• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام ہی محفوظ نہیں تو اتنی بڑی سیکورٹی کیوں، چیف جسٹس گلزار احمد

عوام ہی محفوظ نہیں تو اتنی بڑی سیکورٹی کیوں، چیف جسٹس گلزار احمد


اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور پر انکوائری کمیشن رپورٹ اور وفاقی حکومت کے جواب کو پبلک کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے حکومت کو انکوائری کمیشن رپورٹ کی روشنی میں لائن آف ایکشن بنانے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ 

چیف جسٹس گلزار احمدنے ریمارکس دیئے کہ عوام ہی محفوظ نہیں تو اتنی بڑی سیکورٹی کیوں، ہربڑے سانحے کا ذمہ دار چھوٹے عملے کو ٹھہرا دیا جاتا ہے، حکومت کارروائی کرے ورنہ ہم کرینگے، کس کی غفلت کی وجہ سے واقعہ ہواکس نے معلومات نہیں دیں، پتہ چلنا چاہیے۔

جمعہ کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور از خود نوٹس کیس پر سماعت کی ۔دوران سماعت اٹارنی جنرل پاکستان نے سانحہ اے پی ایس پشاور پر قائم کئے گئے انکوائری کمیشن کی مرتب کردہ رپورٹ پر وفاق کا جواب عدالت عظمیٰ میں جمع کرایا۔ 

اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ واقعہ کے ذمہ داران کیخلاف ہر ممکن کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ذمہ داران کیخلاف سخت کارروائی کی جائے تا کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔ 

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے یہ پوری قوم کا دکھ ہے۔ عدالتی معاون امان اللہ کنرانی نے عدالت سے استدعا کی کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے شہدا کے والدین کی مالی معاونت کی جانی چاہیے۔ دوران سماعت سانحہ اے پی ایس پشاور کے شہداءکے والدین بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے، شہدا کے والدین نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ اور وفاقی حکومت کے جواب کی کاپی فراہم کی جائے۔

شہدا کے والدین نے کہا کہ ساری عمر نیچے والوں کا احتساب ہوا، اس واقعہ میں اوپر والے لوگوں کو پکڑا جائے، ہم زندہ دفن ہو چکے ہیں، سانحہ آرمی پبلک اسکول ٹارگٹ کلنگ ہے، جس پرجسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں سیکورٹی میں غفلت کے ذمہ داروں کو بھی سزا ملے، اس کیس کو ہم چلائینگے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ المیہ ہے چھوٹے لوگوں کو ذمہ دار قرار دیدیا جاتا ہے، بڑوں سے کچھ پوچھا نہیں جاتا، یہ روایت ختم ہونی چاہیے۔ 

جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول پوری قوم کا دکھ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو ایکشن لینا چاہیے ایسے واقعات نہ ہوں، وہ لوگ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے انہوں نے حاصل کیا، سکیو رٹی اداروں کواس سازش کی اطلاع ہونا چاہیے تھی، اتنی سکیو رٹی میں بھی عوام محفوظ نہیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کرتے ہوئے انکوائری کمیشن کی رپورٹ اور حکومت کے جواب کی کاپی شہداء کے والدین کو فراہم کرنے کا بھی حکم دیا۔ 

شہید بچوں کے والدین نے چیف جسٹس پاکستان کو 16 دسمبر 2020 کو پشاور میں منعقد ہونے والی دعائیہ تقریب میں شرکت کی دعوت بھی دی، جسے چیف جسٹس نے قبول کر لیا ہے۔

تازہ ترین