• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اداروں کی کرکٹ ختم ہونے سے کھلاڑی معاشی بدحالی کا شکار

نئے پاکستان کرکٹ بورڈ کو وجود میں آئےتقریباً دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے مگر ابھی تک پی سی بی کوئی ایسا عملی قدم نہیں اُٹھا سکا ہے جسے ہم گذشتہ ادوار سے بہتر کہہ سکیں ماسوائے کوچز کی تعداد بڑھانے کے 1999 سے پہلے ملک میں کرکٹ کی سرگرمیاں چلانے کے لئے بی سی سی پی ہوتا تھا جو ملُکی سطح پر کرکٹ کےامور کی نگرانی کرتا تھا یہ ایک جمہوری ادارہ تھا جس کی باقاعدہ ایک جنرل باڈی ہوتی تھی جس میں ملک کی 11 ایسوسی ایشنز کےنمائندے موجود ہوتے تھےاور اس کے ساتھ ساتھ محکمہ جاتی ٹیموں کے نمائندے بھی اس جنرل باڈی کا حصّہ ہوتے تھے۔ 

جبکہ بورڈ کے سربراہ کی نامزدگی صدر پاکستان کیا کرتے تھے اس وقت پورے ملک کی ایسوسی ایشنز بڑی مضبوط اور با اختیار ہوا کرتی تھیں جس شہر میں بھی بین الاقوامی میچز منعقد ہوتے تھےان میچوں کی میزبانی اور انتظامی امور کی ذمہ داری مقامی ایسوسی ایشن کے پاس ہوتی تھی گیٹ منی کے ذریعے ہونے والی آمدنی کا ایک معقول حصہ مقامی ایسوسی ایشن کو ملا کرتا تھا جس سے وہ اپنے شہر کی کرکٹ کے امور چلایا کرتی تھیں اور کسی کی محتاج نہیں تھیں پاکستان کرکٹ کے تمام فیصلے مذکورہ جنرل باڈی میں ہوا کرتے تھے 1999 میں ملکی معاملات میں تبدیلی آنے کے ساتھ ساتھ کرکٹ بورڈ میں بھی تبدیلی آگئی۔ 

یہ پاکستان کرکٹ کا وہ موڑ تھا جہاں سے ایسوسی ایشنز کی حیثیت میں بتدریج کمی آنا شروع ہوئی کیونکہ جمہوری کرکٹ بورڈ کو ختم کرکے خود ساختہ باڈی تشکیل دے کر کرکٹ کے امور آمرانہ انداز میں چلائے جانے لگے جسے خود ساختہ جمہوری ادارے کا نام دے دیا گیا اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کہلانے والی ایسوسی ایشن کا نام تبدیل کرکے کراچی ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کردیا گیا بعد ازاں پاکستان کرکٹ بورڈ کے نامزد سربراہان نے کمزور بنیادوں پر کھڑے کرکٹ بورڈ کو مضبوط کرنے کے لئے اور ووٹوں کی تعداد بڑھانے کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ 11 سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کو 16 ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشنز میں تبدیل کردیا۔ 

گذشتہ 21 سال سے پاکستان میں جو کرکٹ بورڈ تشکیل دئیے جاتے رہے ہیں اس میں چار ریجنز کے صدور ، چار اداروں کی ٹیموں کے سربراہان کے علاوہ دو ٹیکنو کریٹس اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین جوکہ وزیر اعظم پاکستان کے نامزد کردہ ہوتے ہیں چونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین وزیر اعظم پاکستان کا نامزد کردہ ہوتا ہے اس لئے بورڈ کا کوئی رکن اس کے خلاف کاغذات نامزدگی بھرنے کے بجائے نامزد کردہ چیئرمین کو اعتماد کا ووٹ دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے اور بعد ازاں اپنی تین سالہ مدت پوری کرکے کرکٹ کواس مقام پر چھوڑ آتا ہے جہاں آنے والے نئے بورڈ آف گورنرز کو نئے وژن کے تحت اس میں اصلاحات لانے کی ضرورت پیش آتی ہے جس سے پاکستان کرکٹ کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ 

