• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آئے دن اس طرح کے سانحات کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں، خبر چھپتی ہے اور ہم پڑھ کر افسوس کا اظہار کر کے چپ سادھ لیتے ہیں۔ موٹر وے پر ایک خاتون کے ساتھ زیادتی اور ظلم کی واردات نے ہم سب کو سوگوار کر دیا ہے۔ لکھاری اور میڈیا کے حضرات ایک دوسرے سے بڑھ کر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ میں نے غم و غصے کے یہی مقابلے سانحہ ماڈل ٹائون کے وقت اور دن دہاڑے ساہی وال سے آنے والے خاندان کے قتل و غارت کے وقت بھی دیکھے تھے۔ پھر کیا ہوا؟ دو تین دن جھاگ اڑی اور بیٹھ گئی۔ کل ایک لیڈر مونچھوں کو تائو دے کر ٹی وی اسکرین پر غم و غصہ کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر مجھے سانحہ ماڈل ٹائون یاد آ گیا جسے میں نے کئی گھنٹے لائیو ٹی وی پر دیکھا تھا۔ بعد ازاں میں ایک ویڈیو دیکھ کر کانپ گیا۔ ایک پولیس افسر نے ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کی حفاظت پر مامور ایک خاتون کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق شاید وہ خاتون حاملہ تھی۔ سچ یہ ہے کہ ہر روز اخبارات میں خواتین، بچیوں اور بچوں سے زیادتی کے رُلانے والے واقعات چھپتے ہیں اور ہم دل ہی دل میں افسوس کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔ ان کا ذکر نہ ٹی وی پر ہوتا ہے اور نہ ہی میڈیا انہیں اچھالتا ہے۔ خواتین، بچیوں اور بچوں کے ساتھ ہر روز ہونے والی یہ وارداتیں ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ ایک طرف ان وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے دوسری طرف ملک میں احساس عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔ ہر شخص خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے اور مایوسی کا شکار ہے۔ لبرل دانشوروں کی ’’تشخیص‘‘ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ معاشرتی گھٹن کا کیا دھرا ہے۔ جن ممالک میں جنسی آزادی کے سمندر بہتے اور معاشرتی آزادی کے گُل کھلتے ہیں کیا اُن ممالک میں ’’ریپ‘‘ کی وارداتیں نہیں ہوتیں؟ اوسط نکالی جائے تو ہر قسم کی آزادی کے باوجود اُن ممالک میں خواتین، لڑکیوں، بچوں وغیرہ سے زیادتی کی وارداتیں کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں عام طور پر مجرم پکڑے جاتے ہیں، پولیس ڈیپارٹمنٹ اور سیاسی مداخلت سے آزاد ہے اور مجرم عدالتی سزا سے بچ نہیں سکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی مداخلت اور سیاسی دبائو نے پولیس ڈیپارٹمنٹ کا ستیاناس کر دیا ہے، مخالفین کے خلاف پولیس کے استعمال نے اس کی کارکردگی کا بیڑہ غرق کر دیا ہے اور رہی سہی کسر ہمارے عدالتی نظام نے پوری کر دی ہے۔ مجرمان کی اکثریت عدالتوں سے رہائی پا جاتی ہے البتہ بے گناہوں کی بڑی تعداد جیلوں میں گلتی سڑتی رہتی ہے۔ میرا انتظامی زندگی کا طویل تجربہ اور مشاہدہ یہی ہے کہ جب تک مجرموں کو یہ یقین نہ دلایا جائے کہ مجرم بہرحال نہیں بچ سکے گا اور عدالت سے سخت سزا اُس کا مقدر بنے گی اُس وقت تک جرائم پر قابو پانا یا ان کی شدت اور تعداد گھٹانا ممکن نہیں ہوتا۔ ملک میں ایک ایسی فضا اور تاثر قائم کرنا ضروری ہے کہ جرم کے ارتکاب کے بعد بچنا ناممکن ہو گا۔

سعودی عرب میں جرائم کی کمی کی وجہ مضبوط اور طاقتور پولیس ڈیپارٹمنٹ اور سادہ عدالتی نظام ہے۔ ہمارے ملک میں انتظامی ادارے بُری طرح تنزل کا شکار ہیں، اُن کی کارکردگی قابل رحم حد تک افسوس ناک ہے اور عدالتی نظام انصاف مہیا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ عدالتیں پولیس کو ادھوری تفتیش، شکوک شواہد وغیرہ کا الزام دیتی ہیں اور پولیس عدالتوں کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ دو ملائوں کے درمیان عوام کی مرغی ذبح ہو رہی ہے اور ساری قوم مایوسی اور دل گرفتگی سے قومی منظر دیکھ رہی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم من حیث القوم مایوسی کا شکار ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے نہ حکومتیں اس تنزل کے عمل کو روک سکی ہیں اور نہ ہی مستقبل میں صورت حال کی بہتری کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ موجودہ حکومت میں تو اس چیلنج سے نپٹنے کی صلاحیت ہی نظر نہیں آتی۔ جو حکومت دو سال میں چھ آئی جی پولیس تبدیل کرے اس میں یقیناً گورننس کی صلاحیت مفقود ہے۔ جب پولیس اور دوسرے سرکاری محکموں میں اس قدر حکومتی مداخلت بڑھ جائے تو اُن کی کارکردگی کا بیڑہ غرق ہونا قابل فہم امر ہے۔ کاش! عمران خان اپنے وعدے یاد کریں کہ میں انتظامیہ کو پوری آزادی اور تحفظ دوں گا تاکہ وہ کارکردگی دکھا سکیں۔ اس کے برعکس اسمبلی اراکین کی مداخلت پر ہر روز سیکرٹری، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، آئی جی پولیس اور دوسرے فیلڈ افسران کو ہفتوں اور مہینوں میں بدلا جا رہا ہے جس سے پوری انتظامیہ میں بددلی پھیل چکی ہے اور افسران نوکریاں بچانے کے لئے اسمبلیوں کے اراکین کو خوش رکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ دوسری طرف اسمبلی اراکین کو گلہ ہے کہ اُن کے کام نہیں ہوتے۔

انتظامیہ، حکومتیں اور سیاست دان ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جس سے نکلنے کے لئے ایک مضبوط، نڈر، باکردار اور بہادر قیادت کی ضرورت ہے۔ جہاں نوبت بہ ایں جا رسید کہ ایک خاتون رکن اسمبلی کے خاوند نے ایک جج کا پیچھا کر کے اُسے پٹرول پمپ پر پکڑ لیا اور مار مار کر نہ صرف جج صاحب کی ناک توڑ دی بلکہ اُسے لہو لہان کر دیا وہاں انتظامی کارکردگی اور انصاف کی بات کرنا محض مذاق لگتا ہے۔ اُس شخص نے یہ جرأت کیوں کی؟ صرف اس لئے کہ وہ ایک رکن اسمبلی کا خاوند ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحب کئی بار فرما چکے کہ ممبران اسمبلی اپنے اضلاع کے چیف منسٹر ہیں۔ اس سے کیا پیغام جاتا اور کیا تاثر پیدا ہوتا ہے؟ ہر کمزور وزیر اعلیٰ اراکین کو راضی رکھنے کے لئے قانون کی بالا تری کو پامال کرتا ہے اور اس کا نتیجہ اسی طرح کا ’’غور‘‘ ہوتا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ موٹر وے سانحے پر دو تین دن آنسو بہا لیجئے، پھر آپ بھی صبر کا پیالہ پی لیں گے اور کئی اور اسی نوع کی وارداتیں آپ کی توجہ اس سانحے سے ہٹا دیں گی۔

تازہ ترین