• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی کے واقعات اور تشریحوں کو یاد رکھنا کوئی بُری بات نہیں، اپنے ہیروز کی ستائش کرنا بھی غلط نہیں لیکن ماضی سے چمٹے رہنا اور ہر واقعہ یا شخصیات کو حرزِ جاں بنا کر عہدِ حاضر کو نظر انداز کرنا آنے والی نسلوں کے لئے آگے بڑھنے کے راستے مسدود کرنے کے مترادف ہے، اس حقیقت کو ہمیشہ نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی و حال کے مثبت اسباق کو مدِنظر رکھ کر مستقبل کے لئے نئی راہیں تلاش کرنا ہی انسان کو دیگر مخلوقات سے جدا کرکے اشرف المخلوقات کا درجہ دیتا ہے، انسانی عقل جب ہیرومتھ سے مبرا ہو کر عملیت پسندی کی طرف گامزن ہوتی ہے تو ہی اس پُراسرار کائنات کے راز آشکار ہو کر اور ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں چنانچہ معلوم دنیا کے تمام ایسے صحائف جو کہ ہزار ہا سال سے انسانی اذہان پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں، اُن کے پندو نصائح میں بھی ’جاننے‘ پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ سے پاکستان میں ایک غیر ملکی ڈرامہ ’ارطغرل‘ بڑے تزک و احتشام سے دیکھا اور جنون کی حد تک سراہا جا رہا ہے، میں نے پہلے بھی انہی کالموں میں لکھا تھا کہ اس فکشن کا کلیدی کردار، عثمان اول کا باپ ارطغرل تھا لیکن اس سے زیادہ تاریخ میں ارطغرل کے متعلق کچھ نہیں ہے مگر بہرحال تکنیکی اعتبار سے بلکہ ہر لحاظ سے یہ ڈرامہ اپنی مثال آپ ہے، ڈرامہ بنانے والے بھی یہی کہتے ہیں کہ اسے ’ڈرامہ‘ سمجھ کر ہی انجوائے کریں، اس کے تاریخی حوالے تلاش نہ کریں۔ اُدھر وزیراعظم پاکستان نے ’ارطغرل‘ کا اردو ترجمہ کراکے اسے سرکاری ٹیلی وژن پر دکھانے کا حکم تو جاری کر دیا لیکن وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر گئے کہ ایک طرف تو ارطغرل کی بہادری سےآپ متاثر ہو رہے ہیں لیکن دوسری طرف بھارت نے آرٹیکل 370ختم کرکے پاکستان کی شہ رگ کاٹ کر مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا رکھا ہے جس پر آپ بیان دیتے ہیں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے! کیا آپ قوم کو بتائیں گے کہ کیوں؟ کیا جنگوں کے بغیر ہی ارطغرل یا اس کے بیٹے نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی تھی؟ آپ کے ذہن میں کوئی ایسا منصوبہ موجود ہے جس کے تحت بات چیت کے ذریعہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرکے سات دہائیوں سے کئے گئے اپنے مظالم پر معافی مانگ لے گا؟

پاکستان کے حکمرانوں نے قوم کو ’ارطغرل‘ کی طرف ’دھکیل‘ تو دیا ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہم تو پہلے ہی عملیت پسندی سے دور خیالوں، خوابوں، دعائوں اور مناجاتوں کے سہارے چلے آ رہے ہیں اور آج جب جدیدیت پر عمل پیرا اقوامِ عالم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام پر ’’جی فائیو‘‘ ٹیکنالوجی کا استقبال کرنے کے لئے تیار ہیں تو ایسے میں پاکستانی قوم ’ارطغرل‘ کے گھوڑے کی ٹاپوں کے سحر میں مست و مگن ہے!! حالانکہ ابھی گزرے ہفتے میرے چند