تو انہوں نے بھی اصولوں کو اسی طرح پامال کیا جس طرح ان کے پیشرو کرتے رہے تھے۔اخباری سرخیاں اور تصاویر اعلان کر رہی ہیں کہ کل محترم شہباز شریف،زرداری صاحب کے گھر ان کی ’’عیادت‘‘ بروزن زیارت کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ان ملاقاتوں اور حکومت مخالف اتحاد کی کوششوں سے کیا برآمد ہو گا یہ تو وقت بتائے گا اور ’’ہم بھی دیکھیں گے‘‘ لیکن ان کی بلاول ہائوس آمد کی بولتی تصویریں دیکھ کر مجھے ان کی وہ تقاریر اور مائیک توڑنے کی تصاویر یاد آ گئیں جن میں انہوں نے بار بار مُکا ہوا میں لہراتے ہوئے اعلانات کئے تھے بلکہ قوم سے وعدے کئے تھے کہ ’’برسراقتدار آ کر اگر میں نے زرداری جیسے چوروں کو گلیوں میں نہ گھسیٹا اور ان کے پیٹ چاک کرکے لوٹی ہوئی دولت نہ نکالی تو میرا نام شہباز نہیں‘‘۔ اقتدار کے حصول کے بعد قوم سے کئے گئے وعدوں کو جس طرح فراموش کیا جاتا رہا، وہ ہماری قومی تاریخ کا ایسا المیہ ہے جس کے ہم عادی ہوگئے ہیں۔اس لئے ہمیں شہباز شریف صاحب سے نہ کوئی گلہ ہے نہ شکایت، گلہ ہے تو اپنے مقدر سے کہ گزشتہ چھ دہائیوں سے ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ہم کس طرح مسلسل تنزل کی منزلیں طے کرتے رہے ہیں۔ بے اصول،بے ایمان اور کرپٹ سیاست نے سارے قومی ادارے ایک ایک کرکے تباہ وبرباد کرکے رکھ دیئے ہیں۔آج قومی سطح پر ایک ادارہ بھی مضبوط اور کارکردگی دکھانے کا اہل نہیں رہا، سوائےفوج کے، فوج میں بھی دراڑیں ڈالنے اور راستے بنانے کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن مضبوط عسکری نظام کے سبب ناکامی ان کا مقدر ٹھہری، البتہ مجھے شہباز شریف سے صرف ایک گلہ ہے اور وہ گلہ بھی ایک مہربان سابق دوست سے ہے کہ زرداری صاحب کے گھٹنے چھونے سے پہلے کم از کم وہ بش شرٹ ہی بدل لی ہوتی جسے پہن کر آپ نے زرداری صاحب کو گریبان سے پکڑ کر گلیوں میں گھسیٹنے کا وعدہ کیا تھا۔ جس دن انہوں نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلانات کئے اور مائیک توڑا، اس روز بھی انہوں نے یہی بش شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ میں علامتی بات کر رہا ہوں امید کہ آپ سمجھ جائیں گے۔ان شعلہ بیانیوں کے کچھ عرصہ بعد شہباز شریف صاحب سے اتفاقاً ملاقات ہو گئی تو میں نے عرض کیا کہ جناب اعلیٰ،آخر زرداری صاحب پاکستان کے صدر ہیں اس طرح انداز بیاں مناسب نہیں۔مسکرا کر کہا ’’بڑے میاں صاحب بھی منع کرتے ہیں ‘‘ بڑے میاں صاحب سے مراد میاں محمد نواز شریف تھے۔ میاں شہباز شریف سے یہ میری آخری ملاقات تھی، زرداری صاحب سے ملاقات کے بعد شہباز شریف صاحب کے لئے نام بولنا مجبوری ہے ۔زرداری صاحب سے ہی نیا نام پوچھ لیں ،سیاست اس کو کہتے ہیں کہ اب ایک اندازے کے مطابق وہ بڑے میاں صاحب کی منظوری سے ہی بلاول ہائوس گئے ہیں ایسی ہی صورتحال کو غالب نے اس شعر میں بیان کیا تھا ۔
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویران کئے ہوئے
لیکن میرے مہربان بزرگ دوست شورش کاشمیری مرحوم نے پاکستانی سیاست کی بے اصول خودغرضی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے ۔
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
نہ جانے کن ملکوں کی سیاست عبادت اور خدمت کہلاتی ہے۔ہماری سیاست کو تو بجا طور پر شورش کاشمیری ’’طوائف‘‘ سے تشبیہ دیتے ہیں ۔بجا طور پر اس لئے کہ گزشتہ چھ دہائیوں سے حکمران مسلسل اس طوائف کا بدن نوچتے اور اپنے حصے کا گوشت اتارتے رہے ہیں حتیٰ کہ اب بھی اس کی ہڈیوں سے گُودا نکالا جا رہا ہے ۔اگر آپ کو میرے بیانیےپر اعتراض ہے تو براہ کرم چینی مافیا، آٹا مافیا، پٹرول مافیا اور دوسرے ’’مافیاز‘‘ کی لوٹ مار کا گہری نظر سے مطالعہ کریں اور غور کریں کہ آپ کو غریب کس نے کیا ہے ؟ آپ کی جیبوں پر ڈاکے ڈالے ہیں چینی مافیا جس نے چینی ستر روپے سے ایک سو پانچ روپے فی کلو کر دی ہے، آٹا مافیا جس نے آٹا آٹھ سو روپے سے سترہ سو روپے کر دیا تھا، پٹرول مافیا جو پٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کرکے چار پانچ گنا قیمت پر پٹرول بیچتا رہا۔اب تو مجھے وزراء کے بیانات سے خوف آنے لگا ہے ۔جس روز پنجاب کے وزیر خوراک نے بیان دیا کہ آٹا آٹھ سو روپے تھیلا مل رہا ہے میں اسی روز آٹا خریدنے نکلا تو مارکیٹ میں یہ جنس ناپید تھی اور مجبوراً سترہ سو روپے میں خریدنا پڑا۔جس روز وفاقی وزیر بجلی بیان ’’عطا‘‘ فرمائیں کہ بجلی ضرورت سے زیادہ پیدا کر لی ہے اسی روز چار پانچ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ مصیبت بن کر نازل ہوتی ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق موجودہ حکومت ہماری تاریخ کی واحد حکومت ہے جس کے دو سالہ دور حکومت میں ضروری اشیاء کی قلت بار بار سر اٹھاتی رہی ہے۔اسی کو نالائق گورننس کہتے ہیں۔ ایسی گورننس کا سب سے بڑا تحفہ مہنگائی ہوتا ہے جس کی چکی میں قوم پس رہی ہے ۔یہی چیخیں سن کر شہباز شریف صاحب زرداری صاحب کو یقین دہانی کرانے گئے ہیں کہ وہ آئندہ ایسے بیانات دیں گے نہ ایسے ارادے قریب پھٹکنے دیں گے۔ادھر چیف جسٹس صاحب کے ان الفاظ نے نالائقی پر مہرثبت کر دی ہے کہ ’’حکومت میں ملک چلانے کی صلاحیت ہے نہ قابلیت‘‘ میری کیا مجال کہ میں چیف جسٹس صاحب سے اختلاف کروں، اور اختلاف بھی ان الفاظ سے جو قوم کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