ہمارے خطے میں بچوں کو جنوں اورپریوں کےعلاوہ سب سے زیادہ قصے کہانیاں بادشاہوں کی سنائی اور پڑھائی جاتی ہیں۔ان قصے کہانیوں کی بدولت معصوم ذہن بادشاہوں کی شاہانہ زندگی اور طورطریقوں سے متاثر ہونے لگتے ہیں۔ایسے قصے کہانیاں سن کربڑے ہونے والے ہر وقت ایک ایسے بادشاہ کی تلاش میں رہتے ہیں جو آنکھ جھپکتے ہی حسب منشا سب کچھ ٹھیک کردے۔ پرانے زمانے میں ہربادشاہ کے دربار میں خوشامدی یا مصاحبین ضرور ہوا کرتے تھے، جن کا کام صرف بادشاہ سلامت کی عظمت اورشان وشوکت بیان کرنا ہوتا۔ یہ چرب زبان خوشامدی ظل الہٰی کے کئی فیصلوں کو بھی تبدیل کروانے کا ہنرجانتے تھے۔ بہت سے پاکستانیوں کےاندربادشاہوں کی خصوصیات آج بھی بدرجہ اتم موجودہیں اوراس حوالے سے صوبہ پنجاب سب سے ہی دوچارہاتھ آگے ہے،یہاں پرتولوگ بادشاہوں سے اتنے متاثرہیں کہ ان کی روزمرہ زندگی میں کھانے پینے کی کئی اشیاء کے نام بھی شاہی ہیں۔ محاورےبھی شاہی،جیسے کوئی زیادہ ہی معصوم خواہش کا اظہار کردے تواسےآگے سے جواب ملتا ہےآپ بھی بادشاہ آدمی ہیں یا یہ کہہ کرخاموش کرادیاجاتا ہےکہ جانے دیں بادشاہو۔
وقت گزرنے کیساتھ ساتھ آج بادشاہت تونہیں لیکن اپنی انا کی تسکین اوردل میں بادشاہ سلامت بننے کی تمنا کے پیش نظرایسے لوگوں کو ہر شعبےمیں فن خوشامد کے حامل افراد کثرت سے مل جاتے ہیں۔ایسے خوشامدی بڑے تر دماغ اورموقع شناس ہوتے ہیں اورحکمران چاہے کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں انھیں اپنےاندازگفتگوسے شیشےمیں اتارےرکھتے ہیں۔ایسا کچھ حال آج کل ہمارے بھولے بادشاہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کاہے۔ تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت کے دوسال پورے ہونے پر صوبائی کابینہ کےخصوصی اجلاس میں وزیر قانون راجہ بشارت نے ایک قرارداد پیش کی جسے متفقہ طورپرمنظور کیا گیا۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ یہ اجلاس وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدارکی زیر قیادت گزشتہ دوبرس میں صوبائی سطح پر ہونے والی تیز رفتار تعمیرو ترقی کے نئے دورپرتشکرکا اظہارکرتاہے اور وزیراعلیٰ کی سربراہی میں عوام کی ترقی کے لئے کیے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتاہے۔ پنجاب حکومت کی دو سالہ کارکردگی وزیراعظم عمران خان کے ویژن کی عکاس ہے۔ پنجاب میں نئے نظام کی بنیاد ڈالی ، دوبرس میں ریکارڈ قانون سازی کی اور ہسپتالوں، یونیورسٹیوں، کالجوں، بیراجوں، سپیشل اکنامک زونز اور سڑکوں سمیت متعدد میگا منصوبوں پر کام کیا۔یہ تمام منصوبے دکھاوے کے نہیں بلکہ حقیقی طورپرعوامی فلاح وبہبود کے منصوبے ہیں۔ سب سے بڑامرحلہ جنوبی پنجاب کے عوام کو ان کاکھویا ہوا حق واپس دلانا تھا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا وعدہ پورا کر دکھایا ہے۔کابینہ نے وزیراعظم عمران خان کی قیادت اوروزیراعلیٰ عثمان بزدارکی کارکردگی پرانھیں خراج تحسین بھی پیش کیا۔ قارئین کرام،اجلاس کا دلچسپ پہلویہ ہے کہ عثمان بزدار کی وزرات اعلیٰ سے رخصتی کیلئے بیتاب اور پھر خود کو وزیراعلیٰ کے روپ میں دیکھنے کی تمنا دل میں لئے ان تمام امیدوار وزراء نے الگ الگ خطابات میں عثمان بزدارکی تعریفوں کے پل باندھےاورسابقہ ن لیگی حکمرانوں کوصوبے کے تمام مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
