یورپ کے مغرب میں واقع’’بیلجیئم‘‘ اہم ترین ملک ہے، جس کی سرحدیں اپنے پڑوسی ممالک، نیدرلینڈ، جرمنی، لیگزمبرگ اور فرانس سے ملتی ہیں۔ اس ملک میں فرانسیسی، جرمن، ڈچ اور ہسپانوی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں، اسی لیے یہاں کے ادب و ثقافت میں تنوع ہے۔ یہ یورپی یونین کے بنیادی رکن ممالک میں سے بھی ایک ہے۔ یہاں سے بہت سارے باصلاحیت ادیب منظر عام پر آئے، انہی میں سے ایک مقبول ترین نام’’جارجز سیمینون‘‘ہے۔
’’جارجز سیمینون‘‘ 13 فروری 1903 کو بیلجیئم میں پیدا ہوئے جبکہ 4 ستمبر 1989 کو سوئزر لینڈ میں انتقال ہوا۔ محتاط اندازے کے مطابق انہوں نے فکشن میں پانچ سو ناول اور مختصر کہانیاں لکھیں۔ جاسوسی ادب ان کا خاص حوالہ ہے، ان کے ایک تخلیق کردہ جاسوسی کردار’’جولیس میگریٹ‘‘ کو بہت شہرت ملی، جس کا تعلق فرانسیسی پولیس سے تھا۔ ان کے ناولوں اور کہانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد سے یورپی فلم سازوں نے استفادہ کیا۔
ان کے کچھ ناول ایسے بھی ہیں، جن میں اپنے ذاتی حالات کو بھی فکشن کے انداز میں قلم بند کیا ہے۔ ان کے زمانہ طالب علمی میں بہت ساری تلخ یادوں کے علاوہ پہلی جنگ عظیم کے دنوں کی یاد بھی ہے۔ ان کی پڑھائی کا سلسلہ بھی کالج سے آگے جاری نہ رہ سکا، متعدد رہائش گاہیں تبدیل ہونے سے بھی ان کی توجہ کئی مرتبہ تقسیم ہوئی، والد دل کے مریض تھے، ان کی دیکھ بھال کے لیے اپنی تعلیم پر سمجھوتہ کیا اور کیرئیر پر بھی، کالج میں اپنے امتحانات میں شامل نہ ہوسکے اور زیادہ تر معمولی نوعیت کی نوکریاں کیں، تاکہ والد کی دیکھ بھال ڈھنگ سے کرسکیں۔
زندگی نے’’جارجز سیمینون‘‘ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا، عام نوعیت کی نوکریاں کرتے کرتے، انہیں ایک اخبار کی ملازمت ملی، جس میں ان کا کام گھوم پھر کر عوامی مقامات سے خبریں اکٹھی کرنا تھا۔ سولہ سال کایہ نوجوان دفتر سے نکلتا، خبریں جمع کرکے دفتر لاتا، اس طرح ان کے اندر موجودتجسس کو فروغ ملا۔ یہ کڑی سے کڑی ملانے کے ماہر ہونے لگے، یہی عادت کہانیاں تخلیق کرنے کے بھی کام آئی۔ رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ قلمی نام سے مضامین اور کالم لکھنے کی ابتدا کی، بیس سال کی عمر تک پہنچ کر کہانیاں لکھنے کا آغاز بھی کر دیا، جوایک فرانسیسی اخبار’’لے ماٹن‘‘میں شائع ہوتی تھیں۔
اسی عرصے میں انہوں نے اپنا پہلا ناول بھی قلمی نام سے لکھ کر شائع کروا دیا تھا۔ 1921 سے 1934 تک’’جارجز سیمینون‘‘ نے 17 مختلف قلمی نام رکھے اور تقریباً چار سو کہانیاں اور ناول لکھے۔ لکھنے میں مخصوص اور تجسس بھرے انداز کو بھی اپنایا۔ رات کی زندگی، تھانہ، کچہری، طوائف، مجرم، وارداتیں، قتل و ڈکیتی اور اس طرح کی دیگر سرگرمیوں کو باریک بینی سے مشاہدہ کیا اور اپنے ناولوں میں بطور کردار استعمال بھی کیا۔
تلاش معاش کے سلسلے میں’’جارجز سیمینون‘‘ کئی ممالک میں رہائش پذیر رہے، جن میں فرانس، امریکا، کینیڈا، سوئزرلینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں یہ فرانس میں تھے اور ان کی ہمدردیاں جرمنی کے ساتھ تھیں، جس کی وجہ سے ان کی شخصیات متنازعہ بھی ہوئی، پھر کچھ جرمن فلم سازوں نے ان کی کہانیوں پر فلمیں بنانے کا فیصلہ کیا تو بھی یہ مشکوک ٹھہرے۔ جس دور میں یہ بطورناول نگار بہت متحرک تھے، ان کے ہم عصروں میں کئی اور بڑے نام بھی متحرک تھے، جس طرح فرانسیسی ادیب البرٹ کامیو، جن کا ایک ناول’’اجنبی‘‘ جس کا عنوان اور تھیم ان کے ناول سے ملتی جلتی تھی، دونوں کا یہ ناول ایک ہی وقت میں شائع ہوا، لیکن وہ اس بات پر بے حد مضطرب رہے کہ البرٹ کامیو کے ناول کوزیادہ توجہ ملی۔
جب یہ کہاجائے، کسی ادیب نے پانچ سو سے زیادہ کہانیاں اور ناول لکھے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے، وہ اپنے لکھنے پڑھنے کے کام میں کس قدر غرق تھا، ان کے سوانح نگار بتاتے ہیں، ان کے لکھنے کا تناسب روزانہ ساٹھ سے اسی صفحات تھا۔ یہاںان کا منتخب کیا گیا ناول’’کلینڈیسٹرپیسنجر‘‘ ہے، یعنی ایک ایساناول جس میں کچھ تجسس پسند نوجوانوں کا گروہ ہے،جن کی منزل تک پہنچنے کی ایک ایسی خفیہ مسافت ہے۔اس ناول پرپہلی مرتبہ 1958میں فلم بنی تھی، پھر دوسری مرتبہ 1995 میں فلم بنائی گئی، یہاں دوسری فلم کو منتخب کیا گیا ہے۔
یہ ناول ایک جرم اور گمشدگی کی کہانی ہے۔ نوے کی دہائی میں بنائی گئی اس فلم کے ہدایت کار’’آگستی ولارونگا‘‘ ہیں، جن کا تعلق اسپین سے ہے۔ انہوں نے دیگر دو کہانی نویسوں کے ساتھ مل کر فلم کا اسکرپٹ بھی لکھا۔ فلم کے فنکاروں میں سوئزرلینڈ، انگلینڈ، اسپین اور دیگر کئی ممالک سے تعلق تھا۔ اس طرح کی کوششوں سے فلم بینوں کو ادب کا ذوق ملتا ہے، قارئین جب ایسی فلمیں دیکھتے ہیں تو سینما کی وسعت پذیری کو سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