• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے شک اس وقت پاکستان تبدیلی کی شاہراہ پر رواں دواں ہے۔ لوگ اہل زر اور اہل شر کو مکمل طور پر مسترد کر چکے ہیں۔11 ستمبر کی طرح 11 مئی کا دن بھی سرمایہ دارانہ نظام کیلئے ایک یادگار دن بننے والا ہے۔الیکشن کے ایسے نتائج سامنے آنے والے ہیں کہ زر اور شر سکتے کے عالم میں آجائیں گے اور تجزیہ نگار ششدر رہ جائیں گے ۔ویسے شہباز شریف کو کچھ کچھ اندازہ ہوچکا ہے اسی لئے وہ بری طرح بوکھلائے پھرتے ہیں ۔انہیں اپنی فلم فلاپ ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔کیاعجیب بات ہے کہ پچھلے پانچ سال سے خود زرداری کی بی ٹیم کا کردار اداوالے شہبازشریف اس وقت عمران خان کو زرداری کی بی ٹیم کہہ رہے ہیں ۔اُس عمران خان کو۔۔ جوصدر زرداری کو پیپلز پارٹی کیلئے خودکش بمبارقرار دے چکے ہیں ۔نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کے دماغوں پر اس وقت عمران اتنی بری طرح چھائے ہوئے ہیں کہ رات کو سوئے سوئے جاگ پڑتے ہیں یعنی عمران خان ان کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں ۔گذشتہ دنوں میانوالی میں شہباز شریف کے جلسے میں جب اگلی نشستوں پر بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں نے اپنی جیبوں سے تحریک انصاف کے پرچم نکال لئے اورن لیگ کے جھنڈے ڈندوں سے اتار کر ان میں تحریک انصاف جھنڈے ڈال کر انہیں جلسے میں بلند کر دیا توشہباز شریف پاگلوں کی طرح منتظمین پر برس گئے اور جلسہ چھوڑ کر چلے گئے ۔پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کا جو اشتہار ٹی وی پر چلایا ہے جس میں وہ ایک جگہ کہتے ہیں کہ میں نے چھ میں ماہ لوڈ شیڈنگ نہ ختم کی تومجھے شہباز شریف نہ کہنا پھر دوسرے جلسے میں کہتے ہیں میں ایک ڈیڑھ سال میں لوڈشیڈنگ نہ ختم کی تو مجھے شہباز شریف نہ کہنا پھر تیسرے جلسے میں کہتے ہیں میں نے دو سال میں لوڈ شیڈنگ نہ ختم کی تومجھے شہباز شریف نہ کہنا پھر چوتھے جلسے میں کہتے ہیں میں نے تین سال میں لوڈ شیڈنگ نہ ختم کی تو مجھے شہباز شریف نہ کہنا ۔پیپلز پارٹی کے اشتہار پر تبصرہ کرتے ہوئے شہباز شریف نے آصف زرداری کا شکریہ ادا کیا ہے وہ اس کی پبلسٹی کرا رہے ہیں یعنی بدنام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا۔خود سوچئے کہ جو شخصیت اس اشتہار کو اپنی پبلسٹی سمجھ رہی ہے اس کی ذہنی حالت درست قرار دی جا سکتی ہے۔
یہ صورت حال تو ایک ایسے الیکشن کی ہے جسے کسی صورت میں بھی فیئرالیکشن قرارنہیں دیا جا سکتا۔یہ تو وہ الیکشن ہے جس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جن لوگوں کی ڈگریاں جعلی قرار دی تھیں جنہوں نے گذشتہ الیکشن میں جھوٹے حلف اٹھائے تھے جنہیں عدالتوں نے سزائیں بھی سنائیں جو نااہل ہوگئے تھے وہ اہل ہوگئے ہیں ۔ جھوٹے حلف نامے سچے بن گئے ہیں ۔ سزائیں ختم کردی گئی ہیں ۔لوگ یقینا سوچتے ہونگے کہ یہ کیسا انصاف تھا ۔عدل کی یہ کونسی قسم تھی ۔وہ کون لوگ ہیں جو پھر انہی چوروں لٹیروں کو واپس لانے کی تگ ودو میں ہیں جنہوں نے اس قوم کی رگوں سے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لیا ہے ۔یہ سوال بھی پیداہوچکا ہے کہ آئین کا کیا ہوا ہے ۔کیا اس میں سے آرٹیکل 62 اور63کو نکال دئیے گئے ہیں یا آئین کی تشریح کرنے والوں کی آنکھیں کسی چمک سے چندھیا گئی ہیں۔ کسی سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا کہ یہ کیا ہوا ہے ۔یہ کیا ہورہا ہے ۔ مگر ایک بات عوام کی سمجھ میں آچکی ہیں کہ ظالموں نے اس لئے الیکشن کے نام پر جو دامِ ہمرنگِ زمیں بچھایا ہے ۔اس میں پھنس نہیں جانا،عوام نے کیمروں کو زوم ان کرکے اس جال کا ایک ایک تار دیکھ لیا ہے اور سوچ لیا ہے کہ عدالتیں چاہے سب کو آزاد کردیں عوام ان کو معاف نہیں کرے گی جنہوں نے اس کی روشنیاں چرالی ہیں ۔جنہوں نے اس کے چراغ بجھا دئیے ہیں ۔ جنہوں نے اپنے محل بچا کر سارا دیس غربت اور افلاس کی ماری ہوئی جیل میں بدل دیا ہے ۔
قربان میں اس بیٹے پر ۔جس نے اپنے اُس سرمایہ دار باپ سے کہا ہے جو سرمایہ داروں کی ایک پارٹی کی طرف سے ایم این اے کا امیدوار ہے کہ تمام عزتیں اور تمام احترام آپ کیلئے مگر میں آپ کی اس سیاست کا وارث نہیں ہوسکتا جس نے 26سال کے دورِ اقتدار میں اس ملک کو خاص طور پرپنجاب کوکرپشن اور دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں دیا۔میں عمران خان کے ساتھ ہوں۔قربان میں اس لیڈی ڈاکٹر بیٹی پر جس نے اپنے باپ سے کہاکہ میں آپ کی اُس پارٹی کو کیسے ووٹ دے سکتی ہوں جس نے غریب مریضوں سے ادویات چھین چھین کر لاہور میں اس لئے سڑک تعمیر کی ہے کہ اہل لاہور انہیں ووٹ دیں ۔میرے نزدیک تو ادویات کی عدم فراہمی کے سبب جتنی اموات ہوئی ہیں ان کا خون آپ کی پارٹی کی گردن پر ہے۔سومیں نے تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دینا ہے
قربان میں اس طالب علم پر جس نے اپنے بڑے بھائی اور سابق صوبائی وزیر سے کہا کہ میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتاآپ تو ان لوگوں کے ساتھی ہیں جنہوں نے پسماندہ علاقوں کے پانچ ہزار سکولوں کی حالت بہتر بنانے کی بجائے انہیں بند کردیایعنی بیس سے پچیس لاکھ بچوں سے تعلیم چھین کرپندرہ سے بیس دانش سکول بنا دئیے ہیں ۔کیا وہ بیس سے پچیس لاکھ بچے پاکستانی نہیں ہیں۔نہیں نہیں بھائی جان۔ میرے ووٹ کا اگر کوئی حقدار ہے تو صرف اور صرف عمران خان۔قربان میں ان طالب علموں پر جنہوں نے کہاکہ ہمارے ہی پیسوں سے خریدے گئے لیپ ٹاپ سے ہمیں خریدنے والوں کو علم ہونا چاہئے کہ پنجاب کے نوجوان خود غرض نہیں کہ صرف اپنی ذات بارے میں سوچیں ۔پنجاب کے نوجوان توپورے ملک کے متعلق سوچ رہے ہیں ۔سو وہ ان کاروباری لوگوں کے فریب میں نہیں آسکتے۔ سو ہم سب نوجوان اپنا ووٹ تحریک انصاف کودیں گے ۔
مجھے یقین ہے کہ تمام تر خرابیوں کے باوجودیہ انتخابات تاریخ ساز انتخابات ہونگے۔وہ لوگ جن کاپاکستان کے غیور عوام کے متعلق خیال ہے کہ وہ اپنے اچھے برے کی اہلیت سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ غلطی پر ہیں۔عوام تبدیلی کے راستے پر پاؤں رکھ چکے ہیں ۔عوامی اقتدار کا مرکز جاتی عمرہ اور لاڑکانہ کی بجائے میانوالی بننے والا ہے ۔میں اور مظہر برلاس گذشتہ دنوں میانوالی گئے ۔ عائلہ ملک اور امجد خان سے ملاقاتیں ہوئیں، ن لیگ کے امیدوار عبید اللہ شادی خیل سے بھی ملاقات ہوئی۔ لوگوں کے ساتھ بھی گفتگو ہوئیں۔کچھ انتخابی جلسوں میں بھی شرکت کی ۔ہر شخص سے مل کر یہی احساس ہوا کہ میانوالی عوامی اقتدار کا مرکز بننے والا ہے چاہے وہ شخص ن لیگ کا امیدوار عبیداللہ شادی خیل ہی کیوں نہیں تھا۔
تازہ ترین