محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ: طاہر حبیب
پارلیمانی یا صدارتی، ان دونوں میں سے کس نظام کاانتخاب کیا جائے ۔اس چیز کا تما م تردارومدار ہر ملک کے اپنے حالات، اپنی تاریخ اور اپنے منتخب کردہ سیاسی نظام سے وابستہ توقعات پر ہوتا ہے۔
دنیا کے بعض ملکوں میں صدارتی نظام کے اچھے نتائج مرتب ہوئے ہیں لیکن یہ اسی لیے ہوپایا کہ صدارتی نظام وہاں کے حالات کے لحاظ سے زیادہ موزوں تھا۔اس نظام کے منتخب کرنے کے بعد اگر اس کی کمزوریاں سامنے آئیں توان ملکوں نے ان کا علاج تلاش کرنے کی بھی کوشش کی۔اسی طرح پارلیمانی نظام جہاں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے وہاں یہ ان ملکوں کے سماجی اور تاریخی ارتقا سے مطابقت رکھتا ہے،پاکستان کے لیے صدارتی نظام اس لیے سود مند نہیں ہے کہ پاکستان ایسا وفاق ہے جس کے چار صوبوں میں سے ایک صوبہ آبادی کے لحاظ سے باقی تین صوبوں سے بڑا ہے
ڈاکٹر سید جعفر احمد
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ صدارتی نظام نے عوامی جمہوریہ پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جن میں سانحہ مشرقی پاکستان، علاقائی تعصبات کا فروغ۔
پس ماندہ علاقوں کے باشندوں کی محرومیوں میں اضافہ، اقتدار کا چند ہاتھوں میں مرتکز ہونا۔ فیصلے عوامی خواہشات کے برخلاف، ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کیا جانا اور مجموعی طور پر ملک میں سیاسی عمل کو کافی حد تک نقصان پہنچانا شامل ہے،جب حکمراں عوام کو مطمئن کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو جاتے ہیں اور عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر وہ عوامی جواب دہی سے بچنے کے لئے اس طرح کی کوشش شروع کر دیتے ہیں کہ ملک میں صدارتی نظام قائم کیا جائے تاکہ عوام کو جواب دہ نہ ہوں
خالد جاوید ایڈووکیٹ
تمام سیاسی قوتوں کا اجماع ہے کہ یہاں پارلیمانی جمہوریت ہی ہوگی، پاکستان کے عوام کی دانش پر اعتماد کا وقت آگیا ہے ۔ اسے پارلیمانی نظام کے ساتھ ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہوگا ۔
تاہم اس نظام میں سیاسی جماعتوں کو جمہوری بننا ہو گا ،اپنے پارلیمانی نظام میں بہتری کے لئے ہم جرمنی کے نظام سے سیکھ سکتے ہیں جہاں براہ راست حلقوں کے ساتھ ساتھ آپ اپنی پسند کی سیاسی جماعت کو بھی باقاعدہ ووٹ دیتے ہیں اور پھر اس بنیا د ہر کئی ٹیکنو کریٹ اور کم وسائل والے طبقات ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں جو کہ حلقوں کی سیاست میں مہارتوں کی رہ جانے والی کمی کو پورا کر دیتے ہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان کو آئے رو ز سیاسی نظاموں کی تجربہ گاہ بنائے رکھنے کی بجائے اپنے نظام کو موقع دیں اور جہاں جہاں اس کی خامیاں نظر آئیں ان میں اصلاحات کریں کیونکہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کی کمزوریوں کا علاج مزید جمہوریت میں ہے نہ کہ نت نئے تجربات میں
ظفر اللہ خان
ہماری سیاسی تاریخ کا زیادہ تر دامن ویسے تو قابل فخر امتیازات سے خالی ہے مگر کہیں کہیں ایسے پڑائو بھی آتے ہیں جن پر ہم ناز کرسکتے ہیں اور انہیں اپنی سیاسی تاریخ کا روشن باب قرار دے سکتے ہیں، ان میں پہلی قابل ذکر بات ایک دستوری نظام کیلیے کی جانےوالی کاوشیں ہیں۔ 10 اگست ہماری پارلیمینٹ کا جنم دن ہے۔ اس دن س سندھ اسمبلی کی تاریخی عمارت میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا۔ نواب زادہ لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین نے اسمبلی کے عبوری صدر کے طور پر جوگندر ناتھ منڈل کا نام تجویز کیا۔ جس کے بعد اراکینِ اسمبلی نے رجسٹر پر دستخط کیے، بانی پاکستان قائدِ اعظم نے اس رجسٹر پر جوگندر ناتھ منڈل کے بعد دستخط کیے۔ 11اگست 1947کو اسمبلی میں قائدِ اعظم کو باضابطہ صدر منتخب کیا۔ قائدِ اعظم نے 15اگست 1947 کو گورنر جنرل اور لیاقت علی خان نے وزیرِاعظم کے عہدے کا حلف لیا۔ پاکستان کے پارلیمانی بانیان کی کہانی ابتدا ہی سے آزمایش کا شکار رہی۔ قائدِ اعظم کی 11اگست 1947 کی تاریخی تقریر تحریف اور ترمیم کا نشانہ بنی۔ اس تقریر کا آڈیو ریکارڈ غائب کردیا گیا، ابتدائی اراکین کا دستخط شدہ رجسٹر بھی موجود نہیں ہے۔23مارچ 1956 وہ یادگار تاریخی دن ہے جب پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کا اتفاق کردہ دستور نافذ ہوا مشرقی و مغربی پاکستان نے اپنے لیے پارلیمانی نظام پر اتفاق کیا اگرچہ اس آئین کے تحت صرف ایک ہی ایوان رکھا گیا تھا اور ایوان بالا کی اس میں گنجائش نہیں تھی جو وفاقی پارلیمانی نظام کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے مگر اس نے پاکستان کے دونوں حصوں کو مربوط رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ مگر یہ صرف دوسال ہی چل سکا۔ 1958 میں اس کی بساط لپیٹ دی گئی۔ اس کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ کی کتاب میں وہ صفحات آتے ہیں جو کبھی دل چسپی سے پڑھے نہیں گئے۔ لہٰذا ان کا ٓتذکرہ بے سود ہے۔ ہاں 1956 جیسا اتفاق رائے 1973میں بھی دیکھنا نصیب ہوا۔
10اپریل کو قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایک نیا آئین منظور کرلیا جو 14اگست 1973 کو نافذ ہوگیا۔ ملک میں جمہوریت کو نئی زندگی نصیب ہوئی قوموں کی صف میں ہمیں ایک باوقار قوم کی حیثیت ملی، آمریت کے دھبے جمہوریت کی بارش میں دھل گئے۔ 10اپریل سے 14اگست کے درمیانی حصے میں پاکستان میں پہلی بار ایوان بالا (سینیٹ) کی تشکیل ہوئی جو نئے آئین کے نفاذ سے قبل لازمی تھی۔ 06اگست 1973 سینیٹ کا یوم تاسیس ہے، سینٹ ہی وہ ادارہ ہے جس میں تمام صوبوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہے یعنی کسی صوبے کو کسی دوسرے صوبے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے، یہی پارلیمانی نظام کا حسن ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں تمام فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں، پاکستان کے تمام صوبے مل کر بھی بڑے صوبے کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ سینیٹ ہی وہ واحد مقام ہے جہاں شیر بھی بکریوں کے مماثل ہو جاتا ہے۔ چناں چہ اس پارلیمانی نظام کے تحت صوبے اپنے مفادات کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ وفاق کے استحکام کے لیے پارلیمانی نظام ہی موزوں ترین ہے کیوں کہ تمام وفاقی اکائیاں (صوبے) اس نظام میں مطمئن رہتے ہیں لیکن پتا نہیں کیوں ملک میں اکثر و بیشتر صدارتی نظام کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں جب کبھی یہ آوازیں سنائی دیتی ہیں چھوٹے صوبوں کو گمان ہونے لگتا ہے کہ یہ ان کے حقوق سلب کرنے اور ان پر اکثریتی صوبے کو مسلط کرنے کی سازش ہو رہی ہے، آج کل بھی کچھ حلقے صدارتی نظام کے حق میں دلائل کے انبار لگا رہے ہیں لیکن اہل وطن صدارتی نظام کی خوبیوں اور خامیوں سے اچھی طرح واقف ہیں انہیں علم ہے کہ صدارتی نظام ملک کی سالمیت اور استحکام کا ضامن نہیں، اگر ایسا ہوتا تو ملک کبھی نہ ٹوٹتا۔ پارلیمانی نظام میں وفاقی اکائیوں کو احساس محرومی کا شکوہ نہیں رہتا۔ ان کے پاس سینیٹ کی شکل میں ایک ایسا پلیٹ فارم موجود ہے جہاں وہ اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کر سکتے ہیں۔ صدارتی نظام صوبوں کو ایک بندگلی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ پارلیمانی نظام ملک کے لیے کیوں ضروری ہے۔؟ اس کی خوبیاں کیا ہیں؟ ملک کو اس کے ذریعے استحکام کیوں کر حاصل ہوتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد پارلیمانی نظام کس حد تک مضبوط ہوا ہے؟ صدارتی نظام نے ملک کو کیا نقصان پہنچایا، پارلیمانی نظام کے تحت ہمیں کیا فوائد حاصل ہوئے ہیں یا پارلیمانی نظام کو کیا خطرات لاحق ہیں؟ یہ سب جاننے کے لیے جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسیات، قانون اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین ڈاکٹر سید جعفر احمد، ڈائریکٹر ، انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ،کراچی، خالد جاوید ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، سابق صدر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پارلیمانی ریسرچ گروپ کے کنوینیر ظفر اللہ خان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جنگ فورم کی رپورٹ قارئین کی نذر کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر سید جعفر احمد
