بلاشبہ ملک میں جمہوریت کا دور دورہ ہے۔ وطنِ عزیز میں تیسری منتخب حکومت برسراقتدار ہے، پارلیمنٹ موجود ہے مگر ہرطرف غیرسیاسی چل چلائو ہے، زور آور زوروں پر ہیں اور کمزوروں کا ہر سطح پر استحصال ہو رہا ہے، حکمران سدا حکمرانی اور اپوزیشن جلد نئی مسند کے آرزو مند ہیں، معتوب اور مظلوم جذبات سے لبریز مگر مہر بلب ہیں۔ ایسے میں جب سب ’’مہربان‘‘ کی اک نظر کے منتظر ہیں تو سمجھ سے بالاتر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہاں کون مجبور؟ کون محصور؟ اور کون مسرور ہے؟ کوئی حقیقت کے ادراک کے لئے بالغ نظری کا ثبوت دے تو جواب آسان اور دیوار پر نقش ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایسے قلم کے سپاہیوں کو بظاہر لگتا ہے کہ عوام اور میڈیا مجبور ہیں، سیاستدان اور جمہوریت پسند محصور اور مفاد پرست سیاستدان، حکمران اور طاقتور مسرور ہیں۔ بدقسمتی سے اس فہرست میں اب وہ لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں جو پہلے محض عوامی خدمت پر بہت مسرور ہوا کرتے تھے، آج کل وہ بھی مجبور اور محصور ہیں، ضیاء کے سیاہ دور میں آمریت کا بازو بننے والے سیاستدانوں کے بارے میں پھیلایا جانے والا تاثر اب عوام کے ذہنوں میں حقیقی تصور کے طور پر جاگزیں ہو چکا ہے۔ گزشتہ تین سے چار دہائیوں میں عملی طور پر ثابت ہوا کہ الیکٹ یا سلیکٹ ہوکر پارلیمان کا حصہ بننے والے عوامی خدمت نہیں بلکہ محض حکمرانی کے درد اور جذبہ سے سرشار ہوتے ہیں، اقتدار کے مزے سے مسرور ہوکر خوب پیسے کماتے ہیں، پھر جب پکڑے جاتے ہیں تو انہی کے سامنے لاچار ومجبور ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں ماضی اور حال کے واقعات کا جائزہ لیں تو سیاست اور ریاستی اداروں میں کرپشن کے کینسر نے جمہوری نظام کی زندگی کو جان لیوا خطرات میں گھیر رکھا ہے، یہی وجہ ہے سیاسی نظام میں پختگی آئی نہ جمہوریت آمرانہ اندازِ حکمرانی سے جان چھڑا پائی، بدترین نتیجہ ایک یہ بھی ہےکہ آج تک کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکا۔ مشرف آمریت کے بعد آج تیسرے جمہوری دور کا آدھا سفر مکمل ہونے کو ہے مگر کہا جا رہا ہے کہ پارلیمان کے ذریعے عوام کی داد رسی میں حکومت سے زیادہ بری پرفارمنس اپوزیشن کی ہے۔ شاید اس کی بڑی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ جب کیسز کھلتے ہیں تو اپوزیشن عوام کی طرح خود کو مجبور ظاہر کرتی ہے، اقتدار میں آنے کے لئے عوامی سپورٹ اور حقیقی ووٹ کی بجائے طاقتور کندھوں کا سہارا لیتی ہے اور اقتدار میں آکر ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے عوام کو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دے کر چھپ جاتی ہے اور پھر اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے کے بجائے مظلوم بن کر ازخود محصور بھی ہو جاتی ہے، اسی طرح سے ’’شاندار‘‘ ماضی رکھنے والے بعض سیاستدان اور جمہوریت کے چیمپئن جو ہر دور میں طاقتور کی چھتری میں رہنا اعزاز اور امتیاز سمجھتے ہیں، عوام کے بجائے خود مسرور رہنے کے لئے نت نئے راستے تلاش کرنے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں اور یوں ایک منتخب پارلیمنٹ بےتوقیر ہو کر رہ جاتی ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ خود کو کبھی مجبور کہنے والے آج مسرور بھی ہیں خاص کر وہ جن کی پارٹی لیڈرشپ نے خود انہیں ایوان سے غائب ہونے کی ہدایت کی، عین اسی طرح جیسے گزشتہ سال یکم اگست کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو خفیہ ووٹنگ کےبعد بیلٹ باکس سے تین ووٹ غائب پائے گئے اور یوں صادق سنجرانی دعوے کے مطابق شکست سے بچ گئے۔ 16ستمبر کو ایف اے ٹی ایف کےحوالےسے قانون سازی کا وقت آیا تو اپوزیشن نے خوب شور مچایا، عین ووٹ کو عزت دینے کے وقت تو دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن اتحادیوں کے اراکین ایوان سے غائب ہو گئے، حکومت دس ووٹوں سے ہارنے کی بجائے دس ووٹوں سے جیت گئی۔ دونوں ایوانوں کے مشترکہ 442 ارکان میں سےحکومت کے 216اور اپوزیشن کے 226ارکان تھےمگر اپوزیشن کے 36 ارکان پہلے ہی غائب ہوگئے اور اپوزیشن جیتا ہوا میچ ہار گئی۔
اب عوام دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں سے پوچھنے پر حق بجانب ہیں کہ قانون سازی چھپ کر یا خفیہ تو تھی نہیں پھر آخر ہوا کیا؟ میچ فکس نہیں تو ووٹ بیچنے والے اپنی جماعت کےچھپے آستین کے سانپوں کو پہچان کر میڈیا پر لائیں گے؟ ماضی سے اب تک پارٹی کےوقار اور ووٹ کی توہین کرنے والوں کو سزا دیں گے؟ یا پارٹی سے نکال باہر کریں گے؟ اب آئندہ کیلئے اپوزیشن کا خود کیلئے فکس کردہ بڑا چیلنج حکومت گرانا ہے، اس حوالے سے ایک اور اے پی سی بلا لی گئی ہے لیکن مجبور و محصور اپوزیشن کا ماضی قریب کا ٹریک ریکارڈ آئندہ کی مشترکہ بیٹھک کےنتیجہ کا پیشگی پتا دے رہا ہے کہ اب کی بار بھی اے پی سی بھی اسی طرح ’’کامیاب‘‘ ہو گئی جس طرح پچھلی اے پی سی؟ ایسے حالات میں جب اپوزیشن کی اپنی صفوں میں پھوٹ اور ووٹ کو عزت دینے پر اتفاق نہیں، پیپلزپارٹی ان ہاؤس تبدیلی، ن لیگ فوری نئے انتخابات، ش لیگ انصافی حکومت کو اپنے وزن سے گرتا دیکھنے کی خواہش مند اور دیگر جماعتیں مکمل مختلف آرا رکھتی ہیں، ایسے میں عوام بجا طور پر انجانے خدشے کا شکار ہورہے ہیں کہ ایک طرف ان کے مسائل کا ادراک اور حل حکمرانوں کی ترجیح نہیں تو دوسری طرف اپوزیشن بھی محض ذاتی و سیاسی مفاد کی خاطر منتخب ایوانوں میں ان کی بات کرنے کو تیار ہے نہ سڑکوں پر کسی بڑے احتجاج یا تحریک کے ذریعے ان کے حق کے لئے لڑنے پر آمادہ تو پھر وہ موجودہ نظام اور اس کے سیاسی انجینئرز پر کب تک تکیہ کریں؟ خود پر ہونے والے مہنگائی، بےروزگاری اور معاشی بدحالی کے مظالم سے ہونے والا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کریں؟