بالکل اسی طرح جیسے پاکستان کرکٹ بورڈ میں 2015 میں نیا آئین متعارف کرایا گیا اور پورے پاکستان کی کرکٹ اس نئے آئین کے مطابق کھیلے جانے لگی چار سال کے بعد 2019 میں نئے بورڈ آف گورنرز پی سی بی نے 2015 کے آئین کو ختم کرکے 2019 میں نیا آئین متعارف کرایاگیا ہے اب دیکھتے ہیں موجودہ آئین کتنے عرصے چلتا ہے بہرحال یہ کھلاڑیوں اور کرکٹ آرگنائزرز کے ساتھ عجیب مذاق ہورہا ہے اور پاکستان کی کرکٹ بجائے مضبوط ہونے کے کمزور ہورہی ہے کیونکہ جب سے اداروں کی ٹیمیں ختم ہوئی ہیں پاکستان کے کھلاڑی احساس محرومی کا شکار ہورہے ہیں۔ 

جبکہ کلب کرکٹر ز اور کرکٹ آرگنائزرز بھی مایوسی کا شکار ہورہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ایسوسی ایشنز کی بھی اصلی حیثیت کو تقریباً ختم کردیا گیا ہے پاکستان بننے سے لیکر آج تک ایسوسی ایشنز شہروں پر مشتمل ہوا کرتی تھیں مگر اب انہیں صوبائی ایسوسی ایشن کا نام دیا گیا ہے جس سے ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کی حیثیت ختم ہوگئی ہے یہ پاکستان کرکٹ کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ پورے ملک میں گذشتہ دو سال سے گراس روٹ لیول کی کرکٹ متاثر ہوئی ہے کیونکہ کلب عہدیداران حقیقی معنوں میں گراس روٹ لیول سے نوجوان کھلاڑی کو اپنے کلب میں لاتے تھے اُن پر محنت کرتے تھے اُن کی خامیاں دور کراتے تھے اور پھر اُس کو آگے کرکٹ کھلانے کے لئے کئی مراحل سے گذرتے تھے صرف اس لالچ میں کہ اگر اس کھلاڑی نے ملکی سطح پر کسی ریجن یا ڈیپارٹمنٹ سے یا پھر بین الاقوامی سطح پر کرکٹ میں اپنا مقام بنایا تو میں فخر سے کہہ سکوں گا کہ یہ میرے کلب کا کھلاڑی ہے مگر اب کلب آرگنائزرز یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اب کلب چلانے یا نئے کھلاڑی بنانے کا کیا فائدہ کیوں کے پی سی بی کے نئے آئین کے مطابق 188 ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشنز اور 16 ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشنز کوختم کرنے کے ساتھ ساتھ تمام اداروں کی کرکٹ ٹیمیں بھی ختم کردی گئی ہیں۔ 

جس سے نئے آنے والے کھلاڑیوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی ختم ہوگئے ہیں جس سے کھلاڑیوں میں عدم دلچسپی کا رُجحان فروغ پارہا ہے اس کے ساتھ ساتھ صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن کی ٹیم تک رسائی بھی انتہائی مشکل ہوگئی ہے پہلے کلب عہدیدار اپنے کلب کے باصلاحیت کھلاڑیوں کو ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشن کی ٹیم میں شامل کرانے کے لئے کوشاں رہتے تھے اگر وہ کھلاڑی انٹر ڈسٹرکٹ ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی دکھا تا تھا تو ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداران پوری کوشیش کرتے تھے کہ کسی طرح اس کا نام ریجن کے منتخب شدہ کھلاڑیوں میں آجائے جب اس کا نام ریجن کی ٹیم میں آجاتا تھا تو اس کھلاڑی کو اپنی کارکردگی سے اپنے مستقبل کو سنوارنا ہوتا تھا۔ 