ڈائریکٹر ، انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ،کراچی
پاکستان میں پارلیمانی یا صدارتی نظام کی بحث ملک کے قیام کے بعد سے ہی شروع ہوگئی تھی۔1973ء کے آئین نے ماضی کے تجربات اور اُس وقت تک کے بحث و مباحثے کے بعد اور تمام قومی سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے کے نتیجے میں پارلیمانی نظام کے حق میں فیصلہ دے کر اس بحث کو ختم کردیا تھا مگریہ بحث بعض حلقوں کی جانب سے بار بار شروع کردی جاتی ہے۔پارلیمانی نظام کی جو صورت ہمارے یہاں موجود ہے اُس کی بعض خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس نظام کی ناکامی اور اس کے بدلے صدارتی نظام کے قیام کی وکالت کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بنیادی بات تو یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ اصولی طور پر پارلیمانی اور صدارتی نظام دونوں جمہوری نظام ہیں اور کیونکہ یہ دونوں نظام انسانوں کے بنائے ہوئے نظام ہیںلہٰذا ان میں کمزوریاں اور خامیاں بھی پائی جاتی ہیں اور دونوں طرزکے نظاموں میں اس بات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ درپیش خامیوں اور کمزوریوں کا علاج نظام میں رہتے ہوئے ہی کر دیا جائے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے کس نظام کاانتخاب کیا جائے۔ اس چیز کا تما م تردارومدار ہر ملک کے اپنے حالات ،اپنی تاریخ اور اپنے منتخب کردہ سیاسی نظام سے وابستہ توقعات پر ہوتا ہے۔دنیا کے بعض ملکوں میں صدارتی نظام کے اچھے نتائج مرتب ہوئے ہیں لیکن یہ اسی لیے ہوپایا کہ صدارتی نظام وہاں کے حالات کے لحاظ سے زیادہ موزوں تھا۔اس نظام کے منتخب کرنے کے بعد اگر اس کی کمزوریاں سامنے آئیں توان ملکوں نے ان کا علاج تلاش کرنے کی بھی کوشش کی۔اسی طرح پارلیمانی نظام جہاں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے وہاں یہ ان ملکوں کے سماجی اور تاریخی ارتقا سے مطابقت رکھتا ہے۔ان ملکوں میں پارلیمانی نظام کی کمزوریاں اور خامیاں اس کے روبہ کا رہنے کے دوران سامنے آئیں یا اب بھی آتی ہیں تو ان کا تدارک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پاکستان میں نو سال کے طویل بحث ومباحثے کے بعد پارلیمانی نظام کو اختیار کرتے ہوئے 1956ء کا دستور بنایا گیا تھا ۔بدقسمتی سے ڈھائی سال بعد جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے اس دستور کو منسوخ کردیاکیونکہ یہ اُن کے مفادات اور ارادوں کی راہ میں حائل تھا۔دونوں کا خیال تھا کہ ملک میں صدارتی نظام نافذ کیا جانا چاہیے۔اسکندر مرزا مارشل لاء کے نفاذ کے صرف بیس دن بعد ایوب خان کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوئے اور ملک بدر کردیے گئے۔چار سال بعد ایوب خان نے صدارتی طرز کا آئین نافذ کیاجس کی ملک کی کم و بیش تمام ہی سیاسی جماعتوں نے مزاحمت کی۔1965ء کے انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میںحزب اختلاف کی انتخابی مہم کا بنیادی نقطہ ہی پارلیمانی نظام کی بحالی تھا۔1970ء کے انتخابات ایک نئے دستور اور پارلیمانی نظام کے قیام کے لیے ہی منعقد کیے گئے تھے لیکن مشرقی پاکستان کے بحران نے اس منزل تک نہیں پہنچنے دیااور پاکستان ٹوٹ گیا۔1973ء کا آئین جو قومی اتفاق رائے کا مظہر تھا،پارلیمانی نظام ہی کا حامل تھا اور توقعات تھیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نظام کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے گا لیکن 1973ء کے بعد دو مرتبہ 1977ء اور 1999ء میں فوجی حکومتوں کے قیام کے بعد آئین میں ترمیم کرکے اس کو صدارتی طرز کا بنادیا گیا۔جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے اور جنرل مشرف کے دور میں سترہویں ترمیم کے ذریعے یہ کام کیا گیا تاہم 2010ء میں اٹھارویںآئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمانی نظام ایک مرتبہ پھر بحال کردیا گیا۔پاکستان کے تناظر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شدید تر مرکزیت کے حامل سیاسی حلقے اور ماضی کے چاروں فوجی حکمرانوں نے صدارتی طرز حکومت ہی کو پسند کیا۔اب بھی وہ لوگ اس نظام کی زیادہ وکالت کررہے ہیں جو مرکزیت پسندی کے علمبردار ہیں۔ان میں وہ ٹیکنوکریٹ بھی شامل ہیں ،خاص طور سے وہ جو مشرف کی حکومت کے زمانے میں ان سے قریب تھے۔
پاکستان کے لیے صدارتی نظام اس لیے سود مند نہیں ہے کہ پاکستان ایسا وفاق ہے جس کے ذریعے چار صوبوں میں سے ایک صوبہ آبادی کے لحاظ سے باقی تین صوبوں سے بڑا ہے ۔منطقی طور پر اس بات امکان غالب ہے کہ بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والی قیادت ہی صدارتی نظام کے ذریعے برسر اقتدار آئے گی۔ دوسری بات یہ کہ صدارتی نظام میں کیونکہ انتظامیہ نہ تو مقننہ سے منتخب ہوتی ہے (صدر اور اس کی کابینہ کے وزراء مقننہ کے رکن نہیں ہوتے) اور نہ ہی وہ اپنی بقااور تسلسل کے لیے مقننہ کے مرہون منت ہوتے ہیں لہٰذا صدر ایک بار منتخب ہونے کے بعد ایک خاص مدت تک صدر رہتا ہے اور اس مدت کی تکمیل کے بعد ہی اگلے انتخاب کے موقع پر عوام کے سامنے پیش ہوتا ہے ۔اس کے برعکس پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم اور اس کی کابینہ لازمی طور پر مقننہ سے مشتق ہوتے ہیں اور صرف اس وقت تک اپنے منصب پر فائز رہتے ہیں جب تک کہ ان کو مقننہ کاا عتماد حاصل ہوتا ہے۔اس خوبی کی وجہ سے پارلیمانی نظام ’جوابدہ حکومت کا نظام‘ کہلاتا ہے۔پاکستان میں اول تو ہمارے حالات صدارتی نظام کے لیے موزوں نہیں ،دوئم ماضی میں جو صدارتی نظام کے تجربات ہوئے وہ بہت تلخ ثابت ہوئے خاص طور سے چھوٹے صوبے صدارتی نظام میں ،پارلیمانی نظام کے مقابلے میں زیادہ احساس محرومی کا شکار ہوئے ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا تو ایک بڑا سبب ایوب خان کا صدارتی نظام ہی تھا۔1958ء کے مارشل لا ء سے قبل ملک میں گیارہ سال تک جو پارلیمانی نظام جاری رہا وہ گوکہ بہت بااختیار نظام نہیں تھا اور پہلے گورنر جنرل اور پھر صدر)اسکندر مرزا) نے پارلیمانی نظام کو برائے نام ہی پارلیمانی رہنے دیا تھا ۔اس کے باوجود اس عرصے میں سات میں سے تین وزرائے اعظم خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ اور حسین شہید سہروردی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے اور سیاسی سطح پریوں مشرقی پاکستان کی کسی نہ کسی حد تک تشفی ہوجاتی تھی۔ایوب خان کے دس سال اور جنرل یحییٰ خان کے تین برسوں نے مشرقی پاکستان کو شدید قسم کے احساس محرومی سے دوچار کیا۔
ہمارے موجودہ پارلیمانی نظام میں یقینا خامیاں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے نظام کو تج دیں اور ایک مرتبہ پھر صدارتی نظام کا تجربہ کرنے بیٹھ جائیں۔اس وقت ہمارے نظام میں جو خامیاں نظر آرہی ہیں ان میں سرفہرست سیاسی جماعتوں کی کمزوری ،ا ن کے اندر جمہوریت کا فقدان،انتخابی ٹکٹ دیتے وقت میرٹ کے بجائے ذات، برادری اور سب سے بڑھ کر پیسے کی ریل پیل کا عمل دخل سرفہرست ہیں۔ ان تما م خرابیوں کا علاج ترقی یافتہ پارلیمانی نظاموں میں تلاش کیا جاچکا ہے اور اب وہاں انتخابات کہیں زیادہ شفاف ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمانی نظام کی جو کمزوریاں اب تک ہمارے سامنے آئی ہیں ان کو دور کیا جائے او راس طرح کی تحدیدات(checks)وضع کی جائیں جو نظام کو بہتر بنانے کا ذریعہ ثابت ہوں۔ماضی میں فلور کراسنگ کے خلاف آئینی شقیں شامل کی جاچکی ہیں ۔پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ بھی کئی پابندیوں کو متعارف کرچکا ہے ۔اسی طرح کے اور بہت سے اقدامات اس نظام کو بہتر بناسکتے ہیں۔
خالد جاوید ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ
سابق صدر، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن
پاکستان کے قیام کی بنیاد قرارداد پاکستان 1940 ہے جس میں مختلف اکائیوں یعنی ریاستوں کا ذکر کیا گیاتھا، جو کہ مسلم کثریتی علاقوں پر مشتمل ہونا تھا۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد، پاکستان جن صوبوں پر مشتمل تھا ان میں مشرقی پاکستان، سندھ، پنجاب اور شمال مغربی صوبہ، بعد میں صوبہ بلوچستان 1970 میں بنایا گیا۔ پاکستان کے ابتدائی دور میں پارلیمانی نظام حکومت متعارف کرایا گیا اور لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم مقرر ہوئے۔ پارلیمانی نظام اس وقت تک چلتا رہا جب جنرل اسکندر مرزا نے جمہوریت کی بساط اُلٹ دی اور چند روز بعد جنرل ایوب خان نے عنان اقتدار سنبھال لیا جو آمرانہ شخصی حکومت کہی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان کے عوام مزاجاً پارلیمانی حکومت کے حق میں تھے۔ چناں چہ ملک کو صدارتی نظام سے شدید نقصان پہنچنے کے بعد جس میں سقوط ڈھاکا بھی شامل ہے بالاخر 1973 میں ایک متفقہ آئین پاکستان کی پارلیمینٹ نے منظور کیا جس میں ایک بار پھر پارلیمانی نظام حکومت کو متعارف کرایا گیا، پارلیمانی نظام حکومت میں بنیادی عنصر یہ ہے کہ عوام کے نمائندوں کی حکومت ہوتی ہے اور عوام کو رائے دینے کا مکمل حق ملتا ہے۔ جو کہ صدارتی نظام میں اس طرح نظر نہیں آتا۔ ہمارے ملک میں ایک طویل عرصہ تک صدارتی نظام نافذ کیا گیا لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ صدارتی نظام نے عوامی جمہوریہ پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جن میں سانحہ مشرقی پاکستان، علاقائی تعصبات کا فروغ۔ پس ماندہ علاقوں کے باشندوں کی محرومیوں میں اضافہ، اقتدار کا چند ہاتھوں میں مرتکز ہونا۔ فیصلے عوامی خواہشات کے برخلاف، ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کیا جانا اور مجموعی طور پر ملک میں سیاسی عمل کو کافی حد تک نقصان پہنچانا شامل ہے۔ پارلیمانی ناظام حکومت کو جہاں جمہوری نام دیا جاتا ہے وہاں اس کو عوامی راج کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ عوام براہ راست اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کا حق ہے جس کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایک بات بڑی اہم ہے کہ پاکستان کی آبادی مختلف علاقائی اقوام پر مشتمل ہے۔ جن کی اپنے اقدار ہیں ان کی اپنی روایات ہیں۔ جن کو کسی صورت پس پشت نہیں ڈالنا چاہتے۔ پارلیمانی ناظام میں ہر علاقے کے لوگوں کی آواز سنا جاتا ہے اور ان کو مناسب نمائندگی کا حق دیا جاتا ہے جو کہ صدارتی نظام میں ناپید ہے۔ پارلیمانی نظام میں ایک اور اہم عنصر صوبوں کی مساوی نمائندگی ہے۔ جو ایوان بالا (سینیٹ) کی شکل میں آئین فراہم کرتا ہے۔ قومی اسمبلی میں آبادی کے لحاظ سے نشستیں مختص کی گئی ہیں جب کہ سینیٹ میں تمام صوبوں کو مساوی نمائندگی دینے کی غرض سے سینیٹ کے اراکین کی تعداد یکساں ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ آبادی یا کم آبادی مساوی نمائندگی پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ یہ نا صرف پارلیمانی نظام کا حسن ہے بلکہ اس بات کی ضمانت بھی ہے کہ کسی صوبے کی کم آبادی کی بنیاد پر حق تلفی نہ ہو اور مزید یہ کہ پاکستان میں آبادی کی وجہ سے معروضی حالات کے پیش نظر کوئی ایک اکثریتی صوبہ کم آبادی والے صوبے کی حق تلفی نہ کر سکے۔ ایک اور اہم بات پارلیمانی نظام کی وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا انتخاب ہے جو کہ اسمبلیوں کے ممبران کرتے ہیں جو براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ پھر یہ کہ منتخب وزیراعظم اور منتخب وزرائے اعلیٰ پارلیمان کو جواب دہ ہوتے ہیں یا اور پارلیمان کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ وہ آئینی طریق کار کو اپناتے ہوئے عہدے سے معزول کر سکتے ہیں یا ان کا مواخذہ بھی کر سکتے ہیں۔
