• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کے حالات غیرمعمولی بارشوں کے سبب ناگفتہ بہ ہوتے جا رہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ بپھرا ہوا سمندر اِس پر چڑھ دوڑے گا۔ گٹروں سے ابلنے والا بدبودار پانی گھروں کے اندر داخل ہوتا جا رہا تھا۔ بجلی گھنٹوں غائب رہنے لگی تھی اور یہ دیکھ کر دل بیٹھا جا رہا تھا کہ ہماری وفاقی حکومت اتنے بڑے آشوب سےیکسر بےخبر یا بڑی حد تک بےنیاز ہے۔ اچانک ایک روز خبر آئی کہ ڈیفنس اور کلفٹن کے پوش علاقوں میں بھی پانی گھس آیا ہے جہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا اور اِن علاقوں کا نظم و نسق چلانے والوں کی صلاحیتوں کے ڈنکے ہر سُو بجتے ہیں۔ اِن ستم رسیدہ مناظر کے درمیان ہم نے یہ خوشخبری سنی کہ جناب وزیرِاعظم عمران خان اہلِ کراچی کو ایک تاریخی پیکیج دینے کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔ ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔

گزشتہ ہفتے کی شام وہ سچ مچ کراچی گئے اور گورنر ہاؤس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ سر جوڑ کر کئی گھنٹے بیٹھے رہے۔ معلوم ہوا کہ اِن میں سندھ کے وزیرِاعلیٰ مراد علی شاہ بھی شریک ہیں جن کی وفاقی حکومت کے ساتھ نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ اِس اعلیٰ سطحی اجلاس میں فوج کی نمائندگی بھی ہے۔ مشاورت کے بعد وزیرِاعظم پاکستان نے گیارہ سو ارب کے پیکیج کا اعلان کیا اور پوری قوم کو یقین دلایا کہ زیادہ سے زیادہ تین یا پانچ برسوں میں کراچی کے تمام بڑے مسائل حل کر دیے جائیں گے اور اِسے خطے کا بہت خوبصورت اور مثالی شہر بنا دیا جائے گا۔ جناب سید مراد علی شاہ نے بھی اُمید افزا کلمات ادا کیے کہ ہم وفاقی حکومت کے تعاون سے کراچی کی تقدیر بدل دیں گے۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے جو کمیٹی تشکیل پائی ہے، اِس میں سیاسی قائدین کے علاوہ فوج کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ مئی 2013ء میں اُس وقت کے وزیرِاعظم جناب نوازشریف نے بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور چائنا کٹنگ کے خلاف آپریشن کا اعلان کیا، تو کراچی کے کور کمانڈر کو اِس عمل میں اہم کردار سونپا گیا تھا جس کی بدولت کراچی میں بڑی حد تک امن قائم ہو گیا تھا۔ مجھے وزیرِاعظم عمران خان کے اعلان سے یہ امید بندھی تھی کہ اِس بار بھی اہداف حاصل کر لیے جائیں گے اور شہر کراچی جس کی ہر چیز ٹوٹ چکی ہے اور جو سالہا سال سے دیانت دار اور سنجیدہ قیادت سے محروم چلا آ رہا ہے، اب اِس کی روشنیاں اور خوشیاں لَوٹ آئیں گی۔ ہماری اِن امیدوں پر اگلی صبح پانی پھر گیا جب صوبہ سندھ اور وَفاق کے درمیان یہ لفظی جنگ چھڑ گئی کہ اِس پیکیج میں سب سے بڑا حصّہ ہمارا ہے۔ اِس حوالے سے ہر لحظہ کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور دِلوں کی کدورتوں کی پھنکارسانس بند کیے دیتی ہے۔

