اوسلو( ناصر اکبر)کشمیری سکینڈے نیوین کونسل کے سربراہ سردار علی شاہنواز خان نے جنگ لندن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہےکہ پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کو اعتماد میں لئے بغیر ریاست جموں و کشمیر کے کسی بھی حصے سے متعلق کوئی بھی یکطرفہ فیصلہ نہ صرف کشمیر کاز بلکہ پاکستانی مفادات کے لیے تباہ کن ہو گا،انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کے معاملے میں پاکستان کو چاہیے کہ وہ پوری کشمیری قیادت بشمول بیرون ملک آباد کشمیری شہریوں (ڈایسپورہ) کو بھی اعتماد میں لے. اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی آئینی اور قانونی حیثیت کو تبدیل کیے بغیر وہاں کے عوام کو بنیادی حقوق اور سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ان کا احساس محرومی ختم ہو اور مسئلہ کشمیر کو گزند بھی نہ پہنچے، انہوں نے اقوام متحدہ میں تسلسل سے کشمیر پر بات کرنے پر رجب طیب اردگان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کو رجب طیب اردگان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مسئلہ کشمیرپر بات چیت شروع کرنی چاہیے تاکہ خطے سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہو سکے،رجب طیب اردگان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "جنوبی ایشیا کا امن مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے نے مسئلہ میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر لی ہیں. میری خواہش ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل بات چیت کے ذریعے ہو اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیریوں کے خواہشات کے مطابق ہو،انہوں نے کہا کہ ہم کشمیر میں مزید لاشیں گرانا برداشت نہیں کر سکتے۔ اس کا بات چیت کے ذریعے پرامن اور مستقل حل نکالا جانا چاہئے۔" علی شاہنواز کا کہنا ہے کہ صدررجب طیب اردگان کی کشمیر پر خصوصی دلچسپی خوش آئند ہے۔جہاں دنیا کشمیر کے معاملے پر چپ سادھے بیٹھی ہے وہیں ایک شخص ہمارے حق میں تسلسل سے بات کرتا آ رہا ہے۔ اس کی کاوشوں کو سراہا جانا چاہئے۔ اس کے سا تھ پاکستان اور بھارت کو طیب اردگان کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے کشمیر پر بات چیت کا عمل شروع کرنا چاہیئے تاکہ خطے میں پائی جانے والی غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوسکے۔علی شاہنواز نے کہا ہے کہ پاکستان کو اس سلسلے میں کشمیری قیادت اور بیرون ملک مقیم کشمیریوں کو بھی آن بورڈ لینا چاہیئے تاکہ وہ بھی ان پٹ دے سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو مستقبل قریب میں اس مسئلے میں اس قدر پیچیدگیاں آ جائیں گی کہ یہ تیسری عالمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لئے پاکستان اور ہندوستان کو امن کے قیام کی خاطر بات چیت کا سلسلہ شروع کرنا چاہیئے تاکہ اس مسئلے کا مستقل حل نکل سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کوگلگت بلتستان کی حیثیت کی تبدیلی کے حوالے سے جلدبازی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ وہاں کے عوام کو بنیادی حقوق اور سہولیات دینی چاہئیں، اگر گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو تبدیل کیا گیا تو اس سے نہ صرف مسئلہ کشمیر پر اثر پڑے گا بلکہ پاکستان کے مفادات کوبھی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