• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکرفردا…راجہ اکبردادخان
 سابق وزیراعظم نواز شریف کی برطانیہ آمد کے بعد سے اگرچہ انہوں نے پاکستانی سیاست پر بات کرنے میں احتیاط کررکھی تھی۔ تاہم انکی شخصیت کے حوالہ سے پچھلے چار برسوں میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں نہ ہی یہاں برطانیہ میں اپنے لوگوں کی بھاری تعداد اور نہ ہی اپنے ملک کے عوام کی ایک بھاری تعداد صورتحال کو جوں کا توں تسلیم کرنے کیلئے تیار ہے۔ حکومت دو برس مکمل ہونے پر اطمینان کا سانس لے رہی ہے کہ ان دو سالوں میں پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن کی تعداد اکثریت کے باوجود اہم آئینی معاملات پر حکومت اپنے اہداف حاصل کرتی چلی آرہی ہے جو حزب اختلاف کے درمیان اختلافات کی نشانی بھی ہے اور اچھی حکومتی حکمت عملی بھی جسکی حالیہ مثال ایف اے ٹی ایف بل پر حکومتی کامیابی تھی۔ حزب اختلاف کا اہم ترین حصہ مسلم لیگ (ن) روزاول سے ایک ذہنی کشمکش میں مبتلا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں حکومت نہ بنا پانے کی شکل میں ایسے حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اسے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک متحرک اپوزیشن جماعت کے طور پر کام کرتے دکھائی دینا چاہئے اور 2023ء کے انتخابات کیلئے بہتر منصوبہ بندیاں کرنی چاہئیں۔ جماعت کے اندر سابق وزیراعظم اور جماعت کے تاحیات قائد نواز شریف کی قیادت میں ایک ایسی مضبوط لابی موجود ہے جس کے لئے پی ٹی آئی کے قائد وزیراعظم عمران خان قومی سیاست میں وہ مقام ہی نہیں رکھتے کہ ان سے کچھ کہا جائے یا مطالبات پیش کئے جائیں ماسوائے ان سے استعفیٰ مانگنے کے۔ مسلم لیگ (ن) ان کو لانے والوں سے ناخوش ہےجسکا وہ برملا اظہار کرتے ہیں اور یہ مطالبہ دہراتے ہیں کہ اس غیر آئینی قدم کی اعلیٰ ترین سطح پر پڑتال ہونی چاہئے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں انکا خطاب جی ٹی روڈ سے اٹھنے والے بیانیہ مجھے کیوں نکالا اور پاکستانی سیاست میں ہمیشہ سے موجود ان دیکھی قوتوں جنکے ساتھ اپنی تین وزیراعظم باریوں میں وہ کام بھی کرتے رہے پر تنقید کا مجموعہ تھا۔ بڑے میاں صاحب سے بھاری توقع یہ تھی کہ وہ جس سمت میں جماعت کو لیکر آگے بڑھنا چاہتے ہیں وہ راہ بے شمار عملی مشکلات سے بھری بڑی ہے اور ان مشکلات پر کس طرح قابو پاکر عمران خان حکومت (بقول انکے بے حیثیت) اور انکو لانے والے نہایت ہی مضبوط طبقہ سے نجات حاصل کرتے ہوئے انکے لئے اقتدار کے دروازے کھل سکتے ہیں؟ وہ اس موضوع پر بھی تفصیل میں نہ جاسکے۔ انکے کانفرنس خطاب سے مزید واضح ہوگیا کہ وہ کسی حال میں بھی ’’مٹی پائو تے آگے چلو‘‘ فارمولہ اختیار کرنے کیلئے تیار نہیں۔ انکی اس اپروچ سے اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انکے اس خطاب کے بغیر کانفرنس ایسا جاندار اعلامیہ سامنے نہ لا سکتی تھی جیسا کہ سامنے آیا ہے اور اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے تمام شریک جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈیموکریٹک اتحاد کی تشکیل بھی ایک اہم سیاسی بندھن ہے جسکی بقا کیلئے تمام شریک جماعتوں کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس اگر اپنے آپ کو نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کے متحدہ محاذ کا جانشین ثابت کرتے ہوئے حکومت کیلئے مشکلات کا سبب بن کر حکومت کو اسکے مطالبات ماننے پر مجبور کردیتا ہے تو یہ پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہوگا۔ ملک کورونا وائرس وبا، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے بڑے مسائل سے دوچار ہے۔ اگرچہ اکثریت اشرافیہ کیلئے ان مسائل کی ذاتی حوالوں سے کوئی حیثیت نہیں، تاہم اکتوبر شروع ہونے میں چند ہی دن باقی ہیں۔ کاشتکاروں کیلئے ملک کے کئی حصوں میں فصلوں کی کٹائی کا وقت سر پر ہے۔ اہم ترین فیکٹرز یہ بھی ہیں کہ ٹاک شوز پر حکومت مخالف بیانات کے علاوہ ملک میں کسی احتجاجی تحریک میں شرکت کیلئے ماحول تیار نہیں ہے۔ ایک اے پی سی کی پشت پر قوم کو ایک خطرناک سفر پر ڈال دینے کے پروگرام ترتیب دے لینا کوئی بڑی قومی خدمت نظر نہیں آرہی۔ ڈیموکریٹک اتحاد نے یقیناً تمام سیاسی ہلچل اسی جھنڈے تلے کرنی ہے جسکی اپنی ہیئت ترکیبی بھی تاحال سامنے نہیں آسکی ہے۔ جلدی میں بنایا گیا یہ اتحاد کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا۔ وجوہات مثلاً کورونا وبا کی موجودگی میں احتجاجی جلسے جلوس کس طرح منعقد کئے جاسکیں گے؟ سوشل ڈسٹنسنگ جس کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ چند ہفتے قبل تھی آج حالات میں جو بہتری آئی ہے اس میں سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل کو بڑا دخل ہے۔ اس بحث میں زیادہ سنجیدگی دکھانے کی ضرورت تھی۔ کیا گیارہ جماعتوں کے قائدین کا یہ احتجاج عوام کو یہ پیغام دینا چاہ رہا ہے کہ انہوں نے عمران خان مخالفت میں اس حد تک جانے کی تیاری کرلی ہے کہ کورونا پھیلے یا کسی دوسری شکل میں عذاب الہیٰ قوم پر اترے وہ اپنے پروگرم کے تحت جلسے جلوسوں کے بعد جوق در جوق اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے اور عمران خان کو گھر بھیج کر ہی دم لیں گے؟ گزشتہ اتوار کے اعلامیہ کی دم سے جڑا یہ Killer Programme قوم کے کسی فرد کیلئے قابل قبول نہیں اور اس اتحاد کی طرف یہ تحفہ قبول نہیں۔ اعلامیہ میں اس بات کی طرف بھی توجہ نہیں دی گئی (اور اگر توجہ دیکر رد کردی گئی ہے) کہ چوبیس گھنٹوں میں روشنی کے اوقات میں بتدریج کمی آرہی ہے کسی کامیاب تحریک یا مارچ کیلئے روشن دن اور شامیں اہم حیثیت رکھتے ہیں تو یہ سوچ بھی اپوزیشن کے Panicy Mindset کی عکاس دکھائی دیتی ہے۔ اپوزیشن کی اعصابی جنگ ہارنے کی وجوہات بھی واضح ہیں اور سب سے بڑی قدغن جو لگائی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اپوزیشن اپنی عددی برتری کے باوجود حکومت کا کچھ بگاڑنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ پاکستان مہنگائی اور بے روزگاری کی سونامی سے نکل کر ایک ایسے مقام پر آکر ٹھہر چکا ہے جسے چاروناچار لوگوں نے قبول کرلیا ہے۔ عوام کے متوسط اور غریب طبقات اس حکومت سے نہ ہی زیادہ ناراض ہیں اور نہ ہی خوش۔ مجوزہ احتجاج کیلئے موجود ہوم ورک کے نشانات بھی نہیں مل رہے اور نہ ہی اپوزیشن پچھلے دو سالوں میں ایک متبادل حکومت کے طور پر قوم کے سامنے کوئی معاشی یا معاشرتی ہمہ جہت پلان سامنے رکھ سکی ہے کہ عمران خان کو گھر بھیج کر وہ کس طرح کا بہتر پاکستان قوم کو اسکے اعتماد کے صلہ میں تحفہ دے سکتی ہے؟ قومی مائنڈ سیٹ فی الحال اپنے روزمرہ کے معاملات میں الجھا ہوا ہے جن کا حل بہت حد تک حکومتی پالیسیوں میں موجود ہے جبکہ حزب اختلاف کے پاس آفر کرنے کو خواہشات کے سوا کچھ نہیں۔ اپوزیشن کے پاس آئیڈلز کے پیچھے دوڑنے کیلئے ہجوم بھی نہیں ہے اس اے پی سی کیلئے بھی اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ اے پی سی قائدین سے تدبر کی توقع رکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ عوام اور ملک کو مزید مشکلات میں دھکیلنے سے رک جائیں گے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر رہے۔
تازہ ترین