ملک بھر میں معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات سے والدین اپنے بچوں کی جانب سے متفکر ہیں۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات سے چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اب تو جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں پولیس کا محکمہ بھی محفوظ نہیں ہے ، ہر ہفتے پولیس اہل کاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ہولناک واقعہ کراچی پولیس چیف کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کا کمپیوٹر ڈیٹا ہیک ہونے کا۔جب لامحدو واسئل اور اختیارات کا حامل پولیس کا محکمہ اپنا تحفظ نہیں کرسکتا تو عوام کی حفاظت کیسے کرے گا؟
نواب شاہ سمیت اندرون سندھ کے مختلف شہروں میں معصوم بچیوں کے اغوا، زیادتی اور قتل کے وقاعات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہشہری سراپا احتجاج ہیں۔ ان کی جانب سے ان جرائم کے مرتکب ملزمان کو عبرتناک سزادینے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے ۔معصوم بچوں اور بچیوں سےزیادتی اور اس کی وڈیو بنانے کے واقعات میں تواتر سے اضافہ ہو ہی رہا تھا کہ زیادتی کے بعدں قتل کرنے کے واقعات میں بھی بتدریج اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ چند روز قبل نواب شاہ شہر کے گنجان آباد محلہ جمشید کالونی میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔
غریب گھرانے کی سات سالہ بچی شمائلہ کی ماں ضروری کام سے گھر سے باہر گئی تھی جب کہ بچی کا والد اس سے پہلے محنت مزدوری پر جا چکا تھا۔بچی گھر میں اکیلی تھی۔ ماں کے جانےکے بعد معصوم بچی نے گھر کی کنڈی بند نہیں کی تھی۔ اسی اثناء میں شدید گرمی کے باعث وہ نہانے گئی اور گیلے کپڑوں کے ساتھ جوں ہی کمرے میں داخل ہوئی تو اس کا سترہ سالہ کزن جو کہ رکشہ چلاتا تھا گھر میں داخل ہوا اور شمائلہ کو نہانے کے بعد بال سکھاتے ہوئے دیکھ کر اس پر شیطان غالب آگیا اور اس نے بچی شمائلہ کے ساتھ زیادتی کی تاہم بچی کی چیخوں اوراس کی جانب سے واقعہ کے بارے میں اپنے اور ملزم کے ماں باپ یعنی اپنے چچا چچی کو مطلع کرنے کی دھمکی دی۔
ان دھمکیوں سے گھبرا کر ملزم نے اسے تیز دھار آلے کا وار کرکے قتل کردیا۔ پولیس کے مطابق ملزم نے گھر میں رکھی چھری سے شمائلہ کا گلہ کاٹ کر اس کو قتل کیا ہے۔ تاہم اسی دوران مقتولہ کا خون ملزم کے کپڑوں پر بھی لگ گیا تاہم اس نے بچی کی نعش رلی چادر میں لپیٹ کر نزدیک ہی واقع خالی پلاٹ میں پھینک دی جب کہ چھری چند گلی آگے بہنے والی گجراواہ نہر میں پھینکی ۔
تاہم اس کے خون آلود کپڑوں کے ساتھ چھری نہر میں پھینکتے ہوئے پڑوس کی ایک خاتون نے دیکھ لیا جو ملزم کو جانتی تھی۔ لیکن ملزم اپنا کام کرکے وہاں سے فرار ہوگیا۔ پولیس کو اس واردات کی اطلاع دی گئی تو اس نے نعش کا پوسٹ مارٹم کرایا اور ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے بچی کے اجزاء لئے گئے۔ پولیس کے مطابق چالاک ملزم نے گھر سے جاتے ہوئے چھوٹی چھوٹی چیزیں اٹھا لیں تاکہ اس واردات کو چوری کی شکل دی جاسکے اور پولیس کو بچی کے ساتھ زیادتی کا شائبہ نہ ہوسکے۔
ملز م نے اپنے خون آلود کپڑے قریبی دھو بی گھاٹ میں جاکر دھونے کی کوشش کی لیکن خون اس کے کپڑوں سےصاف نہ ہوسکا ۔ اس کے بعد ملزم مقتولہ بچی کی تجہیز وتکفین میں پیش پیش رہا تاکہ کسی کو اس پر شک وشبہ نہ ہوسکے۔ ادھر بی سیکشن پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی۔ایس ایچ او ثناء اللہ پہنور اور محمد اقبال وسان جو کہ اس تھانے میں ایس ایچ او رہ چکے ہیں ان کے ہمراہ تفتیشی افسر خان محمد جمالی پر مشتمل تین رکنی ٹیم نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا تو قتل کی گتھیاں سلجھتی چلی گئیں پولیس کے مطابق بچی کے اجزاء کے ساتھ جب اس کے اہل خانہ کے افراد کے ڈی این اے کا مرحلہ آیا تو ملزم غلام حسین جویو نے خود کو بچانے کے لئے ادھر ادھر چھپنا شروع کیا اور ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے تیار نہ ہوا جبکہ اس کے گھرانے کے افراد بھی اس واردات میں باہر کے لوگوں کے ملوث ہونے کا گمان رکھ رہےتھے اور پولیس سے محلے کے مشکوک افراد سے تفتیش کا مطالبہ کررہے تھے۔
تاہم تفتیشی ٹیم کے رکن محمد اقبال وسان کے مطابق جب محلے سے نوجوانوں کو شامل تفتیش کیا گیا تو اس خاتون ، جس نے ملزم غلام حسین کو خون آلود کپڑوں میں چھری نہر میں پھینکتے دیکھا تھا ، ملزم کی شناخت کرلی۔ پولیس نے بچی کے اجزاء کے ساتھ ملزم کا بھی ڈی این اے کرایاتو اس کا سیمپل میچ کرگیا۔ پوچھ گچھ کے دوران ملزم نے زیادتی کے بعد شمائلہ کے قتل کا اعتراف کیا ۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ شمائلہ سے زیادتی اور اس واقعے کا راز کھل جانے کے خوف سے اس نے معصوم بچی کو قتل کرکے نعش پلاٹ پر اور آلہ قتل نہر میں پھینکا۔
پولیس نے ملزم کو گرفتار کرکے مقدمہ ماڈل کریمنل عدالت ون میں پیش کیا جہاں گواہان کی شہادت کے بعد جج آصف مجید قریشی کی ماڈل کریمنل عدالت ون نے ملزم غلام حسین جویو کو پھانسی کی سزا سنائی۔ عدالت نے سزا کے خلاف اپیل بھی مسترد کردی۔