• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ7ماہ سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے کورونا وائرس نے زندگی کا کلچر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور اب ایک نئی دنیا تشکیل پا رہی ہے۔ دنیا میں اس وقت کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد ڈھائی کروڑ جبکہ اموات ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب ہیں۔ کورونا سے اب تک یورپ، چین، روس اور امریکہ میں جو دنیا کی آبادی کا 30فیصد ہیں 65فیصد افراد مرض کا شکار ہوئے، ان میں سے مرنے والوں کی تعداد 78 فیصد اور مجموعی شرح اموات4فیصد رہی ۔سارک، خلیجی، افریقی اور سائوتھ ایشین ممالک میں جو دنیا کی آبادی کا65فیصد ہیں24فیصد لوگ کورونا سے متاثر ہوئے، ان میں سے مرنے والوں کی تعداد 13.2 فیصد اور مجموعی شرح اموات 1.7فیصد رہی۔ بیرونی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں متاثرہ افراد کی تعداد اور شرح اموات بہت کم ہے یوں گزشتہ ساڑھے چھ ماہ میں یہاں صرف 6300 افراد کی موت واقع ہوئی۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن میں علامتوں کے بغیر ’’اینٹی باڈیز‘‘ ظاہر ہوئیں اس طرح شرح اموات 0.1فیصد رہی۔ پاکستان میں90فیصد مرنے والوں میں عمر رسیدہ افراد، کینسر، گردے، دل و دیگر بیماریوں والے شامل تھے۔ خوش قسمتی سے کورونا سے بچے محفوظ رہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں کورونا سے بھی زیادہ خطرناک بیماریاں موجود ہیں اور ان کی وجہ سے آئے روز انسان موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق1000بچے روزانہ نمونیہ، ڈائریا اور دوسری بیماریوں،4لاکھ افراد دل کی بیماریوں اور ایک لاکھ کینسر سے سالانہ مر جاتے ہیں۔ ایڈز، ملیریا، ٹی بی اور ڈینگی سے بھی لاکھوں لوگ مرتے ہیں ایک کروڑ 70لاکھ افراد کو ہیپاٹائٹس ’’بی‘‘ اور ’’سی‘‘ لاحق ہے اور ایک کروڑ سے زیادہ گردے کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ روزانہ اموات کی تعداد4000سے زیادہ ہے ان میں حادثات میں جاں بحق ہونیوالے بھی شامل ہیں لیکن حکومتی سطح پر ان بیماریوں کی روک تھام کے لئے کبھی سنجیدگی سے کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔

کورونا وائرس کی پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجودگی سے انکار ممکن نہیں لیکن پاکستان میں اس حوالے سے منظم پروپیگنڈے کے ذریعے خوف کی ایسی فضا پیدا کی گئی کہ گویا کورونا ملک میں تباہی پھیر دے گا ۔بعض عناصر نے اپنے مقاصد کو پروان چڑھانے کے لئے بھی کورونا کا خوف لوگوں کے دل و دماغ میں بٹھا دیا۔ خوش قسمتی سے حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی اور اللہ کے فضل و کرم سے یہاں تباہی کم ہوئی۔ پاکستان میں لاک ڈائون کے ذریعے کورونا وائرس پر قابو پانے کی حکمت عملی اپنائی گئی اور حکومت نے یہ دعویٰ کیا کہ اموات کی شرح میں کمی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے لیکن یہ اللہ کا کرم ہے کہ پاکستان میں وائرس کا پھیلائو اور تباہی کم ہوئی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں میڈیکل کے شعبے میں ریسرچ کی کمی ہے۔ ہم ہمیشہ سے اپنی نظریں یورپ، امریکہ اور چین پررکھتے ہیں اور انہی کے نقطہ نظر کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں وائرس کی نوعیت چین یورپ اور ایران سے مختلف تھی اسی لئے یہاں اموات کم ہوئیں۔ اس کی اہم وجہ وائرس کی جینیاتی تبدیلی ہے جسے Mutation کہتے ہیں۔ سارک اور افریقی ممالک میں لوگ چونکہ گندے ماحول میں رہتے ہیں، جعلی ادویات کا استعمال ناقص خوراک اور گندہ پانی استعمال کرتے ہیں، مختلف بیماریوں میں گھرے رہتے ہیں ۔اسی بنا پر ان لوگوں میں ’’قوت مدافعت‘‘ زیادہ ہوتی ہے اس لئے کورونا وائرس کے حملے کاا مکان کم ہوتا ہے ۔ایسے ممالک جن میں ملیریا، ٹی بی زیادہ پھیلی ہوئی ہے یا جہاں بچوں کو ٹی بی اور ملیریا کے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں وہاں بھی وائرس نے کم تباہی مچائی۔ جن ممالک میں درجۂ حرارت زیادہ ہے اور سورج کی روشنی زیادہ دیر رہتی رہی خاص طور پر خلیجی ممالک وہاں بھی کورونا نے بہت کم نقصان پہنچایا۔ پاکستان کے عوام اس وقت Herd Immunity (یعنی60فیصد سے زیادہ لوگوں میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کا پیدا ہونا) کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق 43فیصد افراد جن میں کورونا وائرس کی علامت نہیں تھیں ان میں Anti Bodiesپائی گئیں۔ کورونا وائرس کا جائزہ لیا جائے تو یہ ’’وبا‘‘ سے زیادہ عالمی سیاست کا ’’پہلا فیز‘‘ نظر آتا ہے کہ جس کی آڑ میں ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے درپے ہیں اور عالمی سامراج اپنے مذموم مقاصد کو پروان چڑھانے کے لئے ’’خوف‘‘ اور ’’دہشت‘‘ کی فضا قائم کرکے تمام اقوام کو اپنا دست نگر بنانا چاہتا ہے ۔عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی دوسری لہر کے حوالے سے وارننگ جاری کی ہے جس پر یہ پروپیگنڈہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر پہلے سے زیادہ تباہی لاسکتی ہے ۔کورونا کے خوف نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے ۔ اس بحران میں خوف پیدا کرنے کی بجائے لوگوں میں ’’شعور و آگاہی‘‘ پر توجہ دینا زیادہ اہم ہے تاکہ نظام زندگی مناسب احتیاط کے ساتھ چلتا رہے۔ میری نظر میں کورونا وائرس سے اموات کی شرح کو زیادہ تشویشناک قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ مرنے والوں میں20فیصد لوگ ہی کورونا کے مریض تھے جبکہ اکثریت دیگر امراض سے لقمہ اجل بنی، اس حوالے سے عوامی حلقوں کے تحفظات توجہ طلب ہیں۔ کورونا وائرس کی دوسری شدید لہر کے بارے میں جاری وارننگ کے بعد ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت کوئی واضح حکمت عملی اپنائے لاک ڈائون کسی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا ۔لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ،اس لئے وہ اب کوئی ایسی پابندی قبول نہیں کریں گے۔ وہ پہلے ہی کورونا کے خوف میں مبتلا ہیں، ان کے دل و دماغ سے اس ’’خوف‘‘ کو نکالنا حکومت اور میڈیا کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ملک کی بقا معیشت کی بحالی سے ہے۔ کوئی غلط فیصلہ ملک کو معاشی دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہو گا جس کی قوم متحمل نہیں ہو سکتی۔

تازہ ترین