اب پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر چند سال کے بعد یہ بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ ہمارے ملک کے لئے پارلیمانی نظام سود مند ہے یا صدارتی نظام ہمارے حالات کے پیش نظر زیادہ بہتر ہے۔ اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمارے ہاں مختلف اوقات میں دونوں نظام موجود رہے ہیں لیکن 1973 کے آئین کے مطابق ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہی قائم ہے۔ صدارتی نظام دراصل اس سوچ کی نشاندہی کرتا ہے جس کی بنیاد شخصی حکومت اور اقتدار کا چند ہاتھوں میں مرتکز رکھنا مقصود ہے اور یہ کہ عوام کو جواب دہ نہ ہو۔ اگر ہم موجودہ حکومت کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہے کہ موجودہ حکومت جو بہت سادہ اکثریت کے ساتھ قائم ہوئی ہے اپنا نظام حکومت زیادہ تر غیر منتخب افراد کے ذریعے چلا رہے ہیں جن کو مختلف نام سے شامل کیا گیا ہے لیکن ان کو وفاقی وزیر کا درجہ دیا جاتا ہے جو کہ جمہوری اور پارلیمانی نظام کی نفی ہے کیوں کہ ایسے افراد غیر منتخب ہوتے ہیں وہ عوام کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح پاکستان کے عوام کے بنیادی حقوق کی نفی کی جا رہی ہے اور جو آئین پاکستان کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اگر ہم امریکی صدارتی نظام کی مثال سامنے رکھیں تو وہاں پر امریکی صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی ٹیم کا انتخاب کرتا ہے اور اس ٹیم میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو عوام کو جواب دہ نہیں ہوتے۔ یہ اور بات ہے کہ ترقی یافتہ ملک ہونے کے ناطے وہاں کے عوام اپنے حقوق منوانے کی زیادہ طاقت رکھتے ہیں جو پاکستان جیسے غیر ترقی یافتہ ملک جہاں پر ملک کا ایک بہت بڑا حصہ پس ماندہ بھی ہے۔ یہاں وہ عوامی طاقت صدارتی ناظام کے ہوتے ہوئے استعمال ہونا مشکل ہے۔ اگر ہم صدر جنرل ایوب، صدر جنرل ضیا الحق، جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ادوار کا جائزہ لیں تو یہ بات ایک کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے کہ یہ دونوں یک و تنہا ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے ناطے جو چاہتے تھے کر گزرتے تھے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ان کے کئی فیصلے اس قدر نقصان دہ ثابت ہوئے جن کی بدولت مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے نتیجے میں ہم آج بھی دہشت گردی، اسمگلنگ، منشیات، اسلحہ کی بہتات اور امن و امان کی ناگفتہ بہ حالت کاپاکستان سامنا کر رہا ہے۔ اگر ہم آئین پاکستان کا جائزہ لیں تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ آئین پاکستان، پارلیمانی نظام حکومت فراہم کرتا ہے۔ آئین میں ترمیم کئے بغیر صدارتی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ آئین میں ایسی کوئی ترمیم کی ہی نہیں جا سکتی جس سے بنبادی ڈھانچہ ہی تبدیل ہو جائے۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں کے ایسے کئی فیصلے موجود ہیں جن میں عدالتوں نے قرار دیا ہے کہ آئین میں کوئی ایسی ترمیم جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کو یکسر تبدیل کردے۔ نہیں کی جاسکتی۔اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آئین میں ایسی کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔
اس طرح کی لاحاصل بحث عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کیلئے کی جاتی ہے۔ جبکہ یہ بات یہاں کے پارلیمانی نظام کو کسی صورت صدارتی نظام میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بات جو نظر آتی ہے کہ وہ یہ ہے کہ جب حکمراں عوام کو مطمئن کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو جاتے ہیں اور عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر وہ عوامی جواب دہی سے بچنے کے لئے اس طرح کی کوشش شروع کر دیتے ہیں کہ ملک میں صدارتی نظام قائم کیا جائے تاکہ عوام کو جواب دہ نہ ہوں۔ ایک بات اور بھی ہے کہ حکمراں پس ماندہ علاقوں اور ملک کے مختلف پس ماندہ طبقات کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہیں اور ان کے پاس پس ماندہ علاقوں کے عوام کو مطمئن کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ لہٰذا وہ اس اہم مسئلے سے پہلو تہی کرنے کے واسطے صدارتی نظام کا راگ الاپ شروع کردیتے ہیں۔ قانون ایک طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ممکن ہی نہیں، پاکستان کی جغرافیائی حقیقت کے پیش نظر پارلیمانی نظام حکومت اس ملک کے لیے بہتر ہے۔