اگر اس کی کارکردگی غیر معمولی ہوتی تھی تو کسی بھی ڈیپارٹمنٹ سے اسے آفر ہوتی تھی اور وہ کھلاڑی کسی بھی ڈیپارٹمنٹ کو جوائن کر لیتا تھا اور معاشی طور پر بے فکر ہوکر ڈیپارٹمنٹ سے کرکٹ کھیلنے میں مشغول ہوجاتا تھا جس سےاس کے کھیل میں مذید نکھار آتا تھا اور جس معیار کی وہ کارکردگی دکھاتا تھا اسی بنیاد پر وہ ملکی و بین الاقوامی سطح پر کرکٹ کھیلتا تھا بعض کھلاڑی اچھی کارکردگی کے باوجود اس مقام تک نہیں پہنچ پاتے تھے جس کے وہ مستحق تھے بعض ایسے بھی کھلاڑی تھے جو اپنے ریجنز کی نمائندگی کرکے قومی ٹیم میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ 

اس کے برعکس اب ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشنز ختم کرکے 190 سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز اور اس کے اوپر چھ صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشنز کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جس کا طریقہ کار کچھ یوں ہوگا کہ کراچی اور حیدر آباد میں سات سات سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز اور لاڑکانہ میں چھ سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز ہونگی اس طرح سندھ میں یہ 20 سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز اپنے اپنے سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز کی حدود میں پی سی بی سے الحاق شدہ کلبوں کے مابین انٹرکلب کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کریں گی اُس ٹورنامنٹ کی کارکردگی کی بنیاد پر ہر سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کی علیحدہ علیحدہ ٹیم تشکیل پائے گی۔ 

یہ عمل سندھ کرکٹ ایسوسی ایشن کےتحت 20 سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز میں ململ ہونے کے بعد 20 ٹیمیں تشکیل پا جائیں گی پھر ان 20 ٹیموں کے درمیان انٹر سٹی کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد ہوگا اس ٹورنامنٹ کی کارکردگی کی بنیاد پر سندھ کرکٹ ایسوسی ایشن کی ایک ٹیم فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی کے لئے منتخب کی جائے گی اسی عمل سے گُذر کر پورے ملک کی چھ صوبائی ایسوسی ایشنز کی ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی بالکل اسی طرز پر انڈر-19، انڈر-16اور انڈر-13 کی پورے سندھ سے ایک ایک ٹیم تشکیل دی جائے گی۔

واضح رہے کہ پرانے کرکٹ ڈھانچے کے تحت کراچی ریجن کی سات ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن میں کراچی کی دو ٹیمیں ہوا کرتی تھیں جس میں چالیس کھلاڑی قائد اعظم ٹرافی گریڈ ون میں حصّہ لیا کرتے تھے اب پورے سندھ سے ایک ٹیم قائداعظم ٹرافی کے لئے منتخب کی جائے گی ،نئے کرکٹ ڈھانچے کے تحت ہزاروں کھلاڑیوں کو بے روزگار کرکے پی سی بی پورے ملک سے صرف 192 کھلاڑیوں کو سینٹرل کنٹریکٹ دے کر سمجھ رہا ہے کہ اس کی ذمہ داری پوری ہوگئی واضح رہے کہ کرکٹ کے نئے ڈھانچے نے مختلف محکمہ جاتی ٹیموں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کھلاڑیوں سے روز گار کے مواقع چھیننے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کھیلنے کے مواقع بھی چھین لئے گئے ہیں۔

ان کھلاڑیوں کی داد رسی کون کرے گا پاکستان کی کرکٹ کس سمت جارہی ہے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ ہمارے قومی کھیل ہاکی نے بھی پوری دنیا میں عروج حاصل کیا تھا مگر آج ہماری ہاکی غلط فیصلوں کی بنیاد پر کہاں کھڑی ہے سب کو معلوم ہے پاکستان میں کرکٹ وہ کھیل ہے جس کے ساتھ پوری قوم کا دل دھڑکتا ہے پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس جانب توجہ دینے اور اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کا سیٹ اپ واپس لائے بغیر اور ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو بحال کئے بغیر پاکستان کی کرکٹ فروغ نہیں پا سکتی۔

تازہ ترین
تازہ ترین