نہ جانے اقتدار میں کونسی ایسی خاص بات ہے کہ انسان اقتدار کے حصول کے لئے اپنی جان تک دائو پر لگا دیتا ہے، جلا وطنی، جیلیں اور سزائیں برداشت کرکے بھی یہ خواہش مدھم نہیں پڑتی۔ یقیناً اقتدار و اختیار میں کوئی ایسا جادو ہے کہ جب انسان اقتدار میں ہوتا ہے تو آسمان پہ چلتا اور تاروں پر قدم رکھتا ہے اور جب اقتدار سے محروم ہو جائے تو اس کے فراق میں ٹھنڈی آہیں بھرتا رہتا ہے بلکہ میرا مشاہدہ ہے کہ ٹھنڈی آہیں بھرنے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی طرح اقتدار کے حصول کے لئے کوشاں بھی رہتا ہے چاہے اسے چور دروازے سے داخل ہونا پڑے۔ میں لاتعداد ایسے حضرات کو جانتا ہوں جو کبھی وزیر رہے، مشیر رہے، معاونِ خصوصی رہے یا اقتدار کے بہت زیادہ قریب رہے، وہ جب سے محروم ہوئے ہیں ہر وقت ٹھنڈی آہیں بھرتے رہتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح ایک بار پھر گاڑی پر جھنڈا یا ڈنڈا لگانے کی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں حالانکہ گاڑی پہ جھنڈا اہم نہیں ہوتا، ڈنڈا اہم ہوتا ہے جس پر جھنڈا لہراتا ہے۔ میں جب ایسے محرومِ اقتدار حضرات سے ملتا ہوں یا سابق وزراء سے نشستیں ہوتی ہیں تو ان کی آہیں اور فریادیں سن کر اکثر سوچتا ہوں کہ اتنی آہیں تو مجنوں نے لیلیٰ کے لئے، رانجھے نے ہیر کے لئے اور فرہاد نے شیریں کے فراق میں بھی نہیں بھری ہوں گی۔ جنرل ضیاء الحق کے شاہانہ دور حکومت میں ایک معروف خاتون وزیر ہوا کرتی تھیں۔ ان کے شوہر قدرے سخت گیر، تنک مزاج اور افسرانہ مزاج کے مالک تھے اور گھر میں بھی افسری کیا کرتے تھے۔ ان کی بیگم وزیر بنیں تو وہ نہایت وفادار اور تابع فرمان خاوند اور ماتحت ثابت ہوئے کیونکہ خالقِ حقیقی نے انسان میں بڑی لچک رکھی ہے۔ وہ مائلِ پرواز ہو تو ستاروں کو چھو سکتا ہے اور جھکے تو زمین بھی شرما جاتی ہے۔ میں نے زندگی کے طویل مگر مختصر سفر میں یہ دونوں مظاہرے دیکھے ہیں۔ جھکنے والے بروزن خوشامد رفعتیں پاتے رہے، ایک سے ایک بلند رتبہ پاتے رہے اور خودی کو بلند کرنے والے زخم سہلاتے رہے۔ سوچا جائے تو خودی ایک خوددار معاشرے میں قیمتی اثاثہ ثابت ہوتی ہے اور خودداری سے محروم معاشرے میں ایک زخم بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسا زخم جس پر ہر روز ضربیں لگتی رہتی ہیں اور اس سے آرزوئوں اور احساسات کا خون رِستا رہتا ہے۔ جس خودی کے ترانے علامہ اقبال نے گائے تھے وہ تو خود آگاہی ہے لیکن جس خودی کا ذکر ہم کرتے ہیں وہ خودداری اور عزت نفس کی سگی بہن ہے۔
اگر اقتدار دلوں پر راج کرنے کا نام ہے تو سیاست میں ایسا اقتدار بہت کم خوش قسمت شخصیات کو ملتا ہے۔ ویسے بہت کم لکھنے کے بعد خوش قسمت کا اضافہ ضروری نہیں کیونکہ صحیح معنوں میں خوش قسمت حضرات ویسے ہی کم کم ہوتے ہیں۔ ہماری حالیہ تاریخ__ ہم عصر عہد __ میں یہ مرتبہ صرف محمد علی جناح کو ملا اور یہ خدا کی دین ہے۔ اگر اقتدار جسموں پر حکومت کرنے کا نام ہے تو ایسے صاحبان اقتدار کے اسمائے گرامی کی تعداد ماشاء اللہ خاصی زیادہ ہے۔ اگرچہ اقتدار کے تخت پر بیٹھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ بس صرف وہی ایک ہے، نہ اس سے پہلے کوئی تھا اور نہ اس کے بعد کوئی ایسا ہوگا۔ تاریخ کا مطالعہ ایک عجیب سا سبق سکھاتا ہے اور وہ یہ کہ جسموں پر حکومت کرنے والوں کی اقتدار کی آرزو اور ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہر دن بڑھتی رہتی ہے جبکہ دلوں پر حکومت کرنے والے اس خواہش سے تائب ہو جاتے ہیں، وہ ایک مشن کے ساتھ آتے ہیں اور اس کی تکمیل کے بعد رخصت ہونے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کی جدوجہد ’’کرسی‘‘ کے لئے نہیں بلکہ ایک مشن اور منزل کے لئے ہوتی ہے۔ جسموں پر حکومت کرنے والے اقتدار کو اپنا اور اپنی آئندہ نسلوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے اور سیاست کو اپنی مستقل لونڈی بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، چنانچہ دولت کماتے اور روپیہ بناتے ہیں جبکہ دلوں پر حکومت کرنے والے اپنی جمع پونجی بھی ملک و قوم کو دے جاتے ہیں۔ گویا انہیں ایثار اور قربانی میں قلبی راحت ملتی ہے جبکہ جسموں پر حکومت کرنے والوں کو اپنے ذاتی خزانے بھرنے سے قلبی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ مشن، مقصد اور منزل کی لگن سے سرشار حضرات اقتدار کی خواہش یا ہوس نہیں رکھتے بلکہ اقتدار ان کے پیچھے بھاگتا ہے جبکہ اقتدار کی ہوس رکھنے والے عمر بھر اقتدار کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ اسی سفر میں کبھی ان کا اقتدار سے وصال ہو جاتا ہے تو کبھی فراق میں تڑپتے پائے جاتے ہیں۔ گویا ان کی زندگی وصال اور فراق کی کہانی ہوتی ہے جس میں سخت آزمائشیں بھی آتی ہیں اور دار و رسن سے بھی گزرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی ان کی اقتدار کی خواہش اور تخت کی آرزو کا چراغ نہیں بجھتا۔ وہ سب کچھ دائو پہ لگا کے بھی اس کی جستجو میں مصروف رہتے ہیں۔ نہ جانے اقتدار میں کون سی ایسی خاصیت ہے، کون سی ایسی کشش اور لذت ہے کہ انسان اسکے نشے کا عادی (ADDICT) ہو جاتا ہے اور اس کے بغیر اسی طرح خاک چھانتا ہے جس طرح لیلیٰ کے بغیر مجنوں، اُسی طرح تڑپتا ہے جس طرح ہیروئن کے نشے کا عادی۔ اقتدار کی کرسی بڑی بھی ہوتی ہے اور چھوٹی بھی۔ اختیار بڑا بھی ہوتا ہے اور محدود بھی۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ جتنا بڑا اقتدار و اختیار، اتنی ہی بڑی تڑپ۔ گویا اقتدار ایک طرح سے ظرف کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ کچھ ایک گھونٹ پی کر بہک جاتے ہیں اور کچھ پوری بوتل پی کر بھی نارمل رہتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ میں اقتدار کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہ نہیں اور میرا مشاہدہ سطحی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اکثر سوچتا ہوں کہ آخر اقتدار میں کونسی ایسی خاصیت ہے کہ انسان اس کے لئے سب کچھ دائو پہ لگا دیتا ہے۔