لندنی دوست ترکی کے مطالعاتی دورے سے واپس آئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ دس میں سے آٹھ ترکوں کو پتا ہی نہیں کہ ’ارطغرل‘ بھی کوئی ڈرامہ ہے، استنبول میں رہنے والے بعض ترکوں کے مطابق ارطغرل سے بھی بڑے بڑے اور مقبول ڈرامے یہاں بنائے گئے ہیں، انہوں نے یوٹیوب پر دکھایا کہ ارطغرل کو اگر پانچ لاکھ لوگوں نے دیکھا ہے تو اتنے ہی عرصہ میں دوسرے ڈراموں کو پچیس، تیس لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ آج کی دنیا نظر آنے والی اور استعمال کی جا رہی سائنسی ایجادات سے کہیں آگے کی طرف دیکھ رہی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اِن ایجادات وغیرہ سے ہمارا کیا لینا دینا، کورونا وائرس کی ویکسین ایجاد کرنا ہمارا دردِ سر تھوڑی ہے، ہمارے لئے آسمانوں پر کمند ڈالنا، فقط علامہ اقبال کے شعر تک محدود ہے جبکہ چین، امریکہ، روس، برطانیہ و یورپ جن نئی ایجادات کے قریب ہیں، ہمیں ان کا شائبہ تک نہیں، ہمیں نہیں علم کہ ’کوانٹم سُپر میسی‘ اور ’مصنوعی ذہانت‘ ہمیں کہاں لے جائے گی۔ کوانٹم سُپر میسی سے مراد ایسے جدید سائنسی آلات ہیں جن سے وہ مسائل بھی حل ہو جائیں گے جنہیں روایتی کمپیوٹر حل نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس سےغرض ہی نہیں کہ فائیو جی جو اس وقت بھی دنیا کے کئی ممالک میں مکمل کام کر رہا ہے اس کی انٹر نیٹ سپیڈ 100گیگا بائٹس تک ہو جائے گی، اُڑنے والی کاریں عام ہو جائیں گی، آواز اور روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے ذرائع آمدورفت وجود میں آ جائیں گے، ڈاکٹر ہزاروں میل دور بیٹھ کر مریضوں کے آپریشن کریں گے، تھری ڈی ٹیکنالوجی ہوشربا حد تک آگے بڑھ جائے گی، ہر گھر کی تمام ضروریات روبوٹ چلائیں گے، اب فوجیں نہیں کمپیوٹرائزڈ روبوٹ لڑیں گے، کوئی انسان جھوٹ نہیں بول سکے گا اور نہ ہی گم ہو سکے گا، پیدا ہوتے ہی چاول کے دانے جتنی سم انسان کے اندر انجیکٹ کر دی جائے گی جو مرتے دم تک ہر چیز کا حساب رکھے گی، کسی بھی بیماری کے ضمن میں قبل از وقت مطلع کرے گی تاکہ اس کا علاج کیا جا سکے، جنیٹک سائنس میں اتنی ترقی ہو جائے گی کہ انسانوں کا ہر باڈی پارٹ اس کے اپنے ڈی این اے سے تیار ہوگا، انسانوں کی عمر دو تین سو سال تک بڑھائی جا سکے گی، ایک انسان کے سینکڑوں ہم شکل پیدا کئے جا سکیں گے اور اس نکتے پر بھی تیزی سے تجربات جاری ہیں کہ اگر جیلی فش کبھی نہیں مرتی، اس کی عمر ایک ملین سال بھی ہو سکتی ہے (اگر اسے کوئی حادثہ پیش نہ آئے) تو پھر انسان جو اشرف المخلوقات ہے، یہ ہمیشہ زندہ کیوں نہیں رہ سکتا؟ آنے والے تین چار سال انتہائی اہم ہیں جب یہ ڈاکیے وغیرہ بھی ختم ہو جائیں گے، سب کچھ ڈرون کریں گے، یہ پٹرول، ڈیزل وغیرہ پانی سے بھی سستے ہوں گے کیونکہ شمسی توانائی اور دیگر ذرائع سے ہر چیز ملے گی اور 2030تک یہ مصنوعی ذہانت ہر طرح سے جدید انسانی عقل کے ہم پلہ ہو گی بلکہ انسانی عقل کو پیچھے چھوڑ دے گی لیکن اطوار بتاتے ہیں کہ ہم اُس وقت بھی شاید ’ارطغرل‘ دیکھ کر محظوظ ہو رہے ہوں گے۔

تازہ ترین