• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں ان دنوں جلوسوں، جلسوں کا میلہ لگا ہوا ہے اور اے این پی کے کارکن انہیں حسرت و یاس سے دیکھتے ہوئے عجب ذہنی و نفسیاتی اضطراب سے دو چار ہیں۔ جمعہ کو کراچی میں قائد عوام کالونی (اورنگی ٹاؤن) میں اے این پی کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار بشیر جان کے انتخابی اجتماع پر بم کے حملے کے نتیجے میں11 انسانی جانوں کے ضیاع اور چالیس افراد کے زخمی ہوجانے اور مظفر آباد کالونی میں اے این پی کے قومی اسمبلی کے امیدوار کی گاڑی پر کریکر پھینکنے کے واقعات ان کے اس اضطراب میں مزیداضافے کا سبب بنے ہیں ۔ 2008ء کے وہ دن کہ جب سرخ پرچموں کی بہار تلے انسانوں کے سمندر اپنے قائدین کے خطاب سے مست ہوتے جذباتی کیفیت سے سرشار جلسہ گاہ سے اپنے گھروں کو لوٹتے اور کہاں یہ دن کہ وہ ٹی وی اسکرین پر مختلف جماعتوں کے اجتماعات میں اپنی بے بسی دیکھتے ہیں۔ اگرچہ اے این پی کے اعلیٰ سطح کے عہدیدار سے لے کر عام کارکن تک کے دل و دماغ میں یہ امر جاگزیں ہو چکا ہے کہ انہیں بزور انتخابی سیاسی عمل سے باہر رکھنے کی ناروا کوششیں رواں ہیں، لیکن قدرت کے کمالِ فیاضی سے ان میں وہ احساس محرومی اور انتہا پسند سوچ خال خال بھی موجود نہیں، جو ردعمل پر اکساتی اور اپنا حساب آپ بے باق کرنے کی سمت لے جاتی ہے۔استقامت کی چادر جن کا اوڑھنا اور صبر جن کا بچھونا ہوتا ہے، گردش لیل و نہار ان پر منفی اثرات نہیں تھوپ سکتے۔ انسانی سرشست و جبلت، حدود کو پار کرتے مصائب و مظالم پر بسا اوقات آمادہ بر احتجاج ہو جاتے ہیں۔ تاہم یہ باچا خان جیسے صاحبِ پیکر صبر و استقلال کا فیض ہے کہ طویل آمریتوں کے جبر اور سیاسی آمروں کے قہر کے باوجود اے این پی والے ارض وطن سے کبھی بھی گلہ مند نہیں ہوئے… اور ہوں بھی کیونکر کہ مٹی کی سوندھی خوشبو من میں زندہ رہنے کی امنگ پیدا کرتی ہے۔ ہاں جو اس امنگ کو سنگ سے کچلنا چاہتے ہیں وہ اگرچہ دائرہ انصاف میں لائے جانے کے متقاضی ہیں لیکن پھر بھی جو لوگ جبر کو صبر سے سہتے ہوئے استخلاص وطن کا حق ادا کرتے ہیں، با کمال صرف وہی کہلاتے ہیں۔
بھٹو صاحب کے دور میں جب مظالم سرِ عرش ٹکرانے لگے تو غیور و خوددار بلوچ پہاڑوں پر چلے گئے۔ بلوچ جو نیپ کا حصہ تھے اور جن کیلئے مرحوم خان عبدالولی خان صاحب اپنے قلب و نظر میں اپنائیت و تقدیس کے دریچے وا کئے رکھتے تھے، جدوجہد کے اس انداز کے حامی نہ تھے لیکن تاریخ نے پختون و بلوچوں کو چونکہ ایک لڑی میں پرو رکھا ہے، اس لئے ہر رنگ میں یہ ساتھ ساتھ تو رہے، رجوع مگر بہرصورت موضوع بحث بھی بنا رہا۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ جن اصحاب نے قبرستان کے قبرستان آباد رکھنا تو قبول کیا لیکن انگریز جیسے استبدادی و سفاک دشمن کے خلاف بندوق کے بجائے سیاسی جدوجہد کو ہی اپنا ہتھیار و شعار بنائے رکھا، ان کے پیروکار اپنی مٹی پر اپنے ہی لوگوں کے خلاف کشت و خون کا سودا بھلا کیسے کر سکتے ہیں۔
