• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن کی بڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سمیت متعدد دیگر پارٹیوں کی کثیرالجماعتی کانفرنس کی شکل میں ملک کی سیاسی صورتحال میں ایک بڑی ہلچل جنم لیتی نظر آرہی ہے۔ اپوزیشن کی اس فعالیت کا فوری سبب بظاہر منی لانڈرنگ سے متعلق تازہ آئینی ترمیم ہے جس کا مقصد حکومت کی جانب سے ملک کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالنا بتایا جاتا ہے جبکہ اپوزیشن اسے آئینی آزادیوں سے سراسر متصادم اور جمہوریت کش قرار دیتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہونے والی یہ کانفرنس وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقد کی گئی۔ ان سطور کی اشاعت تک اجلاس کی کارروائی مکمل ہو چکی اور اس کی تفصیلات منظر عام پر آچکی ہوں گی۔ اجلاس سے پہلے اپوزیشن اور حکومتی شخصیات کے درمیان جو لفظی جنگ جاری ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ فریقین کی ایک دوسرے کے خلاف دھواں دھار بیان بازی نے سیاسی ماحول کو بہت گرم کردیا ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت نے دوسال میں مکمل طور پر اپنی نااہلی ثابت کردی ہے، معیشت تباہ ہو چکی ہے جبکہ دوسرے تمام شعبہ ہائے زندگی میں بھی نمایاں انحطاط واقع ہوا ہے، اس لئے ملک کو اس حکومت سے نجات دلانا ضروری ہوگیا ہے اور اس کانفرنس میں اسی مقصد کے لئے حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ دوسری جانب حکومت کا موقف ہے کہ منی لانڈرنگ کے انسداد کے لئے کی گئی آئینی ترمیم کے بعد اپوزیشن رہنما قومی خزانہ لوٹ کر جمع کی گئی اپنی کرپشن کی دولت کو بچانے کی خاطر متحرک ہورہے ہیں۔ اس گرما گرمی کا ایک بنیادی سبب لندن میں بغرض علاج مقیم سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف کی جانب سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کا اعلان ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ نواز شریف سزا یافتہ مجرم ہیں اور علاج کے لئے جیل سے بیرون ملک گئے تھے لہٰذا سیاسی کانفرنس سے ان کا خطاب غیرقانونی ہے۔ ایک حکومتی ترجمان نے خبردار کیا ہے کہ کسی چینل نے یہ تقریر نشر کی تو اس کے خلاف پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے کارروائی سمیت تمام قانونی طریقے اختیار کیے جائیں گے۔ تاہم کئی ممتاز ماہرین قانون نے سابق وزیراعظم کے خطاب پر پابندی کو آئین کی دفعہ 19میں دی گئی آزادی اظہار کے منافی قرار دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی لیڈر اور میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ چینلوں پر پابندی کا کوئی قانونی جواز نہیں اور اس خطاب کو سوشل میڈیا کے ذریعے اہل وطن تک پہنچایا جائے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی کانفرنس سے سوشل میڈیا کے ذریعے خطاب کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ کثیرالجماعتی کانفرنس میں شرکت کے لئے مسلم لیگ (ن) کے گیارہ رکنی وفد کا اعلان کیا گیا ہے جس کی سربراہی پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف کریں گے اور شرکاء میں خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید، رانا ثناء اللہ، مریم اورنگ زیب اور دیگر کے علاوہ مریم نواز بھی شامل ہیں، جو سیاسی مبصرین کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی سیاسی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی کا واضح اشارہ ہے۔ اختلاف کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے۔ ہر حقیقی جمہوری ملک میں لوگوں کو حکومت سے اختلاف کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے۔ ہمارا آئین بھی آزادی اظہار کا ضامن ہے بشرطیکہ اس آزادی کا استعمال ملک اور اس کے بنیادی نظریے کو نقصان پہنچانے کیلئے نہ کیا جائے۔ لہٰذا حکومت کو اپوزیشن کو آئینی حدود میں تحریک چلا نے سے روکنا نہیں چاہئے اور اپوزیشن کو بھی کسی ایسی کارروائی سے باز رہنا چاہئے جو ملکی سلامتی اور قومی مفاد کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہو۔

تازہ ترین