• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارشد مبین احمد، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ

ہمارے مُلک کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں ہر شخص اپنے اپنے انداز کا کرپٹ ہے، یعنی خاکروب سے لے کر اعلیٰ افسر تک ،جسے جہاں موقع ملتا ہے، کسی نہ کسی طرح کرپشن کر ہی جاتا ہے۔یہاں ہر شخص بس اپنے مفاد کی سوچ میں مگن ہے۔تحریکِ انصاف کی حکومت کرپشن کے خلاف نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی، لیکن افسوس کہ اس دَورِ حکومت میںمُلک سے کرپشن کا خاتمہ ہونے کے بجائے کچھ مزید اضافہ ہی ہوگیاہے۔ عالمی ادارے، ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل نے 2019ء میں دنیا کے 180ممالک میں بدعنوانی کے حوالے سے سالانہ فہرست کا اجراء کیا، جس میں پاکستان کی درجہ بندی میں ایک پوائنٹ کی تنزّلی ہوئی ۔2018ء کے مقابلے میں 2019ء میں کرپشن بڑھی۔ 

ہمارے مُلک میں شاید ہی ایسا کوئی ادارہ ہو ، جو بد عنوانی یا کرپشن سے پاک ہو۔ اب انکم ٹیکس کے محکمے ہی کو دیکھ لیں، جو حکومت کے لیے ٹیکس کے ذریعے رقم مہیا کرتا ہے۔ایف بی آرہر سال 5فی صدٹیکس ریٹرن کو آڈٹ کے ذریعے منتخب کرتا ہے اور ٹیکس ریٹرن فائل کرنےوالے 5فی صدافرادمحکمۂ انکم ٹیکس کے افسران کا شکار جاتے ہیں۔ کیوں…؟اس ’’کیوں‘‘کا جواب تو شاید محکمےکےاعلیٰ حکام کے پاس بھی نہیں ہو گا۔ البتہ، یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ کرپشن کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے کہ افسران،ان5 فی صد ٹیکس ریٹرن فائلرزسے جس طرح چاہیں، برتائوکریں۔

ایک اندازے کے مطابق ٹیکس وصولی سے 4گُنا زیادہ رقم تورشوت کی مد میں وصول کرلی جاتی ہے۔یعنی حکومت کو تو کیا فائدہ ہوگا،کرپشن ضرور مزید بڑھ جاتی ہے۔یہ سب صرف غلط اعداد و شمار ظاہر کر کے برابر کرنے کے لیےہوتاہے۔ اگر حکومت کے اعلیٰ افسران اس معاملے پر توجّہ دیں اور آڈٹ کانظام ختم کر کے ٹیکس وصولی کے نظام میں کچھ ترامیم لائی جائیں، تو شایدحکومت، رشوت کی رقم ٹیکس کی مَد میں وصول کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میںہم اپنے تجربے کی روشنی میں کچھ تجاویز پیش کر رہے ہیں،جو رشوت خوری اور ٹیکس چوری روکنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔

٭جس نےٹیکس ادا کر دیا ہو، اس کا کیس آڈٹ سے مستثنیٰ کر دیا جائے۔

٭نیشنل سیونگ اسکیم میں سرمایہ لگانے والے ہر شخص کے لیے این ٹین این ہولڈر ہونا لازمی قرار کر دیاجائے،تومزید ٹیکسز جمع کرنے کے مواقع میسر آسکتے ہیں۔

٭ پاسپورٹ بنوانے یاہوائی جہاز کا ٹکٹ خرید نےوالے ہر شخص کے لیے این ٹی این نمبر دینا لازمی قرار دیا جاناچاہیے تاکہ وہ ٹیکس نیٹ میں آکر اپنا سالانہ ٹیکس ریٹرن فائل کر سکے۔ اس طرح کچھ ٹیکس تو وہ پہلے ہی ادا کر رہا ہوگااور کیس آڈٹ میں آنے کے بعد باقی ٹیکس حکومت وصول کر سکے گی۔ اس طرح کرپشن کا پیسا حکومتی خزانے میں جمع ہو گا اور حکومت کو عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے بیرونی امداد نہیں لینی پڑے گی، عوام کا پیسا عوام ہی پر خرچ ہو گا۔

مشاہدے میں ہے کہ عام طور پر لوگ لوکل ٹیکس نہیں ادا کرتے ۔ ایک کثیر رقم ان کے ذمّے قابلِ ادا رہتی ہے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ پراپرٹی کی خرید و فروخت بھی بڑی آسانی سے ہوتی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ فنڈز کی کمی کا رونا روتی نظر آتی ہےاور ترقیاتی کام بھی نہیں ہوپاتے۔ سو، اگر تمام رجسٹرار ،لوکل گورنمنٹ اداروں اور کوآپریٹو سوسائٹیز پر یہ پابندی لگا دی جائے کہ جب تک یوٹیلیٹی بلز کی ادا شدہ کاپی ،ایکسائز اور کے ایم سی ٹیکس کی ادا شدہ چالان کی کاپی، رجسٹرڈ ڈاکیومینٹس کے ساتھ منسلک نہیں کی جائے گی ، تب تک ڈاکیومینٹ رجسٹر نہیں کیا جائےگااور نہ ہی محکمے سے ٹرانسفر کا عمل مکمل ہوگا، تو اس عمل سے یقیناً ریونیو جنریٹ ہوگا، کیوں کہ لوگ رشوت کی مد میں لاکھوں، کروڑوں روپے تو دے دیتے ہیں، لیکن ٹیکس اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائی سے کتراتے ہیں۔

دوسری جانب، رجسٹرار آفس میں یہ پابندی ہونی چاہیے کہ اگر کاغذات کی رجسٹری میں کوئی رکاوٹ آرہی ہو، تو اس کا ازالہ تین دن کے اندر بذریعہ شکایتی سیل بنا کر کیا جائے اور کاغذات فوری رجسٹرکر کے ان کو مزید ضروری کارروائی کے لیے آگےبھیجا جائے۔ایک عام اندازے کے مطابق کُل ریونیو/ ٹیکس کا ایک تہائی حصّہ رشوت کی نذرہو جاتا ہے۔ متعلقہ حکّام جانچ پڑتا ل کریں، تو معلوم ہوجائے گا کہ کس قدر رشوت کا بازار گرم ہے۔ 

افسوس، صد افسو س کے حکومتی محکموں کی آپس کی لڑائی اور اپنی اپنی کرسی بچانے سے فرصت نہیں، تو عوامی مسائل اور بد عنوانی پر کون بات کرے گا، کون سوچے گا۔ خدارا! قوم کے لیے بھی کچھ سوچیں اور مُلک کی ترقّی میں اپنا کردار ادا کریں۔ ورنہ یاد رکھیں کہ اللہ کی پکڑ بہت مضبوط اور سخت ہے، ذمّے داریوں میں کوتاہی کرنے والا کوئی بھی شخص بچ نہیں سکے گا۔

تازہ ترین