راقم کو یہ خیال اے این پی سندھ کے سربراہ سینیٹر شاہی سید کا ”مظلوم قومیتوں بالخصوص پختونوں کے نام کھلے خط“ کو پڑھ کر آیا۔ جس درد مندی میں وہ معروضی حالات میں اے این پی کیلئے ”مختص“ سنگینی کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی عمل میں اپنی جماعت کو شامل رکھنے کی خاطر کارکنوں کو تحریک دیتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اے این پی کے رہنما حالات کے اس جبر کو اشتعال تلے لانے اور ہیجان انگیز فضا پیدا کرنے کے بجائے کوشش یہ کر رہے ہیں کہ کارکن پُرامن طور پر سیاسی عمل کا حصہ بنے رہیں اور آزادانہ سیاسی فضا کی عدم دستیابی کے باوجود گھٹن کا ماحول پیدا نہ ہونے پائے۔ لبرل جماعتوں سے اختلاف اپنی جگہ برحق سہی، امتیازی وصف مگر ان کا یہی ہوتا ہے کہ وہ کشاکش و کشمکش کے دوران میانہ روی و اعتدال کا انتخاب کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کی روشن خیالی بلا شائبہ اصل کے نقاب تلے نقل کاشاہکار تھی، وگرنہ روشن خیال اصطلاح ہی روشن ضمیر ہونے کی ہے! مردہ ضمیر زندگی سے فرار اور روشن ضمیر بیدار حیات کے طلبگار ہوتے ہیں۔ شاہ صاحب کے خط کا ایک مطلوب یہی بیداری بھی ہے۔
شاہی سید صاحب نے جہاں اپنے خط میں عوام کو اس امر پر غور کی دعوت دی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ صرف اے این پی کے جلسوں میں بم دھماکے اور رہنماؤں پر حملے کئے جاتے ہیں۔ وہاں علمائے کرام سے بھی استفسار کیا گیا ہے کہ وہ بم دھماکوں میں بے قصور مسلمانوں کی شہادت پر کلمہٴ حق کیوں ادا نہیں کرتے! شاہی سید کا کہنا ہے کہ برما، بوسنیا، چیچنیا، مصر و شام اور نہ جانے کہاں کہاں اگر کوئی قتل ہو جاتا ہے تو پاکستان میں مذہبی جماعتیں مرنے والے کے چہلم تک بیانات اور واویلا مچاتی رہتی ہیں لیکن پاکستان میں بم دھماکوں میں مسلمانوں کی شہادت پر جیسے ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے! شاہی سید کا کہنا ہے کہ اے این پی کے کارکن و رہنما اتنے ہی پکّے مسلمان اور اچھے پاکستانی ہیں جتنا کوئی اور ہو سکتا ہے۔ یہ نکتہ عملی سطح پر بھی مثبت پہلو لئے ہوئے ہے۔ درحقیقت اے این پی کے رہنما جہاں سیاسی طور پر سیکولر ہیں وہاں ان کی نجی زندگی پر دین نے گہرے نقش ثبت کر رکھے ہیں اور ہمارے معاشرے کے تناظر میں یہی حسین امتزاج لبرل ازم کا حقیقی چہرہ ہے، دین بیزار لوگ مذہب کا تمسخر اڑا کر سیکولر ازم کا چہرہ مسخ کر جاتے ہیں۔ سیکولر ازم لادینیت نہیں، غیر فرقہ وارانہ سیاست کا نام ہے۔ برصغیر میں باچا خان سے بڑھ کر سیکولر ازم کا بڑا کوئی داعی نہیں گزرا۔ وہ کانگریس میں تھے لیکن انگریز کے خلاف ان کی تمام تر جدوجہد علمائے کرام کے شانہ بشانہ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسہ دیو بند کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر دنیا بھر میں بڑے بڑے شیوخ، مفتیان عظام اور علمائے کرام کی موجودگی کے باوجود اس تقریب کی صدارت کے لئے حضرت باچا خان کو مدعو کیا گیا۔ آج بھی بود و باش سے لے کر سماجی و معاشرتی تمام افعال تک میں اے این پی کے کارکن و رہنما سر تا پا دیندار ہیں۔ دوسرے معنوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کے تقاضوں کے تناظر میں اے این پی یہاں لبرل ازم کا سمبل ہے۔ اب سیاسی میدان میں سردار علی ٹکر، گلزار عالم اور مشرف بنگش کے اجمل خٹک بابا، غنی خان اور رحمت شاہ سائل کے گائے ہوئے انقلابی گیتوں پر اگر اے این پی کے کارکن اتنڑ (ملی رقص) کرتے ہیں اور ہم اسے غیر شرعی قرار دے دیتے ہیں لیکن جب خلفائے راشدین کا نظام لانے کے دعویدار عمران خان کے جلسوں میں نوجوان لڑکے لڑکیاں ڈسکو میوزک پر مخلوط ”جنون“ کا تماشا کرتے ہیں، ہم اسے عین اسلام مان لیتے ہیں، تو ایسا انصاف تو پھر صرف مملکت خداداد پاکستان میں ہی ہو سکتا ہو گا، باقی دنیا بیچاری تو اس کی نظیر لانے سے ناچار ہی رہے گی۔ درحقیقت ہمارے ملک میں اسلام متنازع ہے ہی نہیں، پھر یہاں کفر اور اسلام کا جھگڑا کیسے۔ راقم اصرار بہ تکرار یہ گوش گزار کرنے کی سعی مسلسل میں ہے کہ پاکستان ہمارا ملک ایک گھر کی مانند ہے جہاں ہم سب ایک چھت تلے جمع ہیں پھر فساد کے بجائے باہم مل بیٹھ کر بات کیوں نہیں کر لیتے۔
بہرکیف شاہی سید کے خط کے وہ مندرجات کارکنوں کو حوصلہ دیتے ہیں جن میں کہا گیا کہ ہماری عدم تشدد کی پالیسی کو مظلوم قومیتوں بالخصوص پختونوں میں پہلے سے بھی زیادہ پذیرائی حاصل ہو رہی ہے اور ہم پر ڈھائے جانے والے ستم کی وجہ سے روٹھے ہوئے ساتھی بھی واپس آ کر اے این پی کے وجود کا حصہ بن گئے ہیں۔ گھر گھر رابطہ مہم میں خواتین کی دلچسپی اور متحرک کردار قبائلی معاشرے میں شعور کی نئی دریافت ہے۔ خط کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انتخابی مہم کے حوالے سے اے این پی کا عوام سے رابطہ ان جماعتوں سے کہیں زیادہ موثر اور مسلسل ہے جن کے بڑے جلسوں کا ذکر عام ہے۔
راقم نے گزشتہ دنوں اے این پی ضلع جنوبی کی ایک ریلی کا مشاہدہ کیا جو شاید اب تک کی انتخابی مہم کی واحد ریلی تھی۔ اس میں کارکن روایتی انداز میں انقلابی نعرے لگا رہے تھے اور بعض مقامات پر اتنڑ کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ ریلی میں ملّی گیت بھی بج رہے تھے جن میں غنی خان کا ترانہ
جنگ لہ دے منصور روان، توپہ نہ تفنگ لری
دا دَ پختنو ملنگ سہ بادشاہی رنگ لری
خاص طور پر جذبوں کو مہمیز دے رہا تھا۔ یہ ترانہ انگریز کیخلاف باچا خان کی جدوجہد کے تناظر میں لکھا گیا ہے کہ کس طرح انگریز سامراج سے معرکے کے لئے باچا خان نہتے روانہ ہوئے۔ توپ و ٹینک کچھ بھی نہ تھا لیکن سرخرو ہوئے اور آج پختونوں کا یہ درویش قربانیوں کے طفیل حکومت نہ ہوتے ہوئے بھی بادشاہ ہے! یعنی دلوں پر راج کر رہا ہے۔ کیا خوب ہو گا کہ اے این پی کے کارکن بھی11مئی کا معرکہ جیت کر اہل پاکستان کو یہ باور کرا دیں کہ جیت بالآخر عدم تشدد کی ہی ہوتی ہے۔
تازہ ترین