اِس گہرے ہوتےبحران میں وزیرِاعظم کے بعض منہ پھٹ مشیرانِ کرام زخم پر زخم لگانے کی مشق فرما رہے ہیں اور کچھ ہنرمند یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جب تک اٹھارہویں ترمیم ختم نہیں ہوتی، اُس وقت تک مرکز اور سندھ کےحالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ کشیدہ ماحول میں اِس نوع کی باتیں بدگمانیوں اور نفرتوں کو گہرا کرتی ہیں اور سیاسی مفاہمت کے دروازے بند ہوتے جاتے ہیں۔ اِس تلخ فضا میں بعض بداندیش سیاست کار یہ دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں کہ ہم سندھ میں گورنر راج نافذ کر دیں گے۔ اِس پر جواب آیا کہ پورا سندھ ایک ایک قدم پر پوری قوت سے مرکز کے خلاف مزاحمت کرے گا۔ وفاقی کابینہ نے اپنے حالیہ اجلاس میں کراچی کے حالات میں بہتری لانے کے لیے امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو جو سیلابی علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں، اُنہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ہمیں وفاقی حکومت سے کسی امداد کی توقع نہیں اور ہم اپنا حق چھین لیں گے۔

ہمارے مایہ ناز تجزیہ نگار جناب ڈاکٹر فرخ سلیم ہر اُٹھتے ہوئے سنگین مسئلے کا نہایت نپے تلے اور مصدقہ اعداد و شمار کے ساتھ تجزیہ کرتے اور حل بھی بتاتے ہیں۔ اُن کا تجزیہ پڑھ کر دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش ہمارے حکمران اور منصوبہ ساز بھی اُن کے تجزیوں کو اپنے مطالعے کا حصّہ بنا لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کراچی کے مسئلے کے آٹھ حل بتائے ہیں(1)جرم اور سیاست کا گٹھ جوڑ ختم کیا جائے۔ (2)شہری گورننس کے ماہرین تعینات کیے جائیں۔ (3)کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی تشکیلِ نو کی جائے۔ (4)ری سائیکلنگ متعارف کرائی جائے۔ (5)ماہرانہ واٹر گورننس کا اہتمام لازمی ہے۔ (6)سمندر کا پانی میٹھا کرنے کے پلانٹ کی تنصیب(7)سرکلر ریل (8)بااختیار شہری حکومت۔ اُن کا اندازہ ہے کہ اِن منصوبوں کے لیے دس اَرب ڈالر درکار ہوں گے۔

ڈاکٹر صاحب نے آٹھ حل بتانے کے بعد آخر میں کہا کراچی کے حالات اِس لیے درست نہیں ہوں گے، کیونکہ اِس کی درستی فیصلہ سازوں کے مفاد میں نہیں۔مثلاً ڈی سیلینیشن پلانٹ لگنے سے واٹر مافیا روزگار سے محروم ہو جائے گا۔ بااختیار شہری حکومت پیپلزپارٹی کے مفاد میں نہیں اور تجاوزات کا خاتمہ تینوں کھلاڑیوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ اِس کے علاوہ اَگر مسائل حسن و خوبی سے حل ہو جاتے ہیں، تو کراچی میں تحریکِ انصاف کی سیاسی چودھراہٹ قائم نہیں ہو گی، چنانچہ وفاق اور صوبہ سندھ کے درمیان اَنا کا الاؤ دہکتا اور کراچی سسکتا رہے گا۔ مجھے میجر جنرل (ر) خادم حسین راجہ کی تصنیف ’’اپنے وطن میں اجنبی‘‘ یاد آئی۔ اِس میں اُنہوں نے وہ منظر تفصیل سے بیان کیا ہے جب مجیب، بھٹو اور جنرل یحییٰ اپنے اپنے خول میں بند اپنی اپنی ضدوں پر قائم رہے اور عوام کے جذبات اِس قدر قابو سے باہر ہو گئے کہ فوج بھی کچھ مداوا نہ کر سکی۔ میجر جنرل (ر) راجہ نے اعلیٰ فوجی قیادت کے حکم پر اور اَپنے ضمیر کے خلاف 25 مارچ 1971ء کو سرچ لائٹ آپریشن لانچ کیا اور آخرکار ڈھاکہ ڈوب گیا۔ اُنہوں نے ’آخری حروف‘ میں اپنے ہم وطنوں سے کہا ہے:’ہم عظیم الشان روایات کے محافظ ہیں اور ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں اچھے الفاظ میں یاد رَکھیں۔‘ مجھے دلوں کی کدورتوں سے بہت خوف محسوس ہو رہا ہے۔

تازہ ترین