روبی ساجد ملک
تعلیم کی اہمیت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ تعلیم کسی بھی قوم کو پروان چڑھانے اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ تعلیم کے بغیرترقی فقط خواب کہا جائے توبے جا نہ ہو گا۔ اگر کسی قوم کے مستقل کو پختہ بنایاجاسکتا ہے تو فقط تعلیم ہی کی بدولت۔ اس لیے کسی بھی قو م کے روشن مستقبل کے لیے نظام کو انتہائی سنجیدہ طریقے سے اپنانا ضروری ہے، لیکن بد قسمتی سے ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کے بیشتر شعبہ جات قیام پاکستان سے اب تک مختلف ادھورے تجربات کا شکار ہیں اور شعبہ تعلیم کا شمار بھی اسی فہرست میں ہوتا ہے۔
اس حساس مگر انتہائی اہمیت کے حامل شعبے میں اول تو کبھی خاص توجہ نہیں دی گئی اوراگر کبھی کسی کو بھولے سے خیال آ بھی گیا تو انتہائی ناقص اقدامات کیے گئے، جس کے باعث ایک منظم نظام کی تشکیل میں رکاوٹیں حائل ہو گئیں اور یہ شعبہ ابھی تک ایک منظم نظام سے محروم ہے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے ہیں کہ ہمارا ذریعہ تعلیم کیا ہونا چاہیے؟ ہمارے نصاب تعلیم میں کن تبدیلیوں کو بروئے کار لا نے کی ضرورت ہے؟نظام کی یہ خستہ حالت ہمارے تاریک مستقبل کا پتہ دیتی ہے۔ ایک ہی ملک میں مختلف نظامِ تعلیم اور طریقہ تعلیم رائج ہیں۔
تعلیم کے نام پر کی جانے والی اصلاحات محض سیاسی نعروں کی حیثیت رکھتی ہیں، جو صاحبِ اقتدار طبقہ اپنی بیش بہا شہرت کے لیے بلند کرتا رہتا ہے۔ کتابیں مفت تقسیم کرنے سے غریب بچے اعلٰی تعلیم معیاری نصاب اور باسہولت درس گاہوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم’’برائے فروخت‘‘ چیزبن کر رہ گئی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ کسی بھی ملک کے تعلیمی شعبہ کودفاع اور معیشت سے بڑھ کر اہمیت حاصل ہوتی ہے ، لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں یہ شعبہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ہے، اگر کسی حکومت نے تعلیمی شعبہ میں دوررس نتائج کے حامل اقدامات کیے بھی تو دوسری آنے والی حکومت نے اسے نامنظور قرار دے دیا اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایک ہی ملک میں کئی اقسام کے نظام تعلیم رائج ہیں۔ ہر اسکول اپنی مرضی کا نصاب منتخب کیے ہوئے ہے۔ سرکاری اسکولوں کے نصاب کا تو یہ حال ہے کہ نسل در نسل ایک ہی سبق رٹا لگوایا جاتا ہے۔ اور یہ اسکول محض غریب طلباء کے لیے ہیں، جہاں صحت مند ماحول اور تعلیمی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع موجود نہیں۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ حکومت کے زیر اثر اسکولوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ بے شمار اسکول تو ایسے ہیں، جن کا اندراج صرف کا غذوں کی حد تک ہے، مگر زمین پر ان کا وجود نہیں۔
اس کے برعکس کاروباری ذہن رکھنے والے افراد میدان میں اترے اور انہوں نے معمولی سرمایہ لگا کر انگلش میڈیم کے لیبل سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہر گلی محلہ میں اسکولوں کی بھرمار ہے۔ انہی اسکولوں سے میٹرک کر نے والے طالبِ علم کو چند سو روپوں کے عوض استاد رکھ لیا جاتا ہے۔ گو کہ ذریعہ تعلیم انگریزی ہوتا ہے، مگر غیر تجربہ کار اساتذہ کے باعث حوصلہ افزاء نتائج برآمد نہیں ہو پاتے۔ ایک ناخواندہ فرد بھی سرمایہ کی خاطر کسی بھی گلی کوچے میں اسکول قائم کر لیتا ہے۔ ان اسکولوں میں تعلیم کی کیا صورت حال ہے؟ اب ان اسکولوں کی کار کردگی پر نظر ڈالتے ہیں، جہاں قوم کی کل آبادی کا صرف ایک فی صد سے بھی کم بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان سکولوں میں انتظامیہ اعلٰی تعلیم اور وسیع تجربے کی حامل ہوتی ہے۔
جدید سہولتوں سے مزین ان اسکولوں میں بچوں کے ذہنی اور جسمانی ضرورتوں کو مدنظم رکھتے ہوئے تعلیمی ماحول میسر کیا جاتا ہے۔ مگر یہ مہنگے اسکول خاص طبقہ تک ہی محدود ہیں۔ یہ ہمارے ملک کی تعلیم کا حال ہے کہ کوئی ایک تعلیمی نظام موجود نہیں، جب کہ بھارت،سری لنکا وہ ممالک ہیں ، جنہوں نے تعلیم کے میدان میں انقلابی تبدیلیاں کیں۔ ان ممالک میں تمام طبقات خواہ غریب ہو یا امیر کے لیے یکساں نظام تعلیم موجود ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ممالک کے نوجوان دنیا بھر کے نامور اداروں میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
اس کے بَرعکس حکومت ِپاکستان نے تعلیمی مسائل سے لا تعلقی اختیار کیے رکھی۔ ہر باشعور قوم زمانے کے ساتھ ساتھ نظام تعلیم میں تبدیلیاں کرتی رہتی ہے، لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران تعلیمی میدان میں بہتری لانے کے لیے اعلٰی سطح پر اقدامات کرنے سے گریز کرتے ہیں، جب کہ اکیسویں صدی میں ترقی کی راہوں پر گامزن اقوام کے قدم سے قدم ملانے کے لیے یکساں تعلیم کی راہ میں موجود رکاوٹیں دور کرنانہایت ضروری ہیں۔
ہمارے تعلیمی اداروں کا اولین مقصد یہی ہونا چاہیے کہ وہ طالب علموں کو اچھی علمی فضا اور نظامِ تعلیم فراہم کرے کہ جس میں تعلیم جدید تحقیق اور بحث و مباحثہ جیسے عوامل موجود ہوں۔ تعلیم یافتہ اقوام کے لیے تعلیمی ادارے انہی بنیادوں پر قائم ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ حکومتِ پاکستان نے ہر دور میں مختلف تعلیمی اصلاحات متعارف کروائیں، لیکن جب تک یکساں نظام کے لیے کوشش نہیں کی جائے گی، تب تک کسی بھی نوعیت کی تعلیمی اصلاحات فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی۔ تعلیم نہ صرف جدید علوم و فنون سے روشناس کرواتی ہے، بلکہ انسان کو انسانیت کی معراج تک پہنچانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جب یکساں بنیادوں پر علم فراہم کیا جائے گا، تو غربت بھی کسی طالبِ علم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ یہ فرض بھی ریاست پر عائد ہوتا ہے کہ وہ ہر بچے کے لیے مساوی تعلیم کی فراہمی کا بندوبست کرے۔
تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:
زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میںآپ اپنےتلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔
ہمارا پتا ہے: ’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن، اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