دھیمے لہجے کے منکسرالمزاج کہلا نے والےعثمان بزدارنے بھی اپنے کارنامے خوب گنوائے اورکہا ہم نے محنت کی، کام کیا اور بہتری کیلئے بھرپورکاوشیں کیں۔ ہمارا دامن صاف ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ کریڈٹ ہے کہ اس عرصہ کے دوران کوئی بھی کرپشن کا سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ شوبازی کی بجائےعملی اقدامات کرکے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی گئی ہیں۔گزشتہ دس سالہ دورحکومت صرف ون مین شو تھا۔وزیراعلیٰ یہ بھی کہہ گئے کہ’’پنجاب شفافیت،میرٹ اورگڈ گورننس میں دیگرصوبوں کے مقابلے میں سب سے آگے ہے۔پنجاب میں عوام کی توقعات کا لیول بلند ہونا بھی چاہئے کیونکہ برسوں بعدعوام کے ذریعے عوام کی حقیقی حکومت کے خواب نے تعبیرپائی‘‘۔
عثمان بزدارجب یہ کہتے ہیں کہ الحمدللہ ان کا دامن صا ہےتوسن کربڑے بادشاہوں کی ہنسی نکل جاتی ہے کیونکہ منصوبہ سازوں یعنی بڑے بادشاہوں نے یونیورسٹی دورمیں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن رہنے والےعثمان بزدارپرایک ہوٹل کوشراب فروشی کا لائسنس جاری کرنے میں پانچ کروڑ روپے کی مبینہ رشوت کا الزام لگا کرنیب یاترا کروا دی تاکہ سند رہے۔ تحریک انصاف کے انتخابی وعدوں میں جنوبی پنجاب صوبے کا قیام،مقامی حکومتوں کی تشکیل،تعلیم،صحت،تھانہ کلچرمیں تبدیلی،روزگارکی فراہمی سمیت ایک لمبی فہرست ہے جن پرابھی تک بنیادی کام بھی شروع نہیں ہوا۔آٹا مافیا،شوگرمافیااور ذخیرہ اندوزوں کو نکیل نہ ڈالی جاسکی اوردوسالوں کے دوران ہوشربا مہنگائی کے ہاتھوں عوام مارے مارے پھررہے ہیں۔ مہنگائی کنٹرول کرنے اور صوبے کے اندرہر شعبے کے طاقتورمافیاز کےسامنے حکومت بے بس دکھائی دی۔ تبدیلی توتب نظرآئے جب تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی اپنا اورخاندان کے افراد کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں کراتے نظرآئیں اور اپنے بچوں کوسرکاری سکولوں میں پڑھانا پسند کریں۔ بزدارحکومت کی کارکردگی سے رعایا توکیا بڑے بڑے بادشاہ گربھی ناراض دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ روایتی حکومتی اجلاسوں میں بلندبانگ دعوے اور تقریریں ماضی کی حکومتوں میں بھی ایسے ہی ہوا کرتی تھیںکیونکہ پرکشش اعداد و شمار تیار کرنے والے اور پرفریب تقریریں لکھ کر دینے والے ہردورکے مصاحبین ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
قارئین۔ایک بادشاہ سے لوگوں نے شکایت کی کہ آپ کی سلطنت میں ایک ایسا آدمی ہے جس کا منہ اگرصبح سویرے دیکھوتودن بھرکھانا ہی نہیں ملتا-
بادشاہ نے اسے آزمانے کے لئے بلایا اوراپنے کمرے کے سامنے سُلادیا- صبح اس کا منہ دیکھا اور واقعی اس دن کوئی ایسی وجہ بن کہ جس کے باعث بادشاہ سلامت دن بھرکھانا نہ کھا سکے-بادشاہ نے غصے میں اس شخص کو پھانسی کا حکم دے دیا۔اس آدمی نے بادشاہ کے دانا وزیرسے درخواست کی کہ اسے بچا لیا جائے۔ وزیر نے بادشاہ سے پوچھاکہ عالم پناہ آپ اسے پھانسی کیوں دے رہے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ یہ آدی منحوس ہے، میں نے آج صبح اس کی شکل دیکھی تو مجھے کھانا نصیب نہیں ہوا۔ وزیر نے عرض کی دیکھیں جہاں پناہ آپ نے اس کی صورت دیکھی تو آپ کو کھانا نصیب نہ ہوااوراس نے صبح آپ کی صورت دیکھی تو اسے موت کا حکم مل گیا، اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟
پنجاب کے موجودہ بھولے بھالے بادشاہ سے اتنی گزارش ہے کہ گزشتہ ادوار کے بادشاہوں کی پالیسیوں اورمنصوبوں پرصرف تنقید کی بجائے آج اپنےطرزحکمرانی پربھی ذرا نظرثانی کیجئے تاکہ عوام کی صحیح معنوں میں کچھ دادرسی ہوسکے ورنہ تاریخ میں بڑے بڑے بادشاہوں کیساتھ ہونے والی انہونی کو کوئی نہیں ٹال سکا ۔