ظفراللہ خان
کنوینیر پارلیمانی ریسرچ گروپ
آزادی کے 73برسوں کے بعد بھی پاکستان میں یہ بحث جاری ہے کہ ملک کے لئے پارلیمانی نظام موزوں ہے یا صدارتی نظام مناسب ہے ۔بحث و مباحثہ تو بری بات نہیں ،لیکن جب یہ باتیں مقتدر حلقوں کی جانب سے آتی ہیں تو اپنی تمام تر خامیوں کے ساتھ اچھا خاصا چلتا اور رینگتا نظام تھم سا جاتا ہے ، بے یقینی بڑھ جاتی ہے اور مستقبل کے حوالے سے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں ۔یہ پہلی یا آخری بار نہیں ہو رہا ہے، اس سوال کو تاریخ میں کئی بار الجھایا اور سلجھایا گیاہے ۔
اگرچہ میں ذاتی طور پر پارلیمانی نظام کو پاکستان کی کثیر القومی ہفت رنگی کے تناظر میں اہم سمجھتا ہوں تاہم یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ صدارتی یا پارلیمانی نظام ،وفاقی یا وحدانی نظام مملکت کو اپنے حقائق ،کلچر اور عوام کو رجحانات کے مطابق منظم کرنے کے اسلوب ہیں اور قوم جو بھی راستہ چنے اس پر پورے عزم اور خلوص کے ساتھ سفر کرے تب ہی منزلوں کے سراغ ملیں گے ۔ روز روز کی اکھاڑ بچھاڑ سے سفر دائروں میں بے معنی اچھل کود بن کر رہ جاتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان نے پارلیمانی نظام کا انتخاب کیوں کیا ؟بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اپنی سیاسی زندگی میں 39 سال ایسے اداروں کے ممبر رہے ۔بر صغیر میں پہلا پرائیویٹ ممبر بل بھی انہی کا تھا ،اگرچہ نظام نو آبادیاتی تھا تاہم انھوں نے عوام کی تعلیم ،صحت اور تحفظ کے حوالے سے حقوق پر معرکتہ الآراء تقاریر کیں، جب رولٹ ایکٹ جیسا ظالمانہ قانون آیا تو بطور احتجاج استعفیٰ بھی دیا ۔قیام پاکستان ہوا تو قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان دستور ساز اسمبلی کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور آپ نے متعدد اجلاسوں کی صدارت فرمائی اور 11 اگست 1947 ء کی تاریخی تقریر میں پارلیمنٹ کو مقتدر ادارہ کہا ۔اس تصور کی نفی ایگزیکٹو کی ایماء پر مولوی تمیزالدین کیس میں ہوئی، اس کے بعد تاریخ بھی گواہ ہے کہ ایوب خان جمہوریت کو گرم دماغ خطہ کے لئے ناموزوں جبکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح .......جن کی تربیت قائد اعظم نے کی، پارلیمانی نظام کی وکالت کرتی رہیں ۔1973 ء کے دستور کی بنیاد بننے والے دستوری معاہدے میں بھی یہی طے پایا کہ پاکستان وفاقی ،پارلیمانی جمہوریت ہوگا ۔ نظام کی یہ بحث دوبارہ ضیاالحق کے دور میں انصاری کمیشن رپورٹ نے چھیڑی لیکن نیم صدارتی نظام اور اسمبلیاں توڑنے والی شقیں (b(2 )58)اہل سیاست نے موقع ملتے ہی ختم کردیں ۔ گویا تمام سیاسی قوتوں کا اجماع ہے کہ یہاں پارلیمانی جمہوریت ہی ہوگی ۔ الیکشن 2018 ء میں صدارتی نظام کا نعرہ لگا کر جسٹس افتخا ر محمد چوہدری کی جماعت نے حصہ لیا اور فقط 5 ہزار ووٹ پورے ملک سے لئے ۔عوام کی تائید کا عالم تو یہ ہے پھر بھی نہ جانے یہ آوازیں بار بار کیوں اٹھائی جاتی ہیں ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پاکستان نے اپنی قومی زندگی کا زیادہ حصہ گورنر جنرل ،صدارتی یا ہابرڈ ( صدارتی ) نظام کے تحت گذارا ہے ۔ 1947 سے لے کر 1956 تک صدارتی نظام کے 14 سال اور 1977 سے لے کر 1985ء تک ایک بار پھر صدارتی اقتدار ...... 1985 کے بعد سیاسی بندوبست میں ضیاالحق کے نیچے محمد خان جونیجو اور پرویز مشرف کے نیچے ظفراللہ خان جمالی اور شوکت عزیز کے ایک دہائی پر محیط تجربات ہیں ۔ نیز ہماری قومی زندگی میں 29 فی صد وقت تو ایسا تھا کہ پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے عہدے کا وجود تک نہ تھا ۔پھر مسئلہ کیا ہے ؟ ہماری سیاست کو گملے میں اگے سیاستدانوں نے تباہ و برباد کردیا ہے ۔ الیکشن سے قبل مقتدروں کی تائید و حمایت کے ایسے مظاہر نظر آتے ہیں کہ ہجوم کا اختیار فقط ووٹ دینے تک محدود ہو چکا ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ سیاسی جماعتیں کمزور ، خاندانی اور عوام سے کٹا ہو ا کمزور ادارہ بن چکی ہیں ۔کسی سیاسی جماعت کا باقاعدہ دفتر تک نہیں ہے ۔
پاکستان کی کل پارلیمانی آبادی 1195 ( 342 ایم این اے ،104 سینیٹرز، 371پنجاب کے ایم پی اے ،168 سندھ کے ممبران،147 خیبر پختونخوان کے ممبران اور 65 بلوچستان اسمبلی کے ارکان ) پارلیمنٹیرین پر مشتمل ہے اور ملک کا چپہ چپہ نمائندگی اور آواز رکھتا ہے ۔جبکہ صدر مملکت تو کسی ایک علاقے سے ہی ہو سکتے ہیں ۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے حلقے کا الیکشن قانون میں طے شدہ خرچ کی حد 40 لاکھ برائے ایم این اے ،20 لاکھ ایم پی اے اور 15 لاکھ برائے سینیٹر سے کہیں زیادہ خرچ کر کے لڑا جاتا ہے اور براہ راست صدارتی الیکشن تو 272 قومی اسمبلی کے حلقوں کے برابر علاقے پر لڑا جائے گا یعنی 1088 ملین روپے تو قانونی طور پر مہم کے لئے جائز ہونگے ۔اتنی بڑی مہم ذاتی جہازوں پر ہی چلائی جا سکتی ہے ۔
یہ شراکتی نظام قطعا نہیں ہوگا کہا جاتا ہے کہ کوئی الیکٹورل کالج بنالیں گے یہ تجربہ بھی 60 کی دہائی میں ہو چکا اس وقت تو ہماری آبادی 4کروڑ کے لگ بھگ تھی اور یہ نظام سب کی توقعات کو آکاموڈیٹ نہیں کر سکا تھا آج تو ہم 23 کروڑ ہیں جس میں سے 112 ملین باقاعدہ ووٹر رجسٹرد ہیں ۔ کیا ہم اتنی بڑی سیاسی بیگانگی برداشت کر سکیں گے ؟ماضی میں صدارتی ریفرنڈم ایک امیدوار ہی کے ہوتے تھے اور جلسے جلوس بھی اکثر بلدیاتی ادارے ہی کروا دیتے تھے اگر ہم اوپن مقابلے کے صدارتی انتخاب کی طرف گئے تو یہ دولت کے سیاسی اظہار کی بھونڈی اولمپکس ہو گی ۔اگر صدارتی نظام میں پارلیمانی اداروں کا کردار دیکھیں تو امریکہ کا طاقتور صدر بھی اس وقت تک ایک پائی بھی خرچ نہیں کر سکتا جب تک کہ کانگریس بجٹ منظور نہ کر دے ۔کئی بار وہاں حکومت شٹ ڈائوں بھی ہوئی ۔نیز کیا ہم ریگولر بیورو کریسی ،سفیر ،مشیر رکھ سکیں گے یا پھر پارلیمانی اداروں میں سب نامزدگیوں پر باقاعدہ سماعت ہوگی جیسا کہ خالص صدارتی نظام میں چیک اینڈ بیلنس کی خاطر ہوتا ہے ۔ یا پھر ہم یہاں بھی کسی نا خالص صدارتی نظام کی بات کر رہے ہیں ۔
میرے خیال میں پاکستان کے عوام کی دانش پر اعتماد کا وقت آگیا ہے ۔ اسے پارلیمانی نظام کے ساتھ ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہو گا ۔ تاہم اس نظام میں سیاسی جماعتوں کو جمہوری بننا ہو گا ۔ الیکشن ایکٹ 2017 ء نے کم از کم دو چار اصلاحات کرائیں کہ یہ 5 فی صد ٹکٹ خواتین کو دیں گے ، پار ٹی کے قیام کے لئے کم ازاکم 2000 اراکین کی شرط ہے ،انکی فنڈنگ کے حوالے سے رپورٹنگ بھی اہم ہے ۔یہ تو ویسے بھی ضروری ہے کیونکہ ملک کی سیاسی دولت کا 28 فی صد (60 خواتین، 10 اقلیتیں ایم این اے ،104 سینیٹر،132 خواتین ایم پی اے ، اور 24 اقلیتی ایم پی اے ) پارٹی لسٹوں اور ووٹوں پر ایوانوں میں آتے ہیں ۔اپنے پارلیمانی نظام میں بہتری کے لئے ہم جرمنی کے نظام سے سیکھ سکتے ہیں جہاں براہ راست حلقوں کے ساتھ ساتھ آپ اپنی پسند کی سیاسی جماعت کو بھی باقاعدہ ووٹ دیتے ہیں اور پھر اس بنیا د ہر کئی ٹیکنو کریٹ اور کم وسائل والے طبقات ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں جو کہ حلقوں کی سیاست میں مہارتوں کی رہ جانے والی کمی کو پورا کر دیتے ہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان کو آئے رو ز سیاسی نظاموں کی تجربہ گاہ بنائے رکھنے کی بجائے اپنے نظام کو موقع دیں اور جہاں جہاں اس کی خامیاں نظر آئیں ان میں اصلاحات کریں کیونکہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کی کمزوریوں کا علاج مزید جمہوریت میں ہے نہ کہ نت نئے تجربات میں۔